بدلے ہوئے گوادر کی جڑیں
بلوچستان کل تک کچھ اور تھا۔ وہاں سے ابھرنے والی زبان پر گرفت کرنا آسان تھا اور اس پر قدغن لگانا بھی
لاہور:
ہمارے ایک پرنسپل تھے، پروفیسر فضل احمد۔ ہمیشہ سوٹ پہنتے، ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ بعد، ٹھیک نو بجے دفتر میں داخل ہو جاتے۔ نشست پر بیٹھ کر قلم اٹھاتے اور ڈاک نمٹانا شروع کر دیتے۔ مگر وہ دن مختلف تھا۔ غفور صاحب ان کے نائب قاصد تھے۔
مجھے دیکھتے تو میرے نام میں تھوڑی ترمیم کرتے اور سر اوپر اٹھا کر جھکاتے ہوئے کہتے: 'آ دل'۔ اس بار مسکراہٹ کی باری میری ہوتی۔ اُس روز بھی پرنسپل صاحب ٹھیک وقت پر اپنے دفتر میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد غفور صاحب نے مجھے مخاطب کیا: ' آ دل، چل مل'۔سردی کے باوجود پسینے چھوٹ گئے کہ جانے کیا خطا ہوئی کہ پرنسپل صاحب نے یاد فرمایا ہے۔
کچھ ایسے یاد پڑتا ہے کہ کالج میں ان دنوں کوئی مسئلہ چل رہا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک بڑے کاغذ پر مارکر سے چند سطریں گھیسٹیں اور نوٹس بورڈ پر لگا دیا۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق ' مے آئی کم ان سر؟'کہہ کر میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ پوسٹر ان کی میز پر رکھا ہے۔ میں اُن کے سامنے جا کھڑا ہوا تو نگاہ اٹھا کر انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کیا تم ایجی ٹیٹر ہو؟'نہیں سر' انھوں نے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر یہ کیا ہے؟
وہ کہنے لگے کہ'' اپنے حق یا کسی اچھے مقصد کے لیے ایجی ٹیشن کرنا کوئی بری بات نہیں۔ بس، یہ ذہن میں رہے کہ جب تم ایسا کرو، تمھارے ساتھ بھی کوئی ہو۔ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے میں نے ابھی تمھیں بلایا ہے، تم آتے مگر تمھارے پیچھے پیچھے تمھارے بہت سے ساتھی بھی آتے ۔''یہ بھولی بسری بات آج اتنا زمانہ بیت جانے کے بعد کیوں یاد آئی۔
اس کا ایک سبب تو شاہد شمسی بنے۔ شمسی صاحب دلی والے ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کے بزرگ دلی سے اٹھے اور ڈھاکا جا بسے۔ وہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے زمین تنگ ہوئی تو کراچی آبسے۔ کراچی میں بھی ان کے ساتھ ڈھاکا سے مختلف سلوک نہیں ہوا۔لہٰذا اب وہ اسلام آباد میں ہوتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ڈھاکا میں کیا کرتے تھے۔ بس،اس شام انھوں نے پہلے واٹس ایپ پر مجھے ایک پیغام بھیجا پھر مس کال دی۔' لکھا تھا کہ گوادر والے مولانا سے ملنا چاہتے ہو تو چلے آؤ'۔میں بھاگم بھاگ پہنچا اور کھانے کی میز پر مولانا سے گپ شپ ہو گئی۔
مولانا ہدایت الرحمن کون ہیں، کیا ہیں؟ یہ سوالات اب کچھ بے وقت ہو چکے ہیں۔ لوگ اصل میں کچھ اور جاننا چاہتے ہیں۔بلوچستان کا ساحل مکران ہو یا اس صوبے کا کوئی اور حصہ۔ اس کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہاں بلوچ قوم پرستی کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہ قوم پرست اپنی شناخت سیکیولرازم کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں یا پھر بائیں بازو کے ساتھ۔ یہی سبب ہے کہ اپنا وجود رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے یہاں زیادہ اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ لے دے کے ایک مولانا عبد الحق بلوچ تھے جو قومی اسمبلی تک پہنچے لیکن یہ پرانی بات ہے۔
اس کے بعد یوں کہیے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ قوم پرستی کے اس قلعے میں جمعیت علمائے اسلام کا دم غنیمت ہے،صوبے کے پشتون علاقوں میں جس کی گرفت برقرار ہے۔اس پس منظر میں گوادر جیسے مقام پر مولانا ہدایت الرحمن جیسی شخصیت کا ابھرنا غیر معمولی ہے۔
اس شخصیت سے گفتگو یقیناً اہمیت رکھتی ہے۔ دیگر احباب کے علاوہ مجھے بھی ان سے گفتگو کا اشتیاق تھا لیکن کسی گرما گرم خبر یا آنے والے دنوں ان کی کسی مہم جوئی کے بارے میں جاننے سے زیادہ میری دلچسپی مختلف تھی۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس شخصیت میں ایسا کیا سحر ہے جو جوق در جوق لوگ اس کے پیچھے چلے آتے ہیں؟ مولانا دھان پان سے نہایت سادہ انسان ہیں۔ ان کی گفتگو میں ان کی علمی شخصیت سے زیادہ عوامیت جھلکتی ہے۔ ہمارے دوست طاہر خان نے مائیک آگے کر کے جب ان سے کوئی سوال پوچھا تو مولانا پاکستانی ذرایع ابلاغ سے اپنی شکایت چھپا نہ سکے۔
ہمارے ہاں سیاست دانوں کی میڈیا سے شکایات کی روایت پرانی ہے۔ اس کے اظہار کے موقعے پر لوگوں کی تلخی چھپائے نہیں چھپتی۔ شکوہ مولانا ہدایت الرحمن نے بھی کیا لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس شکوے میں طنز کی ہلکی سی کاٹ اور مزاح کی شیرینی تھی۔ گوادر میں جن دنوں مولانا دھرنا دیے بیٹھے تھے، ان ہی دنوں بھارت میںکترینہ کیف کی شادی کے ہنگامے بپا تھے۔ سوال سن کر اُن کی آنکھوں میں شرارت چمکی اور کہا کہ ہمارے دھرنے کے دنوں میں تو کترینہ باجی آپ کے ٹیلی ویژن پر چھائی ہوئی تھیں۔
آپ لوگوں کے ذوق کی خبر ہوتی تو ہم اس بی بی کو بھی دھرنے میں ہی مدعو کر لیتے۔پاکستانی ذرایع ابلاغ کے مزاج کے بارے میں ان کے اس بلیغ تبصرے کے بعد کچھ مزید کہنے کی حاجت نہ تھی۔ اس لیے میں نے انھیں ٹٹولا اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔
دھرنے کے دنوں میں گوادر کی مائی زینی خبروں میں بہت رہی تھیں۔ یہ واقعہ کیسے ہو گیا کہ انھوں نے بستر سر پر اٹھایا اور شدید سردی میں ہانپتی کانپتی دھرنے میں آپہنچیں؟ معلوم ہوا کہ گوادر والوں کی طرح وہ بھی ماہی گیر ہیں لیکن انھیں روز گار سے محروم کرنے کے لیے کچھ طاقت ور لوگوں نے گڑھے کھود رکھے تھے۔
مولانا کو خبر ہوئی تو وہ سیدھے وہاں پہنچے اور للکار کر کہا کہ یہ گڑھے پُر ہو جائیں ورنہ ہم ہوں گے تم ہوگے اور رقص میں سارا جنگل ہو گا۔ گڑھے بھر گئے اور رکاوٹیں ڈالنے والے پیچھے ہٹ گئے۔ مولانا کی ذات سے متعلق گوادر میں ایسے ایک دو واقعات نہیں۔ سیکڑوں واقعات لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ کسی لاپتہ نوجوان کو بازیاب کرانے کو نکل کھڑے ہوئے یا بیمار کے دوا دارو میں مصروف دکھائی دیے۔ بس، کچھ اسی قسم کی سرگرمیاں ہیں جنھوں نے اس سادہ سے انسان کو محبوبِ خلائق بنا دیا ہے۔اب وہ نعرہ لگاتے ہیں تو میری طرح تنہا نہیں ہوتے، ان کے پیچھے خلق خدا اژدہام کرتی ہے۔
گوادر کے تجربے نے مولانا ہدایت الرحمٰن کو بہت حوصلہ دیا ہے۔ اب وہ پندرہ بیس، پچاس ہزار کی بات نہیں کرتے، دس لاکھ کے جلوس کی بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی شروع ہوگئی ہے۔ ہم نے انھیں وارننگ دے دی ہے۔ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی تو پھر پورے ایک ملین لوگوں کے ساتھ کوئٹہ پہنچیں گے۔ یہاں بھی بات نہ بنی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے اور مقاصد کے حصول تک سڑکوں پر رہیں گے۔
بلوچستان کل تک کچھ اور تھا۔ وہاں سے ابھرنے والی زبان پر گرفت کرنا آسان تھا اور اس پر قدغن لگانا بھی۔مولانا ہدایت ایک مختلف بلوچستان کا چہرہ ہیں۔ ان کی لڑائی بہت طاقت ور لوگوں سے ہے۔ یہ درست ہے لیکن پاکستان کی بات کرنے والوں کے ساتھ پرانے طریقوں سے نمٹنے کی تمنا غلط ہوگی۔
یہ پیغام بلوچستان کے طاقت ور لوگوں کے لیے بھی ہے، اُن سے زیادہ طاقت وروں کے لیے بھی اور خود جماعت اسلامی کے لیے بھی۔ شمسی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ بہت جلد بدلا ہوا گوادر ہمیں دکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ گوادر ہم دیکھ پائے تو معلوم ہوگا کہ اس تبدیلی کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔