وہ تمہارے ہیں کون
بھگتو۔کیوں کہ تم کوبھگتنے کے لیے ہی رکھا گیا ہے وہ تو گھوڑے ہیں اورگھوڑے گھاس سے دوستی کریں گے۔
WASHINGTON:
اس دن ایک شخص منہ ناک پھلائے اف اف کرتا ہوا اورساتھ انتہائی ناروا قسم کی گالیاں دیتاہوا آکربولا، کچھ کرو،کچھ لکھو، کچھ بولو،یہ مہنگائی توہماری جان لے کررہے گی، اس کی ایسی کی تیسی اورپھرمہنگائی کی ماں بہن کرنے لگا اورہمیں اچانک ایک بہت پرانا واقعہ یاد آیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ ایک دن اس کی بیوی ''بہو'' سے نالاں ہوکرآئی کہ تم کچھ کہتے کیوں نہیں، منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہو یہ ''بہو'' تو میری جان لے کر رہے گی۔میں نے اس کی اس حالت کودیکھ کر لطف اٹھاتے ہوئے کہا کیا تم وہ عورت نہیں ہوجواس شادی میں خوشی خوشی ناچ رہی تھی، اب بھگتو۔
ہم نے بھی اس مہنگائی کے فریادی سے وہی کہا کہ کیا تم وہ نہیں جو الیکشن میں گلہ پھاڑ پھاڑکربلکہ بٹھا بٹھاکرزندہ باد مردہ بادکرتے تھے،دھرنے دیتے تھے، گلی گلی جھنڈے پھراتے تھے اورہرہرجگہ جھنڈے گاڑھتے تھے، یہ تووہی ''ڈنڈا'' ہے جو اس جھنڈے میں تھابلکہ ہرجھنڈااصل میں ڈنڈاہی ہوتاہے وہی پرانا جو صدیوں سے عوام پرپڑتارہتاہے جوکسی نہ کسی کی کلہاڑی یا کسی پارٹی کا پرچم اوڑھ کے کپڑے میں چھپ کرآتاہے، پرچم بدلتے رہتے ہیں لیکن ڈنڈاوہی رہتاہے۔
کیاتم پاگل ہو ،گدھے ہو،الوہو۔جویہ سمجھتے ہوکہ یہ بڑے بڑے نام والے، کام والے، دام والے ''تمہاری خدمت ''کے لیے نکلے ہیں، اپنا خواب و خوراک حرام کرکے گلیوں کوچوں میں خرام کرکے پھرتے ہیں، کیا ان کو''خدمت''کی ''بھڑ''نے کاٹا ہے، انھیں خدمت خلق کا ہیضہ ہوگیا ہے۔
نیکی کا قولنج ہوگیا ہے یا اچھائی کا کورونا ہوگیا ہے کہ دن رات بے آرام رہ کر ایسے ایسوں کی منت سماجت کرتے ہیں جن کوعام حالات میں ایک نظردیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، ہاتھ ملاتے ہیں توگھرجاکر ناک بھوں چڑھائے جیسے کوڑے کوچھوا ہو،صابنوں اورلوشنوں سے خودکوسدھ کرتے ۔کیا یہ اولیاء اللہ ہیں،مصلحین ہیں، بزرگان دین ہیں جن کو تمہارے غم میں کوئی کل چین نہیں پڑتا۔
اپنی صدیوں سے ''حق حلال'' کی دولت لے کر پہلے ''ٹکٹ''خریدتے ہیں۔اس ٹکٹ پر یاد آیا، ایک الیکشن میں ہم نے ایک مرتبہ بے نظیرکی ایک ریکارڈڈ تقریر سنی جو اسی کے پرستارٹیپ ریکارڈ کے ساتھ فل پاورکالاوڈ اسپیکرلگا کر پورے گاؤں کوسنا رہے تھے، اس حلقے کاٹکٹ ایک ٹھیکیدارکوملاتھا جس نے دوکروڑ روپے ''پارٹی فنڈ'' میں جمع کیے تھے، محترمہ فرمارہی ہیں ۔یہ تمہارا ووٹ تمہارا نہیں ۔قوم کاووٹ ہے،میرا ووٹ ہے ۔
ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ ہم محترمہ کوجواباً کہتے کہ ''قوم''کاووٹ تمہارا ووٹ کیسے ہوگیا اورپھر کیااگر ''قوم'' کاہے توتم ''قوم'' کب سے ہوگئی ہو،کسی کاغذمیں کسی نے قوم کو تمہارے نام لکھا ہے،کہ پہلے ان کودو کروڑ میں بیچااوراب آیندہ کے لیے دودھیل گائے بنا رہی ہو۔
لیکن کہتے ہیں ناں کہ احمق نہ ہوتے توعقل مند بھوکوں مرجاتے،یہ ساراتام جھام تو ان ہی احمقوں کے دم قدم سے ہے جو صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں سے دماغ کے عدم استعمال کابری طرح شکار ہیں اوراب ان کی کھوپڑیوں میں دماغ کی جگہ ایک ایک ''رسیور'' لگا ہوا ہے جوان کے دائرہ استعمال میں ہے جوصدیوں سے دماغ کے کثرت استعمال سے اتنے چالاک عیار اور مکارہوگئے ہیں کہ جس چیزکوچاہیںاپنے مقصدکے لیے استعمال کرلیتے ہیں،مذہب کو،وطن کو ،ملک کو، نعروں کو اورنغموں ترانوں کو... اور ان کی آواز جب خالی کھوپڑوںکے رسیورمیں گونجتی ہے تو ہیپناٹائز ہوکردیوانے بن جاتے ہیں۔
پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ وصہبا مرے آگے
بھگتو۔کیوں کہ تم کوبھگتنے کے لیے ہی رکھا گیا ہے وہ تو گھوڑے ہیں اورگھوڑے گھاس سے دوستی کریں گے یااس پر رحم کریں گے تو بھوکوں مرجائیں گے۔
تم ہوکیا۔ایک مرغی ایک ووٹ اورایک کالانعام مہنگائی ہے ۔مہنگائی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا۔کیاوہ جو آئے ہیں تمہارے لیے آئے ہیں؟ وہ تمہارے ہیں کون؟