چلی کا انقلاب
چلی میں ایک اسٹوڈنٹ لیڈر بورک کی کامیابی امید کی ایک کرن ہے‘ یہ تاریخ کا ایک بہت اہم موڑ ہے
لاہور:
چلی کے مرحوم کمیونسٹ صدر سیلویڈور آلندے اورانقلابی شاعر پبلو نرودا کی روح بہت خوش ہوگی' 19دسمبر کو چلی کے عوام نے سامراجی سازشوں سے ناکام انقلاب کو دوبارہ زندہ کردیا 'چلی کے عوام نے امریکی ایجنٹ جنرل پنوشے کی وراثت کو ایک بار پھر شکست دے دی۔
لاطینی امریکا کے ملک چلی کے عوام نے حال ہی میں35 سال کے بائیں بازو کے نظریات کے حامل نوجوان گبریل بورک (Gabriel Boric) کو بھاری اکثریت سے اپنے ملک کا صدر منتخب کیا ہے 'اگر چہ دنیا ان کے انتخاب پر حیران ہو رہی ہے لیکن چلی میں یہ تبدیلیاں اچانک رونما نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے پیچھے ترقی پسند اور سامراج دشمن سیاست کا ایک تسلسل ہے۔
جب کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فسٹو کی آخری دو سطروں میں یہ لکھا کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو ! ایک ہو جاؤ' تمہارے پاس اپنی زنجیروں کو کھونے کے علاوہ اور کچھ نہیں'' تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ جغرافیائی سرحدوں کے باوجود ساری دنیا کے محنت کشوں کے ایک جیسے طبقاتی مفادات ہیں'وہ ایک ہی عالمی برادری کے رکن ہیں'ان کو جہاں بھی کامیابی ملے 'آسٹریلیا سے لے کر چلی کے ساحل تک 'وہ تمام محنت کشوں کی کامیابی ہے۔
ہم سب کو یاد ہے کہ ماضی میں کس طرح چلی کے عوام دوست صدر سلویڈور آلندے کو قتل کرکے وہاں جنرل پنوشے نے اپنی فسطائی آمریت قائم کی تھی 'چلی پر عشروں تک ظلم کا اندھیرا چھایا رہا 'انقلابی شاعر پبلو نرودا بھی اس ظلم کا شکار ہوئے'20دسمبر کا سورج طلوع ہوا'تو تاریکی کا عشروں طویل دور ختم ہوا' 35سال کے سوشلسٹ نوجوان گبریل بورک نے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں 56فی صد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
Boric کو نہ صرف کمیونسٹوں بلکہ تمام عوام دوستوں اور جمہوریت پسندوں کی حمایت حاصل ہے' انتخابات میں فیصلہ کن فتح کے حصول کے بعد Boricنے اپنی پہلی تقریر میں پانچ اہم اور قابل ذکر باتیں کیں اور اپنے انتخابی منشور کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ پرائیویٹ پنشن اسکیم جو امیر طبقوں کے فائدے میں بنائی گئی ہے 'کوختم کردیں گے 'وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میںایسی اصلاحات اور اتنی سرمایہ کاری کریں گے کہ غیر مراعات طبقہ بھی مستفید ہو سکے 'ماحولیاتی تبدیلی کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔Boricنے اپنے لیے Millennial Leftist کا لقب استعمال کیا ۔
ایک زمانے میں پورے لاطینی امریکا میں فیڈل کاسترو واحد کمیونسٹ حکمران تھے 'اب وینزویلا' میکسیکو' ارجنٹائن 'پیرو' ہنڈوراس اور برازیل میں عوامی حکومتوں کی تعداد بڑھ کر سات تک جا پہنچی ہے 'انقلابی لیڈر چے گویرا کے وطن بولیویا میں حال ہی میں کمیونسٹوں نے پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے 'یہ سب کچھ سامراجی امریکا کے پچھلے صحن (Back Yard) میں ہو رہا ہے'جس کو امریکا نے اپنا دائرہ اثر قرار دیا ہے اور وہ لاطینی امریکا میں انقلاب مخالف تحریکوں اورآمروں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
1972کے آلندے انقلاب کی سامراجی سازشوں کے نتیجے میں ناکامی کے بعد اب چلی میں دوبارہ تبدیلی کی ہوا چلی اور نوجوان گیبرئیل بورک ملک کا صدر بن گیا ' انھوں نے ایک بدحال ملک کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا ہے 'بورک نے ایک ایسے ملک میں زمام اقتدار سنبھالا ہے جس کو بدترین پارلیمانی نظام 'اور خراب ترین معیشت کا سامنا ہے ۔
لاطینی امریکا میں تبدیلی کا عمل صرف چلی تک محدود نہیں ہے'لاطینی امریکا میں گزشتہ بیس پچیس سال کے دوران کئی ترقی پسند تحریکیں ابھریں' بورک جیسے رہنماء سامنے آئے 'نیو لبر ل ازم کے خلاف 90کی دہائی میں سب سے بڑی تحریک میکسیکو میں زپسٹا کی شکل میں ابھری 'پھر ویزویلا میں شاویز' بولیویا میں ایوا مورالس 'برازیل میں لولو کے علاوہ' ایکویڈور' ہنڈیورس 'یوراگوئے اوردیگر ملکوں میں بھی انقلابی تحریکیں ابھریں'اسی سال ہی پیرو میں ایک نوجوان سوشلسٹ ٹیچر صدر منتخب ہوا۔
1970 میں پہلی دفعہ چلی میں ڈاکٹر آلندے کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی کسی پرتشدد انقلاب کے بجائے انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آئی لیکن سامراجی سازشوں سے یہ انقلاب ناکام ہو گیااور جنرل پنوشے کی آمرانہ حکومت نے ظلم و جبر کا بازار گرم رکھا'اس کے بعدوینزویلا' بولیویا اور دوسرے ممالک میں جمہوری طور پر سوشلزم کے تجربے ہوئے لیکن سازشوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے لیکن سرمایہ داری اور نیو لبرل ازم کے خلاف جنگ جاری ہے اور اس کی بڑی مثال چلی میں بورک کی کامیابی ہے۔
اس کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاطینی امریکا میں امریکی سامراج کی ناک کے نیچے انقلابی تحریکیں زندہ ہیں۔امریکا میں ترقی پسند تحریکوں پر پابندی تھی لیکن اب وہاں بھی برنی سینڈرز اور برطانیہ میں جرمی کاربائن جیسے لوگ' یہاں تک کہ پوپ فرانسس بھی کھلم کھلا سرمایہ داری پر تنقید کر رہے ہیں'یہ سب نشانیاں پوری دنیا کے ترقی پسند لوگوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے اور امید بھی کہ سوشلزم کا نظریہ ابھی زندہ ہے اور لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ابتداء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی' پنڈی سازش کیس اور بعد میں'آزادی اظہار رائے پر پابندی 'افغان جہاد کے پٹرو ڈالر 'کے نتیجے میں کمیونزم کے خلاف منفی پروپیگنڈہ 'جنرل ضیاء کی رجعت پسند پالیسیاں'اور آمروں کی سختیاں وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے بائیں بازو کے ادیبوں' دانشوروں 'اور لیڈروں کو عوام سے رابطہ کرنے اور وہاں اپنی جگہ بنانے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا'پاکستان کے نوجوان بھی تبدیلی کے چکر میں عمران خان کی سیاست میں پھنس گئے ' نوجوانوں کا حقیقی پلیٹ فارم بائیں بازو کی سیاست ہو سکتی ہے 'اگرطلباء یونینوں سے پابندی ہٹائی جائے اور ان کو یونین سازی اور تنظیم سازی کے مواقع دیے جائیں تو یقین ہے کہ ان میں بھی گبرئیل بورک جیسے جوان پیدا ہو سکتے ہیں جو قوم کو اس فرسودہ نظام سے نجات دلا سکیں۔
چلی میں ایک اسٹوڈنٹ لیڈر بورک کی کامیابی امید کی ایک کرن ہے' یہ تاریخ کا ایک بہت اہم موڑ ہے 'جس میں ترقی پسند اپنے آپ کو منظم کرکے متحرک کریں'نظر آرہا ہے کہ یہ دنیا بھر میں لیفٹ کی نشاط ثانیہ کا دور ہے 'اب نہ صرف انقلابی قوتیں منظرعام پر آرہی ہیں بلکہ ان کے نظریات میں پختگی بھی آرہی ہے 'پرانے طریقوں کے بجائے اب سوشلزم کی نئی تعبیر اور طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔ایک امر واضح ہے کہ سرمایہ داری نظام نے انسان کا سکون و آرام چھین لیا ہے۔
نیو لبرل ازم ایک پالیسی ماڈل ہے 'جس میں سیاست اور معیشت دونوں شامل ہیں'جس کے مطابق بنیادی طور پر معاشی عوامل کا کنٹرول سرکار سے نجی شعبے کو منتقل کر دیا جاتا ہے 'نیو لبرل ازم کی بہت سی پالیسیاں آزاد منڈی کے سرمایہ داری نظام کو مضبوط کرتی ہیں اور اس کو بڑھاتی ہیں'اور حکومتی اخراجات' حکومتی ضابطے' اور عوامی ملکیت پر حدیں لگانے کی کوشش کرتی ہیں'نیو لبرل ازم کے حامی اس کو اقتصادی شرح نمو یعنی ترقی کے لیے اہم اور ضروری خیال کرتی ہیں' جب کہ مخالفین ان پالیسیوں کو معاشرے میں عدم مساوات گہری کرنے یعنی امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں'گبرئیل بورک نے اعلان کیا ہے کہ ''چلی کو نیو لبرل ازم کا قبرستان بنائیں گے''۔