ہم سبق نہیں سیکھتے

با قدر صحافت اب اس دیس میں ’’شجر ممنوعہ‘‘ قرار دے دی گئی ہے


وارث رضا January 09, 2022
[email protected]

جب ہم تاریخ کے اوراق کو کھنگالتے ہیں تو نہ کسی حیرانی کا گمان ہوتا ہے اور نہ عوام پہ راج کرنے والی قوتوں کے مزاج میں تبدیلی یا عوام دوستی کو دیکھ پاتے ہیں۔

لگتا ہے کہ ہم اب تک بابل اور نینوا کی اسی شاہانہ اقتدار کے پیروکار ہیں کہ جس میں بادشاہ اپنی رانی کی خوشنودی حاصل کرنے میں بغداد کے ارد گرد کے باغات اپنے اقتدار کے زعم میں قبضہ کرکے عراق کے '' بابل'' کو رانی کی محبت میں دان کر دیتا ہے اور تمام ریاستی وسائل اس شہرکی خوبصورتی پر اپنی خواہش کے نتیجے میں لگا دیتا ہے ،گو جنگوں اور طاقت کے خدا نہ نینوا کو چھوڑتے ہیں اور نہ عراق کا جدید ترین بابل رہ پاتا ہے۔

یہ چار ہزار سال قبل مسیح کا وہ ورق ہے ، جو آج کے جدید دور میں بھی پلٹا نہیں ہے ، جس طرح اس وقت کے سمیریوں نے اظہار کے وسائل اور شاہوں کی خرمستیوں کو عوام تک پہنچانے کے لیے لفظ یا زبان کو دریافت کیا اور بادشاہ کے کارناموں کو عوام تک کسی نہ کسی صورت میں پہنچایا ، اسی طرح آہستہ آہستہ اظہار کے نئے زاویوں سے دنیا روشناس ہوئی اور عوام تک جلد سے جلد ریاستی امور پہنچنا شروع ہوئے، مگر اظہار کی زبان بندی بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنا طاقت کا بادشاہی نظام ، ہم جب آج کی جدید دنیا میں اظہار کی آزادی کے ذرایع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آج بھی اپنا سماج قرون وسطی کے اسی جبر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے جوکہ آج سے ہزاروں سال قبل تھا۔

اس جدید دور میں بھی ہم اب تک سماج کے اظہاریے اور بیانیے کی گمشدگی پر بے بس و لاچار دکھائی دیتے ہیں ، ہر زندہ شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کے اظہار کی آزادی نہ چھینی جائے مگر سماج کی جبر اور ریاستی طاقت میں گم شدہ اظہارکی آزادی یا اس کے لاپتہ بیانیے کی فکر سے وہ غافل نظر آتا ہے، معاشرتی اظہار کی آزادی سے بیگانگی کا یہ عمل کسی بھی طور سے معاشرتی ترقی نہیں، بلکہ جبر و طاقت کی وہ جونک ہے جو طاقت کے خدائوں نے اپنے اقتدار کی سلامتی کے لیے افراد پر مسلط کر رکھی ہے ، جس میں کبھی کبھار بولنے کی آزادی یا جبر کو معاشرتی غل غپاڑے کی صورت اظہار کا موقعہ دے کر دراصل عوام کو ریاستی امور سے دور رکھنے کا وہ بھیانک کام کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام صرف کاٹھ کے الو کا کردار ادا کرتی رہتی اور ریاست کے مراعات یافتہ عوام پر راج کرتے رہتے ہیں ، اسی بھیانک کھیل میں عوام سوال اٹھانے کی صلاحیت سے محروم کر دیے جاتے ہیں ، بلکہ آج کی سیاست میں جھوٹ اور فریب کے بیانیے کا اتنی فراوانی اور ڈھٹائی سے دفاع کیا جاتا ہے کہ عام فرد انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔

موجودہ عہد میں صحافت کے دائو پیچ کی سمت اب ہمارے مارکیٹنگ کی نظرکر دی گئی ہے کہ جس میں سیاسی امور اور ملکی حالات پر تبصرے یا خبر بھی اخبار یا چینل کی مارکیٹنگ کے اصولوں پر رکھ دی گئی ہے ، جس سے سماج کا اجتماعی شعور سکڑ کر سیاسی جماعتوں کی پسند و نا پسند پر تبصرے کرتا رہتا ہے، اور سنجیدہ صحافت اب ''دانش'' کی بڑ ہوگئی ہے۔

ہم جب ماضی کی تاریخ کے دھارے اور رسالے '' لیل و نہار'' یا امروز کی صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ریاست ، ہماری صحافت کے عوامی شعور پھیلانے کی جرات اور حوصلے کو وقت کا ضیاع تصور کراتی ہے، جس میں عام صحافی کی سیاسی سماجی اور تحقیقی صلاحیت بے کار پرزے کے طور پر پیش کی جانے کا چلن عام کر دیا گیا ہے۔

سنجیدہ صحافت کی وہ قدریں جو صحافت کے اہل دانش نے بہت محنت سے قائم کیں، جدید دور میں ان کی ترقی کے برعکس ان میں تنزلی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے ، با قدر صحافت اب اس دیس میں ''شجر ممنوعہ'' قرار دے دی گئی ہے ، آج بھی عوام کے سیاسی شعور اور سماجی شعور کو سینچنے میں وہ ایڈیٹوریل ایک مضبوط حوالے ہیں جو سبط حسن ، فیض احمد فیض یا چراغ حسن حسرت نے طے کیے ، مگر کیا ہماری صحافتی نئی نسل ان صحافتی قدروں اور ان ذمے داریوں سے آگاہ ہے جو مذکورہ اہل صفا کے دانشور صحافیوں نے تمام تر جبر اور دبائو کے باوجود اپنی سیاسی دانش سے سماج کو دیا۔ جواب نا ہی میں ملے گا ، مگر وہ صحافت کے چراغ جو سبط حسن نے جلائے آج بھی کہیں نا کہیں ٹمٹما رہے ہیں،جو امید پیہم کی طرح اہل صحافت کے حوصلے بلند کیے ہوئے ہے۔

بات جب صحافتی قدروں اور سماج کو سیاسی شعور دینے کی ہو تو بھلا اس ادارتی رائے سے انکار ممکن ہے جو جرات کے ساتھ مارشلائوں میں لکھا گیا،اگراس وقت کے چھپنے والے اداریوں پر کان دھر لیا جاتا یا ان اداریوں کی پیش بندی کو سنجیدگی سے دیکھا اور سمجھا جاتا تو آج ہم سیاسی اور معاشی طور سے ایک ناکام ریاست نہ ہوتے،ہمارا شمار ایک جھوٹے بیانیے کے تحت دنیا میں رسوا نہ ہوتا،1958 میں لیل و نہار لکھ رہا تھا کہ'' عام انتخابات ہونگے بھی یا نہیں اور ہونگے تو کب؟کیونکہ محلاتی سازشوں اور ہر آن بدلتی ہوئی وزارتوں کی مصلحت اندیشیوں کے اس ماحول میں کوئی شخص بھی پیش گوئی کی جرات نہیں کر سکتا۔

لیکن آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ عام انتخابات کے بارے میں ہمارے اندیشے درست نکلیں۔''اور تاریخی طور پر ایسا ہی ہوا کہ ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اتار کر مارشل لاء میں تبدیل کیا گیا، اسی طرح ایک اور اداریئے کی یہ سطریں جو 1957 میں لکھی گئی،تاریخ کا وہ بھیانک سچ ہے کہ جس سے مفر ممکن نہیں کہ''گزشتہ دس سال میں ارباب اقتدار کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہمارے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا راج ہے مگر فعل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اب تک پانچ مرکزی حکومتیں بدلی جا چکی ہیں۔''

ان دو اداریوں کے تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ 2008 کے بعد لولی لنگڑی دوجمہوریتوں کو بھی اسٹبلشمنٹ نہ برداشت کر سکی اور آر ٹی ایس ٹیکنالوجی کی آڑ میں موجودہ حکومت عوامی جمہوری مرضی کے بر خلاف نافذ کردی گئی ہے ، دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی قانونی حیثیت اور خود مختاری کو دائو پر لگایا جارہا ہے تو دوسری جانب عوام مہنگائی کی چکی میں پیسی جا رہی ہے اور حکومتی وزرا نیرو کی باسری بجاتے ہوئے ''سب اچھا'' ہے کی مسلسل رٹ لگا رہے ہیں، جو کسی بھی طور جمہوری رویہ یا پارلیمانی جمہوریت نہیں کہی جا سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں