فکر انگیز دو تاریخی ناول اور افسانے دوسرا اورآخری حصہ

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو دو حصوں میں منقسم کرنے کی سازش کئی سالوں سے ہو رہی تھی


Naseem Anjum December 26, 2021
[email protected]

جن کے عنوانات ہیں(1)۔غنچہ پھر کھلنے لگا (2)۔کہ چمن سرور کا جل گیا(3)۔نہ جنوں نہ رہا نہ پری رہی(4)۔انسانم آرزو است۔ مصنفہ نے آخری حصے میں ایک سبق دینے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے نفرت ختم ہو جائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو دو حصوں میں منقسم کرنے کی سازش کئی سالوں سے ہو رہی تھی۔ موتیا آپا کا کردار تخریب کار کے طور پر سامنے آیا ہے جو کالج کی طالبات کو سازش کے ذریعے اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں، اسی کالج میں حکومت مخالف اور جمہوریت کی حمایت میں اکثر و بیشتر نعرے لگائے جاتے تھے۔

طالبات کو کلاس سے نکل کر باہر کی فضاؤں میں نعرے لگانا ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ معلوم ہوتا، اسی حوالے سے چند سطور۔ موتیا آپا نیپ کی بہت سرگرم کارکن تھیں، عبدالحمید بھاشانی اس وقت نیپ کے بہت بڑے لیڈر تھے بہت سے طلبا کو ان کی سرپرستی حاصل تھی، ان کی تقریریں ساری فضا میں آگ لگا دیتیں، موتیا آپا کی قیادت میں ہمیں دیوار پھاندنا بہت اچھا لگتا۔ باہر نکل کر ہمارے ہاتھوں میں مختلف بینرز تھما دیے جاتے اور ہم شہید مینار کی طرف ''چولبے چولبے آندولن چولبے'' کے نعرے لگاتے آگے بڑھتے جاتے۔

مصنفہ نے کالج کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹی میں بسنت کا خاص اہتمام کیا جاتا، خصوصاً طالبات کو اس کا بہت انتظار ہوتا، اس دن تمام لڑکیاں سرخ بارڈر کی پیلی ساڑھیوں میں ملبوس ہوتیں، بالوں میں گیندے کے پھول اور ہاتھوں میں اسی پھول کے گجرے پہنے جاتے اردو بولنے والی لڑکیاں پیلا جوڑا اور سرخ دوپٹہ اوڑھتیں، رقص و موسیقی کی اس فضا میں ایک جادو سا تھا۔

مجھے اقبال ڈے کی ایک محفل یاد ہے جو کرزن ہال میں ہوئی تھی۔ مقامی گلوکاروں کے ساتھ ایران سے آنے والا ایک طائفہ بھی خاص طور سے مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں کی ایک بہت خوب رو اور خوش گلو مصنفہ نے پیام مشرق سے اقبال کی ایک فارسی نظم ''شبنم'' گا کر لوٹ لی تھی۔

گل گفت کہ ہنگامۂ مرغانِ سحر چیست

ایں انجمن آرائے بالائے سحر چیست

ایں زیر و زبر چیست یا یانِ نظر چیست

تو کیستی و من کیم ایں صحبتِ ما چیست

برشاخِ من ایں طائرکِ نغمہ سرا چیست

آخری تین مصرعوں کو اس نے ایک عجیب ارتعاش اور جھنکار کے ساتھ ادا کیا تھا، سب طلبا اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر رقص کر رہے تھے۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا کہ فارسی کلام کیوں سنایا جا رہا ہے اس وقت سب کے ذہنوں میں زبان نہیں بلکہ روح پرور موسیقی کا رچاؤ تھا۔

شہناز پروین صاحبہ نے بنگال کے ماحول اور وہاں کے رسم و رواج اور طور طریقوں کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے اور محبت کی داستانوں کو بھی رقم کیا ہے، خاص طور پر ثریا اور امجد کی لازوال محبت کو، جب امجد کو نفرت اور تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے تو ثریا عمر بھر شادی نہ کرنے کی قسم کھا لیتی ہے۔

ناول میں ایسے ایسے دل خراش واقعات درج ہیں جنھیں پڑھ کر دل و دماغ اذیت کا شکار ہو جاتا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے -ناول میں ایسے ایسے شرم ناک سانحات درج ہیں جو آنکھوں دیکھے ہیں اور قریبی دوست احباب نے گوش گزار کیے ہیں۔ ''کتنی برساتوں کے بعد'' بھی خون کے دھبوں کا دھلنا ناممکن ہے کیونکہ ان دھبوں نے دل پر جگہ بنالی ہے، جب دل خاموش ہو جاتا ہے تو یادداشتیں اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ میں مصنفہ کو خلوصِ دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے بنگال کی خونی تاریخ کو خوب صورتی کے ساتھ ناول کی شکل میں رقم کیا ہے۔

''ستمبر کا سمندر'' شاکر انور کے منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ شاکر انور تقریباً تین دہائیوں سے افسانے لکھ رہے ہیں اور بہت خوب لکھ رہے ہیں۔ ان کے دو افسانوں کے مجموعے اور دو ہی ناول قارئین و ناقدین کے ہاتھوں میں آچکے ہیں۔ ''خواب، خوشبو اور خاموشی'' ان کے افسانوں کی پہلی کتاب تھی۔ ''دھواں'' اور ''بلندی'' کے عنوانات سے بے حد دل گداز اور موثر انداز میں ناول لکھے ہیں۔

انھوں نے سوشیالوجی میں ایم اے کیا ہے۔ ساتھ میں روسی اور انگریزی زبان سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ چند سالوں میں انھوں نے اردو ادب کو دو خاص ناول دیے، یہ ناول زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے کامیاب ناول تھے۔ان کے ناول ''دھواں'' نے قارئین و ناقدین کو بے حد متاثر کیا، اسی طرح ان کا ناول ''بلندی'' بھی پسند کیا گیا، یہ ناول سہ ماہی ''زیست'' میں شایع ہو چکا ہے اور اب حال ہی میں کتابی شکل میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ ''ستمبر کا سمندر'' کے تمام افسانے مشرقی و مغربی معاشرے کی تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کی نشان دہی کرتے ہیں، جناب شاکر انور کا بیرون ممالک میں بھی بارہا جانا ہوا ہے۔

اسی وجہ سے ان کے بہت سے افسانے مغربی بود و باش اور طور طریقوں کا پتا دیتے ہیں۔ ان کا ایک افسانہ ''طوفان'' بھی جو مغرب کی بے جا اور مادر پدر آزادی اور فکر کو سامنے لاتا ہے۔ اس موضوع پر کہانیاں شایع ہو چکی ہیں، شاکر انور نے بھی کامیابی کے ساتھ اسے انجام تک پہنچایا ہے۔ نشہ انسان کو نہ صرف یہ کہ بے خود کر دیتا ہے بلکہ بعض اوقات رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ فلوریڈا میں طوفان آیا ہوا ہے لیکن جس طوفان سے مسز ڈیوڈ کا واسطہ پڑا ہے، اس نے ان کے دل و دماغ کو پاتال میں دھکیل دیا ہے۔

قاری کو اس بات کا جلد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسز ڈیوڈ کا اپنا بیٹا گناہ میں مبتلا ہے۔ اس افسانے پر مزید توجہ دی جاتی تو اس کا شمار بہترین افسانوں میں ہوتا۔ اس کے برعکس ''سائرن'' بنت، کردار نگاری اور انسانی نفسیات کے اعتبار سے بے حد کامیاب افسانہ ہے۔ قاری مدتوں اس کے سحر میں گم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ باپ بیٹے کی کہانی ہے، ملوک کے باپ کا نام مٹھل ہے، جو پاگل خانے میں بند ہے۔

دونوں باپ بیٹا معاشرے کے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ظلم، ناانصافی، رشتوں سے محرومی نے ان سے ان کا چین و آرام اور خوشی سے دور کردیا ہے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں جو شخص جس پیشے سے وابستہ ہوتا ہے، اس کے اثرات بھی ان لوگوں پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں جو حساس ہوتے ہیں، لوگوں کے غموں کو شدت سے محسوس کرتے ہیں، اکثر اوقات تو دوسروں کی تکلیف اور درد کو اپنے دل میں اترتا محسوس کرتے ہیں اپنے آپ کو بھول کر ان کے ہی ہو جاتے ہیں جو اس دھرتی ماں پر تڑپ رہے ہیں، سسک رہے ہیں، درد ناک موت کا شکار ہو گئے ہیں۔

مختلف اداروں میں کام کرنے والے وہاں کے ماحول کے اسیر ہو جاتے ہیں، ہمارے اردگرد کتنے ایسے لوگ ہیں جن کی خوشیاں روزگار، چاپلوس اور خوشامدی لوگوں نے چھین لی ہیں، انھوں نے اپنے باس کو اپنے چنگل میں قید کرکے معصوم اور اپنے کام سے مخلص لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔ فلاحی اداروں خصوصاً ایدھی اور چھیپا جیسے ٹرسٹ میں وہ لوگ بھی ملازم ہیں جو روز لاشیں اٹھاتے اور انھیں سرد خانوں میں پہنچاتے ہیں۔

ملوک اور مٹھل بھی ایمبولینس کے ڈرائیور ہیں جو کٹی پٹی سوختہ اور بوسیدہ لاشوں کو کولڈ اسٹوریج میں جمع کرانے کی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ ان دونوں پر لاشوں کے درمیان رہتے ہوئے ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ذہن کو مفلوج کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ شاکر انور نے مکالمہ نگاری اور نفسیاتی الجھنوں اور دماغی انتشار کو افسانے کی شکل میں ایسا موقع پیش کیا ہے جس نے افسانے کو امر کردیا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے طلسماتی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ جہاں شبنم کی ٹھنک، سرد راتوں کا سرور، رات کی رانی کی مہک افسانے کی فضا کو جادوئی محل میں قید کر دیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔