مری کی اموات سارا وطن سوگوار ہے

افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اتنی اموات کا ذمے لینے کے لیے تیار نہیں ہے


Tanveer Qaisar Shahid January 10, 2022
[email protected]

لاہور: مری کے مرغزاروں اور برف زاروں نے ہمارے دو درجن کے قریب معصوم پاکستانی سیاحوں کی جان لے لی ہے۔

موت اور شہادت کی وادی میں اُترنے والے یہ بے گناہ پاکستانی جس بے بسی ، بے کسی اور اذیت میں زندگیوں سے محروم ہُوئے ہیں، اس المناک احساس نے ہم سب کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ سارا ملک مری پر حملہ آور برف اور بارش کے طوفان میں گھِر کر موت سے ہمکنار ہونے والے اپنے ہم وطنوں کی یاد میں سوگوار اور غمزدہ ہے ۔

ہر گھر سے آہیں اور اشک اُبل رہے ہیں۔ حکومت اور حکمرانوں سے شکوے اور گلے کیے جا رہے ہیں۔ اور حکمران ہیں کہ حسبِ معمول اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے ۔اِن کے بیانات اور لہجوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہی بات نتھر کر سامنے آتی ہے کہ مرنے والے سیاح اس سرد اور ہلاکت خیز موسم میں اپنے گھروں سے نکلے ہی کیوں؟ مری انتظامیہ اور مری ٹریفک پولیس نے بھی خود کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔

اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سے صرف پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس چھوٹے سے سیاحتی مقام، مری، میں مصیبت اور آفت میں گھِرے ہوؤں کی بروقت اعانت نہیں کی جا سکی ہے تو ہم اپنے حکمرانوں سے کیا توقع لگا سکتے ہیں کہ وہ دُور دراز کے پاکستانیوں کی بروقت امداد کر سکیں گے؟ اس سانحہ نے پاکستان کے عوام کو حکمرانوں سے پھر مایوس اور دُور کر دیا ہے ۔

وزیر اعظم جناب عمران خان نے ہمیشہ وطنِ عزیز میں سیاحت کے بڑھاوے اور فروغ کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں اور عوام کو اُمیدوں کے کئی سبز باغ دکھائے ہیں کہ پاکستان میں سیاحت کے اتنے بڑے بڑے امکانات ہیں کہ ہم سیاحت کی صنعت سے اربوں ڈالرز کما سکتے ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے وہ ترکی کی دلکش مثالیں بھی دیا کرتے ہیں۔

مری میں ہونے والی اموات نے خان صاحب کی حکومت کی سیاحت کے حوالے سے بھی قلعی کھول دی ہے۔ یہ بھی عیاں اور مترشح ہو گیا ہے کہ ملک بھر میں سیاحت کے حوالے سے اونچے اونچے دعوے کرنے والی اس حکومت کے پاس سیاحوں کے تحفظ اور بچاؤ کا کتنا اور کیسا انفرااسٹرکچر موجود ہے ۔ مری سانحہ کی خبریں دُنیا بھر کے میڈیا میں بازگشت پیدا کررہی ہیں ۔

یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستانی سیاح جب بے یارومددگاری اور بے کسی کے عالم میں موت کی وادی میں داخل ہو رہے تھے تو اُس وقت مقامی انتظامیہ اور حکومت بچاؤ کے لیے کیا کررہی تھی؟سرکاری سطح پر نااہلی، نالائقی اور شدید قسم کی غفلت اورلاپرواہی کے رویوں نے پاکستان کے چہرے کو گہنا کررکھ دیا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ مری کی اس قاتلانہ برفباری میں کوئی غیر ملکی سیاح زندگی سے محروم نہیں ہُوا ہے۔اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا تو ہم غیر ملکی میڈیا اور غیر ملکی سیاحتی اداروں کو کیا منہ دکھاتے؟ غصے میں بپھرے پاکستانی عوام نے بجا طور پر حکومت اور حکمرانوں پربرہم ہو کر برستے ہُوئے کہا ہے کہ :''عمران خان کی حکومت غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان آنے کی دعوت دیتی رہتی ہے، اور عمران خان کی حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ وہ مری کے برفباری کے طوفان اور آفت میں گھرے مقامی چند ہزار سیاحوں کو ریسکیو نہ کر سکی اور کئی معصوم سیاح موت سے ہمکنار ہو گئے ۔''

واقعہ یہ ہے کہ مری کی ہلاکتوں کی خبر اِس وقت بھی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر حکومت کے لیے شدید خفت ، ندامت اور بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ اس جاں گداز اور جاں سوز واقعہ نے پاکستان کے 22کروڑ عوام کو اشکبار کررکھا ہے۔مری کے آفت زدگان کی دستگیری کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے وابستگان بھی غیر حاضرپائے گئے حالانکہ اربوں روپے کا بجٹ رکھنے والے اس محکمے کی تو ڈیوٹی ہی آفات میں گھرے ہوؤں کو نکالنا ہے۔

اُداسی اور دلگیری نے دلوں کو گرفت میں لے رکھا ہے ۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ مری میں بے یارومددگاری میں گھرے سیاحوں کی اموات کی خبریں چاروں اُور نشر اور شایع ہونے کے باوجود ہمارے محبوب وزیر اعظم مری نہ پہنچ سکے۔ حالانکہ سانحہ کا مقام تو وزیر اعظم ہاؤس سے نہایت نزدیک پڑتا ہے۔

وزیر اعظم اگر ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تو چند منٹوں میں جائے حادثہ پر پہنچ سکتے تھے۔ ایسا مگر بد قسمت اور آفت زدہ عوام کے مقدروں میں نہیں لکھا تھا۔وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب عثمان بزدار، بھی لاہور میں اپنے عافیت کدے سے قدم باہر نہ نکال سکے۔

ایسے حکمرانوں سے بھلا عوام کیا بلند توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟عوام اگر گلہ کریں تو یہ حکمران طبقہ یک زبان ہو کر عوام پر پِل پڑتا ہے ۔شکوہ کناں عوام کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اُن پر مقدمات قائم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ آیندہ بے حس حکمرانوں کے بارے میں لب کشائی نہ کر سکیں ۔مری کی اموات پر اگر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب جائے سانحہ پر پہنچنے سے محروم رہے تو پنجاب کے وہ وزیر بھی منظر سے قطعی غائب رہے جن کے پاس سیاحت اور ٹورازم کا قلمدان ہے۔

اس اشکبار سانحہ کے دوران وزیر اعظم جناب عمران خان نے جو ٹوئٹ کیا، اس کے الفاظ سے وہ دکھ اور غم نہیں جھلکتا جو ایک منتخب حکمران کے دل کی کیفیت کا آئینہ دار ہوتا ۔ غمزدگی، رنج اور دکھ کے عالم میں ایک سینئر دانشور نے اپنی ٹوئٹ میں یوں لکھا:''وزیر اعظم صاحب، یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیں۔ پلیز۔''ہم اِن الفاظ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دکھ اور اَلم کی ان گھڑیوں میں پاکستان کے عوام اپنے وزیر اعظم سے کس قسم کی ٹوئٹ کے کیے جانے کے منتظر تھے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کے لوگ دہشت گردوں کی نذر ہو جاتے ہیں تو اُن کا غم ہلکا کرنے اور انھیں دلاسہ دینے کے لیے ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان وہاں نہیں جاتے ہیں۔ اور اب مری میں دو درجن سے زائد سیاح بے بسی اور بے کسی میں موت کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں تو بھی وزیر اعظم صاحب دلگیر اور دلگرفتہ عوام کی دلجوئی کے لیے وہاں پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور منتخب حکمران کی یہ دل شکن ادائیں بھلا عوام کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟

برفباری کے اِس تازہ موسم میں جب مری میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہو چکی تھیں تو اُسوقت ایک وفاقی وزیر اِسے موجودہ حکومت کی خوشحالی قرار دے رہے تھے لیکن کیا انھیں واقعی معلوم نہیں تھا کہ مری ایسا چھوٹا سا ہل اسٹیشن اتنی گاڑیوں اور سیاحوں کا بوجھ اور دباؤ برداشت نہیں کر سکتا؟ کیا انھوں نے مری انتظامیہ کو خبردار کیا کہ کسی ناگہانی صورت اور آفت سے کیسے نمٹنا ہے ؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اتنی اموات کا ذمے لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر مقامی انتظامی افسر اور حکمران طبقہ بغلیں جھانک کر ذمے داریوں کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈالتا نظر آ رہا ہے۔ کسی اعلیٰ ترین سرکاری پلیٹ فارم سے ابھی تک یہ مطالبہ سامنے نہیں آ سکا ہے کہ مری کی اموات کی تحقیقات میں مری کی ہر قسم کی انتظامیہ کو شامل کیا جانا چاہیے اور ذمے داران کو ایسی سخت سزائیں بھی دی جانی چاہئیں تاکہ عوام تک یہ پیغام پہنچ سکے کہ وہ ہر معاملے اور میدان میں یتیم اور مسکین نہیں ہیں۔

موجودہ حکومت کے مگر جو تیور اور انداز ہیں ، اُن سے ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ایسا کوئی اقدام کیا جائے گا۔ خان صاحب کی حکومت مگر یاد رکھے کہ مری کی اموات نے عوامی روزنامچے میں حکومت کے خلاف عوام کا طیش لکھ دیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔