بلوچستان میں قدرتی ذخائر

بلوچستان سے معدنیات نکالنے کے لیے سرکاری سطح پر ایک کمپنی بنائی جانی چاہیے


Dr Tauseef Ahmed Khan January 13, 2022
[email protected]

بلوچستان کے ضلع چاغی کا شمار ملک کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے۔ چاغی معدنیات کی دولت سے مالامال ہے ، جب وفاقی حکومت نے 1999 میں ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو چاغی کے پہاڑ کا چناؤ کیا گیا ، مگر چاغی میں صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ چاغی کی تحصیل ریکوڈک میں کئی قیمتی معدنیات ہیں جن میں تانبے اور سونے کے ذخائر بھی شامل ہیں۔

معدنیاتی سروے کے مطابق تحصیل ریکوڈک کے 70 مربع میل کے علاقہ میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین ارضیات کا اندازہ ہے کہ یہ ذخائر لاطینی امریکا کے ملک چلی میں پائے جانے والے تانبے کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ تانبے کے ذخائر سب سے زیادہ چلی میں پائے جاتے ہیں۔

برسر اقتدار حکومتوں نے برسوں ان ذخائر سے تانبہ اور سونا نکالنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ایک اندازہ کے مطابق ان ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب امریکی ڈالرکے قریب ہوسکتی ہے۔ ملکی قوانین کے مطابق معدنیات کا شعبہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے مگر وفاقی حکومت نے ہمیشہ بلوچستان میں پائی جانے والی معدنیات پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہے۔ اسی پالیسی کی بناء پر وفاقی حکومت نے ایک غیر ملکی کمپنی کو ریکوڈک کی کانوں کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔اس کمپنی کا شمار دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یہ ٹھیکہ منسوخ کیا تھا۔ یہ غیر ملکی کمپنی معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گئی۔ اس معاہدہ میں یہ بات شامل تھی کہ اس کمپنی کی اجازت کے بغیر ٹھیکہ منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اس شق کا فائدہ عالمی عدالت نے کمپنی کو دیا۔ عدالت نے پاکستان پر 5ارب روپے 80 کروڑ کا ہرجانہ کیا۔ بلوچستان کے بعض وکلاء کا خیال ہے کہ پاکستا ن نے اس مقدمہ کی پیروی کرنے میں اپنے جواب میں کچھ غلطیاں کیں جس کا نقصان ملک کو ہوا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی تحریر کیا کہ دونوں فریق ہرجانہ کی ادائیگی پر Out of Court فیصلہ کرسکتے ہیں۔

اب سننے میں آ رہا ہے کہ اسی کمپنی کو ریکوڈک کا ٹھیکہ دوبارہ دینے کے لیے کوشش ہو رہی ہے۔ بہرحال یہ بھی کاہ جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت اس معاملے میں عدم دلچسپی کی بنا پر رخصت کی گئی تھی۔

بلوچستان میں سب سے پہلے تیل اور پھر گیس نکلی۔ 50ء کی دہائی میں سوئی کے مقام سے گیس نکلنا شروع ہوئی۔ کوہلو اور دیگر مقامات سے تیل اور گیس نکلی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے گیس کی فراہمی کے لیے مختلف کمپنیاں قائم کیں۔ 1951 میں گیس دریافت ہوئی۔ 1955میں کراچی اور حیدرآباد کی صنعتوں کو گیس ملنے لگی۔ 1958 میں ملتان، لاہور اور فیصل آباد کے صنعتی علاقوں میں گیس کی فراہمی شروع ہوگئی۔ کراچی میں 60ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں گھروں کو سوئی گیس کی فراہمی شروع ہوئی۔ لاہور اور اسلام آباد کے مکینوں کو بھی گیس ملنے لگی۔

کراچی اور لاہور کی صنعتیں گیس سے توانائی حاصل کرنے لگیں مگر بلوچستان کے دارالحکومت کو یہ گیس 70ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ملی۔ مکران ڈویژن کے لوگ آج تک گیس سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی پختون بیلٹ اور دور دراز علاقوں میں ابھی تک گیس نہیں پہنچی۔ ملک بھر کے لیے سوئی گیس ایک زمانہ میں توانائی کا سب سے سستا ذریعہ تھی مگر بلوچستان کے بیشتر علاقے آج بھی گیس سے محروم ہیں۔اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں بدامنی شروع ہوئی جس پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا۔ بلوچستان سے تیل بھی نکلا۔ بلوچستان کے بیشتر علاقے آج بھی 10 سے 12 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوتے ہیں۔

1970 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان سے اکثریت حاصل کی۔ نیپ نے 1972 میں بلوچستان میں حکومت قائم کی۔ جمعیت علماء اسلام نے تعاون کیا۔ غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل پہلے منتخب وزیر اعلیٰ بنے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 8 ماہ بعد اس حکومت کو توڑ دیا۔ محققین نے لکھا ہے کہ شاہ ایران کے دباؤ پر ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی حکومت کو برطرف کیا کیونکہ شاہ ایران کو خدشہ تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت بلوچستان میں تیل کے ذخائر کو قومی تحویل میں لے سکتی ہے ۔

اب بلوچستان میں تعلیم کی شرح بڑھی ہے اور اس کے ساتھ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں بلوچستان کے عوام اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کا بحران بہت گہرا ہوگیا ہے۔

بلوچستان سے معدنیات نکالنے کے لیے سرکاری سطح پر ایک کمپنی بنائی جانی چاہیے' اس کمپنی کو چلانے کے لیے بلوچ ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیںاور یہ کمپنی خام مال نکالنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرے اور اس خام مال کی پروسیسنگ کے لیے پلانٹ چاغی میں لگائے جائیں اور ان آسامیوں پر بلوچستان کے نوجوانوں کو ترجیح دی جائے۔ ابھی وقت ہے کہ ان بظاہر کمزور آوازوں پر توجہ دی جائے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں