اسلام آباد کی غلام گردشیں
صوفیاء کے ہاں سلوک کی منزلیں طے کرنے کے لیے سفر شرط ہے
SAN FRANCISCO:
کئی ماہ ہو گئے کہ اسلام آباد نہیں گیا، دراصل لاہور کی مصروفیات نے دامن نہیں چھوڑا اور چند مجبوریوں نے پاؤں پکڑ لیے ۔ الحمد للہ کہ حکمرانوں سے میری کوئی خاص یاد اﷲ نہیں ہے کہ وہ مجھے یاد کریں اور میں بھاگم بھاگ عازم اسلام آباد ہو جاؤں۔ کبھی کبھار برادرم فواد چوہدری سے ملاقات کو جی چاہتا ہے لیکن ان کی مصروفیات دیکھ کرکنارہ کر لیتا ہوں کہ اقتدار کا ہما سر چڑھ کر بول رہا ہے، عافیت اسی میں ہے کہ بزرگوں کے تعلقات کو سنبھال کر رکھا جائے اور کسی مناسب موقعے پر ملاقات کر لی جائے۔
ایک زمانہ تھا جب لاہور خبروں اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ کالج کے زمانے میں ہم چند دوست ہفتے میں ایک آدھ بار نوابزادہ نصر اللہ خان کے ہاں ضرور حاضری دیتے اور ہماری حاضری یہ ہوتی تھی کہ ان کے ایک کمرے کے گھر کے کسی کونے میں جگہ ملنے پر دبک کربیٹھ جاتے اور ان کے حقے کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ان کی گفتگو اور شاعری سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ کبھی یہ جرات نہ ہو سکی کہ ان سے براہ راست مخاطب ہوں صرف سننے کی حد تک حاضری رہی اور اس حاضری سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔
نواب صاحب کے انتقال کے بعد لاہور کی رہی سہی سیاست بھی اسلام آباد منتقل ہو گئی اور خاص طور پر جب سے ٹیلی ویژن سیاست شروع ہوئی تو اس کا مرکز بھی اسلام آباد ہی ٹھہرا۔ یوں سیاست کا گڑھ آہستہ آہستہ لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا جس کے بعد اب پاکستان میںکسی صوبائی دارالحکومت سے نہیں بلکہ براہ راست اسلام آباد سے حکومت کی جاتی ہے اور خبریں بھی ظاہر ہے وہیں پیداہوں گی جہاں حکومت ہوگی۔
لہٰذا اپوزیشن کا رخ بھی اس طرف ہو گا جہاں اس کی حریف حکومت ہو گی ۔ اخبار نویس کا راس المال خبر ہوتی ہے اور خبروں کے بازار میں کاروبار بھی اسی کا چمکتا ہے جو اس بازار میں موجود ہو۔ لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں کے اخبار نویس خبروں کے معاملے میں احساس محرومی کا شکار ہو چکے ہیں کہ خبر ان تک پہنچتے پہنچتے باسی ہو جاتی ہے اس لیے وہ اسلام آباد میں پیدا ہونے والی خبروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنے اسلام آبادی بھائیوں پر رشک کرتے ہیں۔
اسلام آباد کی آبادی سے پہلے پنڈی خبروں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور فوج کی حکومت میں پنڈی کی خبر حقیقت کے قریب تر ہوتی تھی، سنتے ہیں کہ اس کی تردید کا خطرہ بھی بہت کم ہوتا تھا۔ آج اگر آپ اسلام آباد میں نہیں ہیں یا مستقل بطور پر اسلام آباد کے چکر نہیں لگاتے تو آپ کی اندر کی خبروں تک رسائی نہیں اور جو معلومات ادھر اُدھر سے آپ تک پہنچتی ہیں ہو سکتا کہ وہ مصدقہ نہ ہوں ۔ اسلام آباد خبر سازوں اور خبر نگاروں کا شہر ہے اور اگر کسی خبر ساز یا کسی خبر نگار سے آپ کی یاد اﷲ نہیں ہے تو پھر آپ کے قلم کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔
صوفیاء کے ہاں سلوک کی منزلیں طے کرنے کے لیے سفر شرط ہے، اب سمجھ میں آتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ۔ انسان گھر سے باہر نہ نکلے تو اس کا وژن بڑھ نہیں سکتا لیکن ناقابل برداشت گرانی نے حصول علم کے لیے بھی سفر سے محروم کر دیا ہے۔ ان حالات میں لاہور والا لاہور کا 'کراچی والا کراچی کا اور اسی طرح دوسرے شہروں والا کنویں کا مینڈک بن جاتا ہے ۔
اسلام آباد میں مقیم ہمارے بیشترحکمرانوں کا تعلق بھی لاہور سے ہے لیکن وہ لاہور کو بھول چکے ہیں اور جب کبھی بھولے بسرے سے ان کی لاہورآمد ہوتی ہے تو کوئی ایسا مستقل سیاسی ٹھکانا نہیں جہاں پران اہل اقتدار سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکے کیونکہ لاہور کے سیاسی ڈیرے ویران ہو چکے ہیں ۔
لاہور میں سب سے آباد ڈیرہ نواب نصر اللہ خان کا ہوتا تھا جو ان کی وفات کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا البتہ کبھی کبھار کسی ایسے سینئر سیاستدان سے لاہور کے جم خانہ کلب میں ملاقات ہو جاتی ہے جو سیاست کی تیز رفتاری میں پیچھے رہ گیا ہے اور اب ایسے متروک سیاستدانوں کے پاس قصے کہانیاں ہی باقی رہ گئی ہیں۔
ایسے قصے کہانیوں میں ایک جہاں پوشیدہ ہوتا ہے لیکن یہ کہانیاں سر عام سنائی یا لکھی نہیں جا سکتیں۔لاہور میں توہمارے قہوہ خانے کی گپ شپ بے معنی ہوتی ہے لیکن اسلام آباد کے جدید قہوہ خانوں کی گپ شپ بھی بے معنی نہیں ہوتی اور خاص کر غیر سیاسی ڈیروں اور بیٹھکوں کی گپ شپ میں تو ایک جہاں پوشیدہ والا معاملہ ہوتا ہے اور اسی گپ شپ کا ہمارے اسلام آبادی دوست ہم پر رعب جھاڑتے ہیں اور خاص کر کے جب حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری حصے میں ہواندرون خانہ حالات سے آگاہی کا اندازہ اسلام آباد جاکر ہی زیادہ بہتر طریقے سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اصل بات زبان یا دل سے نہیں چہرے کے تاثرات سے ظاہر ہوتی ہے ۔
دور بیٹھ کر فقط قیافیہ شناسی ہی کی جا سکتی ہے اور آج کی تیز رفتار زندگی میں قیافیہ شناسی سے قارئین مطمئن نہیں ہوتے کہ ان کے پاس معلومات کے اور بھی بہت سے ذرایع ہیں۔ بہر حال میں اپنی معلومات کو تازہ کرنے اور اپنے دل و دماغ کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے عازم اسلام آباد ہوں ۔جہاں کی سیاسی بیٹھکوں اور غیر سیاسی ڈیروں میں سرگوشیوں کو بغور سننے کی کوشش کروں گا اور جہاں تک ہو سکاجان کی امان پاکر ان معلومات کو قارئین کے ساتھ شیئر بھی کروں گا۔