لاہور دھرتی پر ایک نگینہ
شہر انسان کے اندر بستا ہے، آدمی شہر کے اندر نہیں بستا
میرے ایک بہت ہی معزز و مکرم کرم فرمانے ایک ملاقات کے دوران باتوں ہی باتوں میں ایک بہت ہی خوبصورت جملہ کہا، '' کہ شہر انسان کے اندر بستا ہے، آدمی شہر کے اندر نہیں بستا''۔دراصل بات ہو رہی تھی شہروں کے شہر لاہور کی۔وہ جو کہا گیا ہے کہ ''نہیں ریساں شہر لاہور دیاں'' تو یہ بات بہت بڑا سچ ہے۔
اس حقیقت کو صرف وہی جان سکتا ہے جو شہرِ لاہور کا باسی ہو،اس کے گلی کوچوں میں پل کر بڑا ہوا ہو اور پھر کسی وجہ سے لاہور سے دور ہو جائے۔لاہور کی بودو باش رکھنے والا لاہور سے نکل کر جہاں بھی رہے لاہور واقعی اُس کے اندر بسا رہتا ہے۔ایسا شخص جب بھی لاہور لوٹتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے جیسا اس کا خون بڑھ گیا ہو۔لاہور پورے علاقے کا سب سے بڑا اور دنیا کا ایک اہم شہر ہے۔یہ ایک لبرل،پروگریسو اور کاسموپولیٹن شہر ہے۔ اس کی اپنی ایک کلچرل شناخت ہے۔یہ شہر کب آباد ہوا،اس کو بسانے والے کون تھے، یہ صحیح طرح سے معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔
سکندرِ اعظم کے ساتھ سفر کرنے والے مورخین نے لاہور کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ شاید یہ شہر اُس وقت تک ابھی اتنا اہم نہیں ہوا تھا۔Ptolemyٹولمی نے اپنے جغرافیہ میں دریائے راوی کے حوالے سے لاہور سے ملتے جلتے نام والے ایک شہر کا ذکر کیا ہے۔چینی سیاح ذوآن زانگ نے اپنے سفر نامے میں علاقے کے ایک شہر کا نام لیے بغیر بہت تفصیل سے شہر میں پائی جانے والی کثرت و ثروت کوبیان کیا ہے۔علاقے میں لاہور کے سوا کبھی کوئی دوسرا قابلِ ذکر شہر نہیں رہا۔
982عیسوی کی ایک اہم دستاویز ''حدودِ عالم'' میں لاہور کا ایک ایسے شہر کی حیثیت سے ذکر ہے جہاں شاندار مندر، بڑی بڑی منڈیاں اور خوبصورت باغات کی کثرت ہے۔1152عیسوی میں لاہور کو غزنوی سلطنت کا مشرقی کیپیٹل بنایاگیا تب سے تختِ لاہور اہم رہا ہے۔اس پر مختلف ادوار میں ہندوؤں،سکھوں اور مسلمان حکمرانوں کا قبضہ رہا ہے،البتہ اس کی شان و شوکت کو مغل عہد میں چار چاند لگے۔مغل بادشاہ جہانگیر اور اُس کی ملکہ نور جہاں کو یہ شہر بہت پسند تھا، اسی لیے دونوں نے ایک لمبا عرصہ یہاں قیام کیا اور آخری قیام گاہ کے لیے اسی شہر کو منتخب کیا۔ مغل حکمرانی کے بعد سکھ قابض ہو گئے اور اس شہر کو پشاور سے کشمیر تک پھیلی سکھ سلطنت کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی آزادی کی جدوجہد میں اس شہر نے کلیدی کردار ادا کیا۔قیامِ پاکستان کے بعد یہ صوبہ پنجاب کا مرکزی شہر بن گیا۔
برِ صغیر پر حملہ کرنے والے شمال مغرب کی طرف سے ہی آتے رہے ہیں۔ان حملہ آوروں کو لاہور میں داخلے کے لیے کشتیوں کے پل والے دریائے راوی کو عبور کرنا پڑتا تھا۔یوں دریائے راوی لاہور کے دفاع میںاہم کردار ادا کرتا تھا۔ دریائے راوی میں چار پانچ دہائیاں پہلے تک بہت پانی ہوتا تھا اور مون سون میں تو دریا بے کراں ہو جاتا تھا۔بھارت نے مسلسل آ بی دہشت گردی کرکے ہمارے دریاؤں کو ان کے پانی سے تقریباً محروم کر دیا ہے۔دریائے راوی میں اب بہت کم پانی بہتا ہے ۔ اب شمال مغرب کی جانب سے لاہور کو کوئی خطرہ نہیں۔اب مشرق سے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن ہم نے بھارت کی سرحد کے ساتھ ساتھ پوش آبادیاں بسا دی ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہمیں بھارت کی جانب سے کسی حملے کا اندیشہ نہیں رہا۔
لاہور خوبصورت باغوں کا شہر رہا ہے۔شالیمار باغ کا حُسن تو مثالی ہے۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد لاہور کے شہریوں نے قائدِ اعظم کو اسی تاریخی باغ میں ظہرانہ دیا۔ عظیم قائد اس کے دل کو لبھانے والے ماحول سے بہت خوش ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو دور میں جب لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی گئی تو مسلمان ملکوں کے سربراہان کو یہاں ضیافت دی گئی اور وہ اس کے حُسن میں کھو گئے۔لاہور مال روڈ پر گورنر ہاؤس کے بالمقابل لارنس گارڈن( باغ جناع) میں موسمِ سرما کی سُرمائی شام اتنی حسین اور دل لبھانے والی ہوتی ہے کہ یہاں سے قدم ہی نہیںہٹتے۔ تھوڑی تھوڑی دھند میں جب روشنیاں جگمگاتی ہیں تو سحر طاری ہو جاتا ہے۔
اسی باغ میں جناح) لارنس (ہال جسے اب ایک اہم اور خوبصورت لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کے پورچ کے پُر شکوہ ستون کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔دریائے راوی کے دونوں کناروں کے ساتھ پھل دار پودوں کے بے شمار باغات ہوتے تھے۔یہ باغات اب نظر نہیں آتے۔لاہور کی پرانی فصیل کے ساتھ ایک سرکلر باغ بنایا گیا تھا۔آبادی میں روز افزوں اضافے نے شہر کو بہت پھیلا دیا ہے۔جہاں باغ اور کھیت کھلیان تھے وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی مشروم گروتھ ہے۔لاہور کے باغات اور ملحقہ کھیت ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے نگل لیے ہیں۔
لاہور اپنے تعلیمی اداروں اورقدآور اساتذہ کے طفیل طلبا اور علم دوست افراد کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے۔ لاہور کا یہ اعزاز پاکستان میں کوئی دوسرا شہر اب تک چھین نہیں سکا۔اس شہر مین بہترین اسکول ہیں لیکن سینٹرل ماڈل اسکول مثالی ہے۔سینٹرل ماڈل اسکول کا طالبعلم ہونا ایک اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتی تھی۔ لاہور کے تین کالج اپنی مثال آپ تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور نے تو علامہ اقبال جیسی نابغہء روزگار ہستی کی آبیاری کی۔اس کالج کا پرنسپل ہونا کسی اہم سے اہم حکومتی عہدے سے زیادہ باعزت تھا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز اور ایف سی کالج نے پاکستان کو اعلیٰ پائے کے اہلِ علم، سیاستدان، اساتذہ، بیوروکریٹ اور کھلاڑی دیے ہیں۔مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی (اولڈکیمپس) روشن مستقبل کی آس لگائے ہر فرد کی منزل رہی ہے۔
لاہور خوبصورت تاریخی عمارات کا شہر ہے۔مال روڈ پر ایچ ای سن کالج، اسٹاف کالج، گورنر ہاؤس،لارنس ہال،واپڈا ہاؤس، اسمبلی ہال، ہائی کورٹ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، جنرل پوسٹ آفس،ٹولنٹن مارکیٹ،عجائب گھر، یونیورسٹی اولڈ کیمپس،این سی اے کی تاریخی عمارات لاہور کا حسن ہیں۔لاہور قلعہ، بادشاہی مسجد،مینارِ پاکستان،مسجد وزیر خان اور برِ صغیر کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن لاہور، یہ ساری عمارتیں بشمول اندرونِ شہر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔
لاہور اپنے عظیم اور ہر دلعزیز اولیائے کرام کی وجہ سے بہت بابرکت شہر ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ شہر پر ان اولیائے کرام کا دستِ شفقت ہے۔حضرت علی ہجویری داتاگنج بخش پر ہر وقت زائرین کا جمِ غفیر رہتا ہے ، باہو فقیر انہاں نوں آکھو،قبر جنہاں دی جیوے ہو، کی عملی شکل یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔حضرت میاں میر، حضرت شاہ جمال،بی بی پاک دامناں اور شاہ حُسین کے دربار مرجع خلائق ہیں۔اگر کسی نے اصلی دھمال کا تجربہ کرنا ہو تو ہر جمعرات حضرت شاہ حسین کے مزار پر کیا جا سکتا ہے۔
روز افزوں بڑھتی آبادی کی وجہ سے لاہور شہر کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔چند دہائیاں پہلے تک داتا صاحب کے سالانہ عُرس پر مزار شریف کے ارد گرد اور بھاٹی گیٹ کے اطراف بے پناہ رش کی وجہ سے گزرنا مشکل ہوتا تھا۔اب لاہور کی ہر گلی،ہر سڑک پر داتا صاحب کے عرس کا سماں ہوتا ہے۔لاہور کی ٹھنڈی سڑک مال روڈ پر اتنی ٹریفک ہوتی ہے کہ پیدل چلنے کر ترجیح دی جا سکتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ اور انڈر گراؤنڈ سب وے مسئلے کا حل ہو سکتے ہیں۔لاہور میں صفائی کا معیار بہت اعلیٰ رہا ہے لیکن بدلتے حالات میں اکثر آبادیوں میں گندگیوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ سیورج کا گندا پانی ہر جا دیکھنے کو ملتا ہے مارکیٹوں کے ساتھ پارکنگ نہیں ہیں۔کافی عرصے سے کوئی بڑی اچھی لائبریری بھی نہیں بنی۔ امن و امان کی حالت بھی خراب ہے۔ ان مسائل پر قابو پانا ہو گا۔
لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ علامہ اقبال جیسی عظیم ہستی نے اس شہر کو اپنے قیام سے جلا بخشی۔ اقبال کی طرح فیض صاحب جیسے بڑے شاعربھی سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوئے۔پاکستان کے ادبی منظر پر لاہور سب سے درخشاں مقام ہے۔اسی لیے اسے UNESCO City of Literature قرار دیا گیا ہے۔لاہور فنونِ لطیفہ کا مرکز ہے۔
قلعہء لاہور اور شالیمار باغ کو UNIESCO World Heritageکی حیثیت دی گئی ہے۔ لاہور دھرتی پر ایک خوبصورت نگینہ ہے۔ مشہور شاعر جان ملٹن نے Paradize Lost کی گیارھویں کتاب میں لاہور کو اچھے الفاظ میں جگہ دی ہے۔برِصغیر کے چوٹی کے افسانہ نگار جناب سعادت حسن منٹو نے لاہور کو ان خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔"لاہور کتنا سلونا لفظ ہے۔ لاہوری نمک جیسے نگینے گلابی اور سفید،جی چاہتا ہے کہ انھیں تراش کر چندن ہار میں جڑ دوں اور کسی مُٹیار کی ہنس جیسی سفید گردن کے گرد ڈال دوں۔ لاہور سے جدائی پر جی آپ ہی آپ بھر آتا ہے۔ ایک انجانے غیر مرئی محبوب کی یاد ُہوک بن کر اُٹھتی ہے۔ لاہور کی فضا میں نور گھُلا ہے"۔