ہمارے ملک کی جیلیں
نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’کسی قوم کے بارے میں صحیح اندازہ اس کی جیلیں دیکھ کر ہوتا ہے
DETROIT:
نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ''کسی قوم کے بارے میں صحیح اندازہ اس کی جیلیں دیکھ کر ہوتا ہے، اور کسی قوم کو اس بات پر جج نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے بڑے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے اس کا اپنے چھوٹے لوگوں سے سلوک کیسا ہے''۔پھر کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کی ''گورننس'' کو دیکھنا ہوتو ان کی جیلوں کا جائزہ لے لیں،آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ معاشرہ کس قسم کا ہے اور یہاں کا نظام کیسا ہے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل سے لکھے گئے ایک قیدی کے خط پر ریمارکس دیے ہیں کہ وزرا اور ججز بھی دو تین دن جیل میں رہیں تو انھیں مشکلات کا اندازہ ہو۔ کیوں کہ وہاں شکایات کا نظام فعال نہیں ہے، دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار سے زیادہ قیدی اڈیالہ جیل میں رکھے گئے ہیں۔
جج صاحب نے جس طرف توجہ دلائی اور ایک عام قیدی کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کرکے سماعت کی ہے یہ اپنی مثال آپ ہے ، اس سماعت کے بعد کچھ نہ کچھ تبدیلی تو ضرور آئے گی، اور اگر تبدیلی نہ بھی آئے تو ان قیدیوں کے مسائل عوام کے سامنے ضرور آئیں گے۔ کیوں کہ راقم اس حوالے سے بار بار لکھ چکا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کروں گا کہ پاکستان کی جیلیں قید خانے نہیں، عقوبت گاہیں ہیں۔ جرم و سزا کے بارے میں ہماری سوچ صدیوں پرانی ہے۔
ہم تاریخ کے تعزیراتی دور میں کھڑے ہیں، جب حکمران یہ سمجھتے تھے کہ سماج سے جرائم کو ختم کرنے کا واحد راستہ سخت اور عبرت ناک سزائیں ہیں۔ یہ بہت پرانا تصور ہے۔ جرم و سزا کے جدید تصور، جو آج بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں مقبول ہو رہا ہے، میں سزا پر زور دینے کے بجائے مجرم کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک کامیاب مثال ناروے ہے۔ ناروے میں بھی ایک زمانے میں ہماری طرح فرسودگی پر مبنی جرم و سزا کا نظام رائج تھا۔ 1970 سے ناروے نے اپنے نظام میں تبدیلی کا آغاز کیا، اورآہستہ آہستہ سخت تعزیراتی نظام کو اصلاحی یا بحالی کے نظام میں بدل دیا۔ اس اصلاحی نظام کی برکت سے اس وقت ناروے میں مجرم کی طرف سے دوبارہ جرم کرنے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ جب کہ مجرم کی طرف سے دوبارہ جرم کرنے کی شرح جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ خاص طور پر پاکستان کو دیکھیں تو یہ شرح 70فیصد، انڈیا، 66فیصد اور بنگلہ دیش میں یہ شرح 55فیصد سے کم ہے۔
ہمارے ہاں آدھی جیلیں تو قانونی الجھنوں کی وجہ سے بھری پڑی ہیں، قتل کے مقدمے میں سیشن کورٹ سے اگر کسی ملزم کو پھانسی کی سزا ہو جائے تو اُسے کال کوٹھری میں شفٹ کر دیا جاتا ہے' ہائیکورٹ میں اپیل سننے میں 2,2سال لگ سکتے ہیں، 2سال کے بعد بیشتر ملزمان جنھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہوتی ہیں، ان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوجاتی ہے یا ملزم بری ہوجاتا ہے، لیکن اس دوران مجرم 2سال تک کال کوٹھری میں رہ کر ذہنی مریض بن چکا ہوتا ہے۔
آپ کسی کچہری میں چلے جائیں اور خود دیکھ لیں کہ جو مقدمات کی فہرست لگتی ہے اُس میں مقدمات کتنے کتنے پرانے ہیں ، لاکھوں مقدمات زیر التوء ہیں ، پھر ہماری جیلیں اوور لوڈڈ ہیں، جہاں 2ہزار کی گنجائش ہے وہاں پانچ پانچ ہزار قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
آپ جیلوں کے اسٹاف کو دیکھ لیں، اختیارات اُن کے پاس بے شمار ہوتے ہیں، مگر اُن کی تنخواہیں عام پولیس کانسٹیبل سے بھی کم ہوتی ہیں، حالانکہ وہ زیادہ خطرناک لوگوں میں ڈیوٹی کر رہا ہوتا ہے، عام پولیس کانسٹیبل تو عام لوگوں کو ڈیل کر رہا ہوتا ہے، لیکن جیل کانسٹیبل زیادہ خطرناک لوگوں کے درمیان رہتا ہے، لہٰذاضروری ہے کہ تنخواہ اور اختیارات کے توازن کو برقرار رکھا جائے، آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ جیل سپریٹنڈنٹ کی ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ ہوتی ہے، مگر اختیار اختیارات اُس کے پاس کروڑوں کے ہوتے ہیں، ایسے حالات میں وہ کیوں رشوت کی پیشکشوں کو ٹھکرائے گا۔