واپسی
مہنگائی کے سونامی میں روز ڈوبتے ہیں اور روز ابھرتے ہیں
PARIS:
کلینڈر کے ہندسے تبدیل ہوگئے 2021 کا سورج، اپنے دامن میں مختلف النوع واقعات، حادثات، خواہشات اور ناتمام حسرتوں کو سمیٹے، ڈوب گیا اور 2022 کا سورج نئی امیدوں، امنگوں، تمناؤں اور آرزوؤں کی کرنیں بکھیرتا طلوع ہو چکا ہے، قومی زندگی کے تین اہم کرداروں عوام، حکومت اور اپوزیشن کا جائزہ لیں تو سال گزشتہ میں سب سے زیادہ دل گرفتہ، مایوس اور پریشان حال اگر کوئی رہا تو وہ عوام تھے جو گزشتہ تین سالوں سے وزیر اعظم عمران خان کی ''گھبرانا نہیں'' کی گردان سنتے آ رہے ہیں۔
مہنگائی کے سونامی میں روز ڈوبتے ہیں اور روز ابھرتے ہیں۔ روزگار ان کے پاس نہیں، گھروں میں فاقوں کا ڈیرہ، کھانے پینے کی روزمرہ اشیا ان کی قوت خرید سے باہر اور اس پر مستزاد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن ہونے والا اضافہ گرانی کے گراف کو مزید اوپر کردیتا ہے۔ پھر قیامت ٹوٹتی ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں پر۔ اول تو عوام بجلی، گیس کی آنکھ مچولی سے اس قدر پریشان کہ گھروں میں اندھیروں کا راج اور کھانا پکانے والے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ مہنگائی کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
دسمبر 2021 میں روز مرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں 11.5 سے بڑھ کر 12.8 کا ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جو گزشتہ تقریباً دو برس میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ حکومت اپنے تمام تر دعوؤں اور وعدوں کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ بالخصوص غربت کے خاتمے، نوکریوں کی فراہمی اور مہنگائی کم کرنے کے تمام حکومتی دعوے نقش برآب ثابت ہوئے۔ 30 دسمبر 2021 کو حکومت نے قومی اسمبلی میں ''منی بجٹ'' پیش کرکے پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا۔
وزیر اعظم عمران خان جو اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی سے تعبیر کرتے تھے آج اپنی مجبوری قرار دے رہے ہیں کہ معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ازبس ضروری ہے جس کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مانے بغیر چارہ نہیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ امریکا کے دباؤ کے باعث اس مرتبہ آئی ایم ایف کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ اس کے شدید دباؤ کے باعث کڑی شرائط مجبوری میں تسلیم کرنا پڑیں۔ ساڑھے تین سو ارب کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ عوام پر دو ارب کا بوجھ پڑے گا۔
آج عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ وہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں دو روپے کا اضافہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اب منی بجٹ سے تو ہر چیز کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوگا جو عام آدمی کے لیے ناقابل قبول ہے۔ لوگ ضرور زندہ درگور اور خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے آئے دن غربت، بے روزگاری اور گرانی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کرنے والے بے بس لوگوں کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں لیکن حکمران ہیں کہ ''گھبرانا نہیں'' کی گردان سے آگے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، نئے سال میں بھی عوام کو مہنگائی کے نئے عذاب جھیلنا پڑیں گے۔
قومی زندگی کے دوسرے کردار حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہر محاذ پر سوائے ناامیدی و مایوسی کے کچھ نہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ کرپشن کے خلاف احتساب کرنا تھا لیکن آج ان کی اپنی حکومت میں کرپشن کہانیاں جنم لے رہی ہیں، کہیں چینی اسکینڈل، کہیں آٹا اسکینڈل اور کہیں ادویات کے اسکینڈل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے گھر سے احتساب اور بالخصوص اپنی ذات سے احتساب شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن ان کا سارا نزلہ اپوزیشن کے خلاف گر رہا ہے جسے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
معزز ججز صاحبان کے فیصلوں کے دوران دیے گئے بیشتر ریمارکس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوتا رہا ہے کہ نیب کی احتساب کے حوالے سے کارکردگی قابل فخر اور اطمینان بخش نہیں ہے۔ صرف اپوزیشن کے خلاف احتساب کے مقدمات سے غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف احتساب کا عمرانی دعویٰ نقش برآب ثابت ہوا اور یکطرفہ احتساب کا غلغلہ حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو کرپٹ افراد سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے اور 50 لاکھ گھر دینے کے جو وعدے کیے تھے وہ سحر اب ٹوٹ رہا ہے۔ ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کسی بھی زاویے سے دیکھیں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر جانب ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔
عوام میں تیزی سے بددلی، مایوسی اور بے چینی پھیل رہی ہے، کے پی کے، کے بلدیاتی انتخابات میں حکومت کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک سبق ہے ۔ (ن) لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی افواہوں سے حکمرانوں پر گھبراہٹ کے آثار ہویدا ہیں کہ خود وزیر اعظم کا یہ بیان کہ سزا یافتہ مجرم کو وطن واپس لا کر چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں، پریشانی کا اظہار ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر متحد ہونے اور حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کے وعدوں کے باوجود اپوزیشن کی کارکردگی بھی صفر+صفر ہے۔ اپوزیشن بار بار حکومت گرانے کی تاریخ پہ تاریخ دیتی رہی لیکن آج تک کوئی ٹھوس، جامع اور مربوط حکمت عملی کے تحت حکومت کے خلاف جاندار تحریک چلانے میں کامیاب نہ ہو سکی الٹا پی ڈی ایم میں اختلافات ابھرنے لگے اور پیپلز پارٹی نے اپنی راہیں جدا کرلیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت نے کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مولانا اور پی ڈی ایم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے لیکن کے پی کے میں (ن) لیگ کی ناکامی نے اس پر مایوسی طاری کردی ہے۔ تاہم اپنے قائد میاں نواز شریف کی واپسی کی خبروں کو (ن) لیگ خوب ''کیش'' کروا رہی ہے۔ صاحب دانش تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ طاقتور حلقوں سے (ن) لیگ کی ''ڈیل'' کی خبریں محض افواہیں ہیں فی الحال میاں صاحب کی واپسی ممکن نہیں۔ لیکن حکومت اپنی گھبراہٹ چھپانے اور خفت مٹانے کے لیے اب میاں صاحب کو واپس لانے کے کاغذی دعوے کر رہی ہے۔