ہم وہ قوم ہیں
ہم کہنے کو ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں لیکن ہمارے فیصلے کہاں ہوتے ہیں ہمیں شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے
ہم ایک عظیم قوم ہیں جو ہر نابینا شخص کو حافظ کہ کر پکارتی ہے، ننگ دھڑنگ ننگے کو ملنگ سمجھتی ہے، فقیر کو شاہ اور بد شکل عورت کو حسینہ کا نام دیتی ہے، بلکہ ہمارے یہاں پچھلے چند سالوں سے تو صادق اور امین کا تصور بھی بدل چکا ہے اور اب تو برانڈ کا مطلب بھی نا کامی اور نا اہلی سمجھا جانے لگا ہے۔
ایک شخص جو کارکردگی کے لحاظ سے ہر شعبہ میں ناکام رہا ہو لیکن وہ خود کو برانڈ کہہ کر پکارتا ہو ، ہم اسی کو سچ سمجھنے لگتے ہیں ، ہم بحیثیت مجموعی ایک شخصیت پرست قوم ہیں۔ جہاں قابلیت اوراہلیت سے زیادہ پرسنلٹی اورظاہری بناؤ سنگھار اور حسن کو پسند کیا جاتا ہے ، جو جتنا زیادہ اسمارٹ اورجاذب نظر ہوگا ، اچھی انگریزی بولتاہوگا ، اچھی تقریر کرسکتا ہوگا ، چاہے کارکردگی میں صفر ہو مگر وہ ہی ہمیںزیادہ قابل قبول اوراہل معلوم ہوتا ہے۔
کرکٹ میں بھی جتنے کھلاڑی انگریزی ٹھیک طرح بول نہیں سکتے چاہے اپنے کھیل میں بہت بڑے ماہر ہوں لیکن ہماری نظروں میںوہ وقعت نہیں رکھتے جو فر فر انگریزی بولنے والے کھلاڑی رکھتے ہیں ، جب کہ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہے، وہاں قابلیت اوراہلیت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ چائنا کو لے لیجیے وہاں کے کسی حکمراں کو انگریزی نہیں آتی ، وہ صرف اپنی قومی زبان جانتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے ملک کوکہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ دنیا کے اورممالک کو لے لیجیے جس ملک نے بھی ترقی اورخوشحالی کی منازل طے کی ہیں سب نے اپنی قومی زبان کو فوقیت دی ہے۔
وہاں حکمرانی کے لیے خوبصورت ہونا لازمی اور ضروری نہیں ہوتا۔ وہاں کے تمام صدور اور سربراہ مملکت جب کسی بین الاقوامی تقاریب اورکانفرنسوں میں تقریرکرتے ہیں تو صرف اپنی قومی زبان میں اور وہ بھی پہلے سے لکھی ہوئی ، مگر کسی نے انھیں پرچی والا حکمراں کہہ کر نہیں پکارا۔ یہ احساس کمتری صرف ہمارے یہاں کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو شخص فی البدیہہ بول نہیںسکتا وہ ایک اچھا حکمراں ثابت نہیں ہوسکتا۔
اردگرد کے تمام حکمرانوں کو لے لیجیے ، بہت سے حکمرانوں کو تودنیا جانتی بھی نہیں لیکن انھوں نے اپنی قوم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ملائیشیا کے سابق حکمراں مہاتیر محمد کے ہم بہت دلدادہ اور مدح سراہ ہیں انھوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کو بہت ہی کم عرصہ میں ایک ترقی یافتہ ملک اور قوم بناکے دکھا دیا۔ لیکن کیا وہ ظاہری طور پر ایک اسمارٹ اور خوبصورت لیڈر تھے۔
نہیں وہ ایک عام سی صورت اور قدوقامت رکھنے والے وہ شخص تھے جنھوں نے اپنی کارکردگی سے ساری دنیا کو متاثر کرکے دکھا دیا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی حسینہ واجد بھی ایک عام سی شکل و صورت رکھنے والی اور عام سے کپڑے پہننے والی وہ عورت ہے جس نے اپنی کارکردگی سے اپنی اہلیت اور قابلیت کا لوہا منوا لیا ہے۔
انھوں نے بنگلادیش کو آج ہم سے بہت آگے پہنچا دیا ہے کہ ہم اب اُن سے آنکھیں بھی ملا نہیں سکتے۔ اُن کی معیشت ہم سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔ اُن کی کرنسی ہماری کرنسی کی نسبت بہت مضبوط ہے ۔ یہ ساری کامیابی محترمہ حسینہ واجد نے چند سالوں میں حاصل کی ہے۔
جب سے وہاں غیر جمہوری طالع آزماؤں کو نکیل ڈالی گئی ہے وہاں سیاسی استحکام قائم ہو پایا ہے اور اسی استحکام کی بدولت معاشی استحکام بھی پرورش پاسکا ہے۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں مارشل لاؤں کے ادوار کو جمہوریت سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ آج بھی آمریت اورغیر جمہوری ادوار کو ایک اچھا طرز حکمرانی سمجھتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کم ازکم سیاسی استحکام تو دکھائی دیتا ہے۔ جو بھی فیصلے ہوتے ہیں صرف ایک شخص اور فرد واحد کے مرضی و منشاء سے ہوجاتے ہیں۔ سارے فیصلے غیر ملکی طاقتوں کے ایماء پر ہوتے رہے ، وہ فیصلے جو ایک جمہوری دور میں نہیں کیے جاسکتے تھے وہ اِن آمرانہ ادوار میں کردیے گئے اور جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
ہم کہنے کو ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں لیکن ہمارے فیصلے کہاں ہوتے ہیں ہمیں شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ ہم آج سے پہلے اپنی مرضی سے اپنا وزیر خارجہ بھی مقرر نہیں کرسکتے تھے اور اب ہم اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی اپنے کسی مخلص اور ایماندار شخص کو نہیں لگا سکتے ہیں۔
آج اگر اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے فیصلے ہورہے ہیں تو ہمیں اس کی وجہ بھی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ لمحہ فکرکی بات ہے کہ ہم ایسے فیصلے کرکے کن لوگوں کے مفاد کو ملکی وقومی مفاد پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کی اپنی مرضی و منشاء سے ہورہا ہے۔ یا وہ صرف کسی کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔
1993 میں جس طرح جناب معین قریشی کو اچانک باہر سے درآمد کرکے اس ملک کا عارضی وزیراعظم بنا دیا گیا تھا اسی طرح آج مختلف اداروں میں ہو رہا ہے ، جوکام انھیں سونپا گیا ہے وہ یہ کام مکمل کرکے ویسے ہی روانہ ہوجائیں گے جیسے جناب معین قریشی روانہ ہوگئے تھے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حکومت کے وزرا اور دیگر اہلکار اِن غلط اور نامناسب فیصلوں کی حمایت میں صبح و شام اپنی توانائی خرچ کرتے ہوئے پریس کانفرنسیں کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ انھیں اس حمایت کے عوض کوئی اضافی اعزاز اور تمغہ بھی نہیں ملنے والا۔ وہ استعمال کیے جارہے ہیں ۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے ، یہ کبھی بھی مستقل نہیں رہتا۔
ہمیں اپنے اس غیر دائمی اقتدارکو بچانے کی فکر میں قوم و ملک کے مفاد کے خلاف فیصلوں کے بجائے باعزت طریقے سے ازخود اس سے انکار کرتے ہوئے قوم کی نظروں میں سرخرو ہونے کو عزیز اورمقدم رکھنا چاہیے ، اسی میں ہماری عزت اور بقاء ہے۔