معاشی ترقی کی نشانی
حکومت کو اب سوچنا ہوگا کہ ناکامیوں کا الزام کسی اورکے سرتھوپنے کا وقت اب گذر چکاہے۔
کراچی:
ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے پچھلے دنوں کہا کہ جب بھی معیشت ترقی کرنے لگتی ہے ڈالر مہنگا ہونے لگتاہے۔
دنیا کے تمام ماہرین معاشیات و اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ جس ملک کی کرنسی ڈی ویلیو ہونے لگے سمجھ لو کہ اُس کے معاشی حالات انتہائی خراب اوردگرگوں ہیں،یہ ویسے بھی بہت عام فہم بات ہے۔اس کو سمجھنے کے لیے کسی اضافی قابلیت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے،ہر شخص باآسانی جان سکتاہے کہ روپیہ کیوں بے وقعت ہو رہا ہے۔ضروریات زندگی کی قیمتیں کیوں بڑھتی جارہی ہیں۔
مہنگائی اور گرانی کے پہاڑ کیوں ہمارے سروں پر توڑے جارہے ہیں۔افراط زر کیوں بڑھتا جا رہا ہے، جو ڈالر گزشتہ ستر سالوں میں سوروپے تک مہنگا ہوا تھاکیاوجہ ہے کہ محض اِن تین چار سالوں میں 180تک پہنچ گیا۔کھانے پینے کی تمام اشیاء کیوں ڈبل مہنگی ہوگئی ہیں،جو چینی پاکستان بننے کی تاریخ سے لے کر آج تک 53کلو مہنگی ہوئی تھی اس نئی حکومت کے آنے کے بعد سو روپے سے زائد کیسے ہوگئی۔
ترقی و خوشحالی کے اگر یہی معیارات ہیں تو پھر بربادی اور تنزلی کے معیارات کیسے ہوتے ہیں۔ہماری سمجھ میں نہیں آرہاکہ حکومت کس سوچ اورخیالوں میں گم ہے۔ ڈالر کے مہنگاہونے کوترقی سمجھ لینا ہمارے ذہن اورقلب کو ہر گز گوارہ نہیں ہورہا ۔پی ٹی آئی حکومت جب سے برسراقتدارآئی ہے معاشی بحران بھی ساتھ لائی ہے۔ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں کوئی ایک اچھی نوید بھی سنائی نہیں دی۔
ہربار نئے سال کی آمد پر قوم کو اچھے دنوں کی آمد کی خوش گمانیاں توضرور گوش گذار کی جاتی ہیں لیکن یہ اچھے دن کبھی رونماہوتے دکھائی نہیں دیے۔شروع شروع میں کہاگیاکہ معاشی بحران سابقہ حکومت کی پالیسیوں کانتیجہ ہے،حالانکہ جس طرح کی بد حالی کارونارویاگیاوہ اگر درست ہوتا تومسلم لیگ حکومت کے خاتمہ کے بعد دو تین ماہ کے لیے ایک عارضی اورنگراں سیٹ اپ بھی بنایاگیاتھاجس نے ایک دن بھی یہ شکوہ نہیں کیاکہ معاشی حالات اس قدر خراب اوردگر گوں ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حالات اس قدر ہی برے تھے جیسے کہ پی ٹی آئی حکومت نے بتایاتو وہ نگراں حکمرانوں کو کیوں دکھائی نہیں دیے۔
بعد ازاں 2020ء میں کورونا کی وباء کاسنہرا بہانہ ہاتھ آگیااورپوراایک برس اسی میں گذاردیا گیا۔یہ وہ دور تھاجس میں اگر کچھ نقصانات ہوئے تھے توکچھ فوائد بھی حاصل کیے گئے۔ پٹرول اورآئل کی قیمتیں ساری دنیا میں زمین بوس ہوگئیں اور جس کی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ صفر پرآگیا۔سوچا جائے تو یہ بہت بڑی نعمت تھی جسے حکومت نے اپنی کارکردگی ظاہر کرکے اس کا کریڈٹ بھی اپنے نام کیا۔ اِن تین سالوں میںGDP کی شرح جو نون لیگی حکومت میں 5.8 تک پہنچ گئی تھی گرتے گرتے منفی درجوں میں پہنچ گئی۔
آج کچھ بہتر ہوئی ہے لیکن 2018 مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔حکومت اس بہتر ی کو اپنے ہی دور سے موازنہ کرلے تو اسے کامیابی کہاجاسکتاہے لیکن سابقہ حکومت کے مقابلے میں یہ اب بھی بہت کم ہے۔رہ گیاغیر ملکی قرضوں کاسوال تو یہ کم ہرگز نہیں ہوئے ہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھے ہیں۔حکومت اگر ترقیاتی کام نہیں کررہی تو کم ازکم غیر ملکی قرضوں کابوجھ ہی کم کردیتی تو یہ قوم پر اس کا بہت بڑا احسان ہوتا۔
کہنے کو تو وزراء دن رات قرضے واپس ادا کرنے کے دعوے تو بہت کیاکرتے ہیں لیکن وہ یہ بتانے میں بخل سے کام لیتے ہیں کہ اُن کے دور میں نئے قرضوں کاکتنا بوجھ ہمارے عوام پرڈال دیاگیاہے۔ حقائق گواہ ہیں کہ ستر سالوں میں اگر غیر ملکی قرض 29 ہزارار ب ڈالروں تک پہنچے تھے تو صرف اِن تین سالوں میںیہ بڑھکر 44 ہزارارب ڈالر بن چکے ہیں۔
حکومت کی پالیسیاں خود اس کی سمجھ سے بالاتر ہیں،کسی وزیرکی کارکردگی ماشاء اللہ ایسی نہیں جسے مثال بناکرپیش کیاجاسکے۔ملک کے اندر گیس اور توانائی کے بحران نے گھروں کے چولہے تو بجھا ہی دیے ہیں ساتھ ہی ساتھ ایکسپورٹ کرنے والی انڈسٹری کا بھی بیڑہ غرق کردیاہے۔ ایل این جی وقت پر درآمد نہ کرنے پر حکومت کو آج شدید تنقید کاسامنا ہے۔
اس حکومت کامسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ وقت پر فیصلے نہیں کرتی ہے۔ جب درست اور مناسب وقت گزر جاتاہے تو سودے مہنگے داموں میں طے کیے جاتے ہیں اورجن کاخمیازہ اس قوم کوبھگتنا پڑتاہے۔ ایل این جی سے ہمارے بجلی کے کارخانے چلائے جاتے ہیں۔جب یہ دگنی اور تگنی قیمت پر درآمد کی جائے گی تو یقینا بجلی بھی مہنگی ہوگی اورحکومت ان اضافی اخراجات کو عوام سے وصول کرکے اپنا خسارے تو پورے کرلیتی ہے لیکن غریب عوام کاجینا محال کر دیتی ہے۔
ایسی صورتحال میں عوام کہاں جائیں، وہ اپنا غصہ کیسے نکالیں۔ کے پی کے میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ اگر دیکھاجائے تو ایسی ہی صورتحال کی مکمل غمازی کررہا ہے۔ عوام اگر سڑکوں پر نکل کر اپنے غصے کااظہار نہیں کرسکتے تو کم از کم رائے دہی کے اپنے آئینی حق کو استعمال کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
حکومت کو اب سوچنا ہوگا کہ ناکامیوں کا الزام کسی اورکے سرتھوپنے کا وقت اب گذر چکاہے۔ اپنی حکمت عملی اورکارکردگی کو بہتر بناناہوگا۔ عوام صرف مہنگائی اورروزافزوں گرانی سے تنگ ہیں۔عوام کو اُن کے مسائل اورمصائب سے نکالنا بھی حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے، اسے اگر ٹیم اچھی نہیں ملی تو یہ ٹیم کسی نے بناکے اسے نہیں دی ہے۔ یہ ٹیم اس نے خود بنائی ہے۔
2018 میں حکومتی قیادت نے اپنے ہروزیر کا سہ ماہی جائزہ لینے کا عندیہ دیاتھا،لیکن آج تک کسی ایک وزیر کوبھی اس کی نااہلی پر معطل تک نہیں کیاگیا۔ پھر اس ناکامی کی ذمے داری وہ کس کے سر تھوپیں گے۔جو شخص مخالفوں کو جتنا زیادہ لتاڑ سکے وہی وزارت کے لیے مناسب گردانہ گیا۔ یہی ایک معیار وزراء کے چناؤ کے لیے مقرر کیاگیا اورنتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
سارے کے سارے وزیر اس ایک کام میں سبقت لے جانے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔انھیں اپنے اصل کام سے کوئی سروکارنہیں ہے ۔ وہ سارادن یا تو پریس کانفرنسیں کرتے دکھائی دیتے ہیں یاپھر شام کو ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور پہلوانوں کی طرح انھیں زیر کرنے میں سردھڑ کی بازی لگاتے نظر آتے ہیں۔سوچاجائے تو یہی انداز سیاست اورانداز حکمرانی اس حکومت کے زوال کا باعث بن رہا ہے۔