خیبرپختونخواہ میں گورنرکی تبدیلی کی افواہیں

گوکہ جماعت اسلامی کی شمولیت کے بغیر ایم ایم اے کی بحالی کا مطلب ’’ون پارٹی شو‘‘۔۔۔۔۔


Shahid Hameed September 11, 2012
چونکہ سب ہی پارٹیاں عام انتخابات کو ذہنوں میں بسائے بیٹھی ہیں اسی لیے پیپلز پارٹی شیر پائو نے بھی پیپلز پارٹی کا چولا اتارنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

ISLAMABAD: خیبرپختونخوا چیمبر کی تقریب میں گورنر بیرسٹر مسعود کوثر کی جانب سے کہے گئے بعض چبھتے ہوئے جملوں کو اے این پی اور صوبائی حکومت کی جانب سے نہایت سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔

گو کہ گورنر نے اس بارے میں صوبائی وزیراطلاعات کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے وضاحت بھی کردی ہے کہ انہو ں نے یہ جملے بزلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادا کیے اور اس کا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں تھا۔

تاہم اس کے باوجود اس صورت حال کے سامنے آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر گورنر کی تبدیلی کی افواہیں پھیلنا شروع ہوگئی ہیں اوراس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ صوبہ میں پیپلز پارٹی کے صدر کے ساتھ گورنر کے عہدہ پر بھی تبدیلی ہوجائے ۔

کچھ عرصہ قبل جب صوبہ میں پیپلز پارٹی کے صدر کی تبدیلی کا معاملہ سامنے آیا تھا تو ساتھ ہی یہ بات بھی منظر عام پر آئی تھی کہ خیبرپختونخوا میں پی پی پی کے صدر کے ساتھ گورنر کی تبدیلی بھی کی جائے گی تاکہ تازہ دم قیادت آئندہ عام انتخابات کے لیے پارٹی کی قیادت کرے تاہم بعدازاں گورنر والا معاملہ دب گیا ۔

جب صوبہ میں پی پی پی کے صدر کے ساتھ گورنر کی تبدیلی کی باتیں بھی شروع ہوئیں تو گورنر کے عہدہ کے لیے انور سیف اللہ اور پی پی پی کی صوبائی صدارت کے لیے سید ظاہر علی شاہ کا نام لیا جارہا تھا جو اس سے پہلے بھی پارٹی کے صدر رہ چکے ہیں۔

تاہم پیپلز پارٹی کے اندر بعض حلقوں کی مخالفت اور اے این پی وپیپلز پارٹی کے دوستانہ تعلقات کی بناء پر بات صرف پی پی پی کے صوبائی صدر کی تبدیلی تک محدود ہوکر رہ گئی جس کے لیے انور سیف اللہ بطور امیدوار میدان میں ہیں تاہم صوبائی حکومت اور گورنر کے درمیان پیدا ہونے والے خفیف سے تنائو کے باعث گورنر کی تبدیلی کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث آگیا ہے اور کچھ حلقے تو ایک بار پھر پرانے فارمولے کا ورد بھی کررہے ہیں۔

جو انور سیف اللہ اور سید ظاہرعلی شاہ پر مبنی ہے ،جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اے این پی اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ اگر گورنر کے عہدہ پر تبدیلی ہوتی ہے تو یہ عہدہ اے این پی کو مل جائے جس کے لیے اے این پی کے صوبائی صدر سینیٹر افراسیاب خٹک کا نام بطور امیدوار لیاجارہا ہے تاہم پیپلز پارٹی کی طرف سے اس بات کی بھی مخالفت موجود ہے ۔

چونکہ آئندہ عام انتخابات نزدیک آرہے ہیں اس لیے تمام سیاسی جماعتیں اپنی صف بندی میں مصروف ہیں اور اسی بات کا مد نظر رکھتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کا سربراہی اجلاس 13 ستمبر کو بلارکھا ہے جس میں شرکت کے لیے ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سید منور حسن کو بھی دعوت دی گئی۔

تاہم جماعت اسلامی نے ایک مرتبہ پھر اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی ہے،تاہم ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی قیادت کا اس سے قبل جو سخت موقف تھا اس میں لچک ضرور آئی ہے ۔

اگر ایک طرف جماعت اسلامی نے جے یو آئی کو انتظار کی سولی پر لٹکایا ہوا ہے اور وقت کاٹنے کے لیے شرائط پہ شرائط پیش کررہی ہے تو دوسری جانب جے یو آئی بھی جما عت اسلامی کو دبائو میں لانے کے لیے اس بات پر غور کررہی ہے کہ جماعت اسلامی کے بغیر ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کردیا جائے ۔

گوکہ جماعت اسلامی کی شمولیت کے بغیر ایم ایم اے کی بحالی کا مطلب ''ون پارٹی شو''ہی ہوگا تاہم یہ حربہ جماعت اسلامی کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے اتحاد میں جانے کی بجائے ایم ایم اے ہی کا رخ کرے ۔کئی پارٹیوں کے آپس کے اختلافات بھی کسی بڑے الائنس کی تشکیل میں آڑے آرہے ہیں جس کے باعث امکان یہی نظر آرہا ہے کہ اگر ایم ایم اے کی بحالی نہ ہوسکی تو اس صورت میں ممکنہ طور پر جماعت اسلامی ،تحریک انصاف کو اپنا انتخابی پارٹنر بنائے گی جبکہ جے یو آئی ممکنہ طور پر مسلم لیگ(ن)کے ساتھ ایڈجیسٹمنٹ کی کوشش کرے گی۔

چونکہ سب ہی پارٹیاں عام انتخابات کو ذہنوں میں بسائے بیٹھی ہیں اسی لیے پیپلز پارٹی شیر پائو نے بھی پیپلز پارٹی کا چولا اتارنے کا فیصلہ کرلیا ہے ،آفتاب احمد شیر پائو پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنے کے بعد ہی سے قوم پرست پختون رہنما کے طور پر خود کو پیش کررہے تھے، پرویز مشرف کی حکومت میں شمولیت کی وجہ سے صورت حال قدرے تبدیل ہوگئی تھی تاہم اب ایک مرتبہ پھر وہ اسی راہ پر چل پڑے ہیں اور اس کے لیے وہ سب سے پہلے اپنی پارٹی کا نام اور جھنڈا دونوں تبدیل کرنے جارہے ہیں ۔

ان کی پارٹی کا نام افغانستان کے ڈاکٹر نجیب کی وطن پارٹی پر وطن پارٹی رکھا جاتاہے یا پختونخوا اولسی پارٹی یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تاہم نام ضرور تبدیل ہوگا، البتہ ان کی پارٹی کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ جب پارٹی کا نام تبدیل ہی ہونا ہے تو پھر پیپلز یا نیشنل کے الفاظ پارٹی نام کا حصہ نہیں ہونے چاہیں تاہم نام کی تبدیلی پر سب کا اتفاق ہے اور وہ بھی الیکشن سے قبل تاکہ نئے نام اورجھنڈے کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے عوامی رائے کو اپنی جانب کیا جاسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں