شہنشاہ معظم کا دور لوٹ آیا

مری میں 23 افراد کی ہلاکت کی بنیادی وجہ انتہائی بدانتظامی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan January 15, 2022
[email protected]

کراچی: قدرتی آفات اور انسانوں کی مزاحمت کی تاریخ لاکھوں برسوں پر محیط ہے ، جب تک صنعتی دور کا آغاز نہیں ہوا اس وقت تک انسان قدرتی آفات کے رحم و کرم پر تھا۔ سمندری طوفان، زلزلے، سیلاب اور وبائیں نسلوں کو ختم کردیتی تھیں۔ گاؤں گاؤں اور شہر کے شہر مٹ جاتے تھے۔

دنیا کی قدیم تہذیبوں موئن جودڑو و بابل وغیرہ کے خاتمے کی وجوہات قدرتی آفات اور وبا وغیرہ بتائی جاتی تھیں مگر صنعتی انقلاب کے بعد بھی انسانی بستیوں کی بربادی کا سلسلہ جاری رہا۔ یورپ میں طاعون اور تپ دق و ملیریا سے لوگوں کا مرنا عام سی بات تھی مگر انسانوں نے تحقےق کا راستہ اختیار کےا، یوں ڈاکٹروں نے طاعون کا ذمے دار چوہوں اور ملیریا کا ذمے دار مچھروں کو قرار دیا، چوہوں کے خاتمہ اور مچھروں سے بچاؤ کے لیے صفائی کے قواعد و ضوابط تیار ہوئے۔

ان قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے، پھر جغرافیہ کے مضمون پر توجہ دی گئی۔ سائنس دانوں نے موسم میں ہونے والے تغیرات کے تجزیہ پر توجہ دی۔ سمندروں کے کناروں پر آباد ماہی گیر سمندر میں ہونے والے مدوجز کی بنیاد پر سمندری طوفان اور بارشوں کے بارے میں پیشگوئی کرتے تھے۔ سائنس دانوں نے اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے بارشوں اور گلیشیئرکے پگھلنے اور متوقع برف باری کے بارے میں رائے دینی شروع کی۔ ٹیکنالوجی مزید ایڈوانس ہوئی تو ریڈارایجاد ہوا۔

پہلے ریڈار دفاعی مقاصد، بحری اور ہوائی جہازوں کی رہنمائی کے لیے استعمال ہوئے، پہلے عربوں نے ریاضی کے مضمون پر توجہ دی۔ یورپی ماہرین نے ریاضی کے علم کے ذریعہ موسمی تغیرات کے تجزیے کرنے شروع کیے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز ٹائی ٹینک بھی سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہوا تھا۔ اس وقت بحری جہاز کا ریڈار زیادہ بہتر نہیں تھا۔ برطانیہ کے سائنس دانوں نے ریڈار پر توجہ دی اور سمندری سفر محفوظ ہوا۔

معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ نے لکھا ہے کہ خودساختہ شہنشاہ عالم شاہ جہان کی بیوی ممتاز 14ویں بچے کی پیدائش میں طبی پیچیدگی کی بناءپر ہلاک ہوئی۔ شہنشاہ معظم نے اپنی بیوی کی یاد میں آگرہ میں مقبرہ تاج محل تعمیر کیایا جسے دنیا کے ساتویں عجوبہ کا اعزاز دیا گیا۔ ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے کہ اسی زمانہ میں سوئٹزرلینڈ کی ملکہ بھی اسی کیفیت میں جاں بحق ہوئی۔ سوئٹزرلینڈ کے بادشاہ نے اپنی ملکہ کی یاد میں نرسنگ اسکول کے قیام پر ترجیح دی، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں زچہ اور نوزائیدہ بچہ کی شرح اموات صفر ہے۔ پاکستان میں یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو وہ جدید انتظامی اور تعلیمی نظام لائے۔ ریل چلائی، بجلی آگئی اور صنعتی ترقی ہوئی۔ انگریز حکومت نے طاعون کے خاتمہ کے لےے بنیادی اقدامات کیے، یوں پہلے اس بیماری میں ہزاروں لاکھوں افراد مرجاتے تھے، اب یہ مرض تھم گیا۔ اسی طرح ملیریا کے خاتمہ کے لیے سخت اقدامات ہوئے مگر انگریز دور میں 1943میں بنگال میں قحط پڑا۔ اس قحط میں 25 لاکھ افراد مر گئے۔ ماہرین نے تحقےقات کی تو پتہ چلا کہ چاول سرکاری گوداموں میں وافر مقدار میں موجود تھا مگر انگریز افسروں نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت قحط پر قابو پانے کے لیے چاول کی تقسیم پر توجہ نہ دی۔

انگریز حکومت نے لاکھوں افراد کی ہلاکت کی ذمے دار بیوروکریسی کے کسی فرد کا احتساب نہیں کیا ۔استاد وجاہت مسعود لکھتے ہیں کہ امریتوسین کا کہنا ہے کہ جہاں جمہوری آزادیاں موجود نہ ہوں وہاں انسان قحط سمیت طرح طرح کے آلام کا شکار ہوتے ہیں۔ استاد وجاہت مسعود نے اس بیانیہ کو یوں مکمل کےا کہ جمہوریت کی تاریخ بیج دارہے اور جمہوری ثقافت صبر طلب ہے۔

سابقہ مشرقی پاکستان سمندری طوفانوں اور دریاؤں سیلابوں والا خطہ تھا۔ 1971تک ہر سال طوفان آتے اور دریا تباہی مچاتے۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہوتے مگر برسر اقتدار حکومتیں محض امدادی سامان بھیجنے کے سوا کچھ نہ کرتیں۔ محکمہ موسمیات کو جدید خطوط پر استوار کرنے ، سمندر کے آگے پشتیں بنانے اور دریاؤں پر بند باندھنے جیسے سائنسی طریقے پر پیسہ خرچ کرنے کو سرکاری وسائل کا ضیاع سمجھتی تھیں۔ 1970 میں خلیج بنگال سے آنے والے طوفان میں لاکھوں افراد مارے گئے مگر اسلام آباد کی حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔16دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

عوامی لیگ کی حکومت نے تمام وسائل طوفانوں اور سیلابوں کی روک تھام کے منصوبوں پر خرچ کرنے شروع کیے۔ اب وہاں طوفانوں سے ہلاکتوں کی خبریں کم آتی ہیں۔ ملک میں اگرچہ جمہوریت ہے مگر برسراقتدار حکومتوں نے ریاستی وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے ترقی کے عمل کو بہتر کرنے پر توجہ دی۔ مری میں سڑکیں بنیں۔ ہر سال موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ایمرجنسی پلان پر عملدرآمد شروع ہو جاتا۔ میاں شہباز شریف نے اس ترقی کے عمل کو تیز تر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی صدی کے آغاز کے بعد سے 2018 تک کئی سال ایسے آئے کہ مری میں شدید برفباری ہوئی، ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں کئی دفعہ سردیوں میں مری میں داخل ہوئیں مگر ایمرجنسی پلان پر سختی سے عملدرآمد کے نتیجہ میں سب کچھ معمول پر رہا۔

عمران خان نے ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لےے تبدیلی کا نعرہ لگاےا مگر وہ اور ان کے وزراءبیوروکریسی کو کنٹرول نہ کرسکے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت کے ارباب انتظامی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق لاہور کا وزیر اعلیٰ ہاؤس براہِ راست بنی گالہ سے کنٹرول ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی آزاد ہے۔مری میں 23 افراد کی ہلاکت کی بنیادی وجہ انتہائی بدانتظامی ہے۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی میں مری کے سانحہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مری میں اکثر مقامات پر دیواروں کے ساتھ خاردار تار بچھے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ یہ بورڈ لگے ہوئے ہیں کہ اس طرف آنے والے کو گولی ماردی جائے گی مگر وہاں کھڑے محافظوں نے بھی سیاحوں کے لےے دروازے نہیں کھولے۔

محکمہ موسمیات اب جدید ریڈار کے ذریعہ درست پیشگوئی کرتا ہے اور اس دفعہ بھی محکمہ موسمیات نے غیر معمولی برف باری کی پیشگوئی کی تھی مگر نا تو این ڈی ایم اے نا کسی دوسرے ادارہ اور سول انتظامیہ نے ا س بارے میں توجہ دی۔ مری میں ہر وزارت کا ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ بعض سرکاری اداروں کے تو کئی کئی ریسٹ ہاؤس ہیں مگر ان سرکاری ریسٹ ہاؤسوں کو سیاحوں کے لےے نہیں کھولا گیا۔مری کے ہوٹل والوں کی لوٹ مار اس قوم کی بدنما روایت ہے۔

حزبِ اختلاف کا یہ مطالبہ درست ہے کہ حکومت کو اس سانحہ پر مستعفی ہوجانا چاہیے اور اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن کو اس پورے معاملہ کی تحقےقات کرنی چاہیے مگر گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کی کارروائی پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہنشاہ معظم کا دور لوٹ آےا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔