یہ کیا ہے
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں خصوصی کورٹس کی بہتات ہے
DUBAI:
کیا آپ تصور کر سکتے ہیںکہ قتل کے مجرم جسے سزائے موت ہوئی اور بعد ازاں سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوگئی کو گزشتہ ڈھائی سال سے ایک نجی اسپتال میں رکھا گیا تھا، اور وہاں وہ ایک قیدی کی زندگی گزارنے کے بجائے لگژری لائف گزار رہا تھا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہواجیسے بقول بہادر شاہ ظفر
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
جی ہاں یہ ہے پاکستان یہاں سب کچھ دستیاب ہے ماسوائے انصاف کے! لگتا یوں ہے کہ ریاست پاکستان کے تمام ادارے طاقتور افراد کے سامنے سرنگوں ہیں! آپ خود دیکھ لیں کہ موصوف وہی شاہ رخ جتوئی ہے جس پر کراچی میں ایک نوجوان شاہزیب کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ واقعے کے بعد ملزم دبئی فرار ہوگیا، تفتیش سست روی کا شکار رہی، لیکن میڈیا و سوشل میڈیا اُس کا پیچھا کرتا رہااور بالآخر وہ گرفتار ہوا اور مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا۔7جون 2013 کو ملزمان کو سزائے موت جب کہ دو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے سزائے موت پانے والے دونوں مجرمان کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا جب کہ دوملزمان کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔اگر قارئین کو یاد ہو تو 2019 میںسزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروا کر مجرمان عدالت سے وکٹری کے نشان بنا کر نکلے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ملزم کو محکمہ داخلہ سندھ کے حکم پر جیل سے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیااور موصوف گزشتہ 8ماہ سے اسی اسپتال میں زیر علاج تھے۔جنھیں گزشتہ روز صبح گیارہ بجے واپس جیل منتقل کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے میڈیا پر آنے کے بعد سنگین جرائم میں سزایافتہ اور بااثر اور کاغذات پر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں شاہانہ زندگی گزار نے والے 18 سے زائد قیدیوں کو بھی دوبارہ سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، معذرت کے ساتھ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں امیر اور طاقتور آدمی کے لیے دوران قید بھی ایسی ایسی شاہانہ طرز کی سہولتیں نکال لی گئی ہیں کہ بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس غریب آدمی کے لیے اصول یہ ہے کہ دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کو بھی حتمی فیصلہ نصیب نہیں ہو تا، اور کئی لوگوں نے بغیر سزا ہوئے سزا جتنی قید کاٹ لی ہے۔
تاریخ پر تاریخ ہی سائلین کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس لیے عام تاثر یہ بھی بن گیا ہے، جس معاملے کو حل کرنا مقصود نہ ہو اسے عدالت لے جائیں، یہ خود ہی نظام عدل میں کہیں مر کھپ جائے گالیکن طاقتور گروہ کا معاملہ حل ہونے پر آئے تو ایک ہی دن میں حل ہو جا تا ہے۔ چھٹی والے دن بھی ضمانت مل جائے گی ۔
آج ملک جس شدید بحران کا شکار ہے،کہیں نہ کہیں ہمارا نظام عدل بھی اس کا ذمے دار ہے۔ ناظم جوکھیو کیس کو ہی دیکھ لیں، اگر ناظم جوکھیو کے لواحقین نے اس کا جسد خاکی نیشنل ہائی وے پر نہ رکھا ہوتا تو شاید ایف آئی آر بھی درج نہ ہوتی اور نہ ہی ہمیں یا آپ کو اس قتل کے بارے میں علم ہوتا۔
آپ اس کیس کو بھی چھوڑیں ، کوئٹہ میں مجید اچکزئی کیس کا تو سب کو علم ہوگا، اگر نہیں یا د تو میں بتاتا چلوں کہ20جون 2017کو موصوف نے ٹریفک پولیس انسپکٹر عطا اللہ کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا، عبدالمجید اچکزئی اُس وقت بلوچستان کی اسمبلی کے رکن اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے ، مقدمہ چلا لیکن 4ستمبر کو بلوچستان کی ماڈل کورٹ نے عبدالمجید خان اچکزئی کو عدم ثبوت پربری کر دیا۔ پھر سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے؟ اُس کے بھی تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کون واقف نہیں، اُس کے بھی انجام سب کے سامنے ہے۔ پھر اسامہ ستی کیس میں بھی کسی ملزم کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔
بہرکیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں وڈیراشاہی کب ختم ہو گی، وڈیرے اور بااثر افراد ایسے ہی انسانیت کی تذلیل کر کے دندناتے پھرتے رہیں گے؟ کیا انصاف کا یہی معیار ہے؟ غریب اور لاچار لوگوں کو اس دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے یا پھر انھیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی جینا ہو گی اور کتوں کے برتنوں میں پانی پینا اور زمین پر ناک رگڑتے اور ٹسوے بہاتے زندگی کے ایام گزارنا ہوں گے۔ اس کا جواب ریاست مدینہ کے داعی اور عدالتی صادق و امین وزیراعظم کو دینا ہوگا۔
دنیا کے بڑے ادارے ''ورلڈ جسٹس پراجیکٹ'' نے ہماری 126ممالک میں سے 117ویں پوزیشن اسی لیے رکھی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اور ریاستی ادارے کسی صورت ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ اس ادارے کے مطابق صرف 14فیصد افراد نے ملکی نظام انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر متاثرین نے بتایا کہ مقدمہ بازی کے دوران انھیں بہت تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ الغرض ہمارا گراف زمبابوے اور افریقہ کے غیرترقی یافتہ ممالک سے بھی نیچے ہے اور صرف بولیویا اور افغانستان جیسے ممالک سے قدرے بہترہے۔ ہمارے حکمرانوں کا چلن یہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک نیچے سے پہلے نمبر پر آجائے گا۔
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں خصوصی کورٹس کی بہتات ہے۔ اینٹی کرپشن کی خصوصی عدالتیں، نیب کی خصوصی عدالتیں، دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں، شریعت کورٹ، محتسب عدالت، سروسز ٹریبونلز، کنزیومر کورٹس،بینکنگ کورٹس لیکن سائلین پھر بھی خوار۔ عام ماتحت عدالتوں کا توکوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔
اِسی لیے یہ خصوصی عدالتیں بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔اگر پاکستان میں جمہورئیت کو زندہ رہنا ہے تو مظلوم کو اس کی امید ٹوٹنے سے پہلے انصاف دینا ہو گا۔ کسی ایمر جنسی کی ضرورت نہیں صرف تمام کیسز کے ملزمان کے فالو اپ کی ضرورت ہے، ماتحت اداروں کو کنٹرول میں رکھنے اور مدعیان و گواہان کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ پھر مقدمات کو لامحدود مدت تک ملتوی کرنے کے اختیار پر چیک اینڈ بیلنس لگانے کی ضرورت ہے۔