بدلتی ہوئی صورتحال
عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے، یہ نظام اب چل نہیں سکتا
یہ افواہ یا حقیقت بڑی تیزی سے گردش کررہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے،مگر اس کی تردید آ گئی۔ ترجمان (ن) لیگ احسن اقبال نے بھی واضح کیا کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔
مگر عوام میں یہ چہ میگوئیاں کہاں تک درست ہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن ن لیگ کی قیادت جس انداز میںاسٹبلشمنٹ پر برس رہی تھی اب خاموش نظر آرہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ساکھ پنجاب میں کافی کمزورہے جب کہ مسلم لیگ (ن) پی پی پی کے مقابلے میں اس وقت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ جب بلاول بھٹو یہ بیان دیتے ہیں کہ پنجاب میں ہم کسی سے انتخابی اتحاد بنائے بغیر سنگل فائٹ دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اندرون اور بیرون ملک کوئی طاقت ان کی پشت پر موجود ہے۔
ادھر مولانا فضل الرحمن ملک بھر کی چھوٹی بڑی جماعتوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں مولانا کی جیت نے پی ٹی آئی کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ جے یو آئی کی جیت سے ہمیں اپنی شکست کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور بعدازاں کے پی کے تمام پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو معطل کرکے ازسرنو پارٹی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈالنے کے اعلان پر قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ۔ اربوں روپے ہڑپ کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں یا پھر ملک سے باہر عیش کر رہے ہیں۔
ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی نشستیں پکی ہوتی ہیں، اس لیے بھی کہ پی پی پی کا یہاں کوئی متبادل نہیں ہے، ساری دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں۔ کسی زمانے میں پی پی پی بائیں بازو کے قریب جماعت کہلاتی تھی مگر اب سینٹر لیفٹ بھی نہیں رہی بلکہ دائیں بازو کی پارٹی بن گئی ہے۔ تقریباً یہی صورتحال خیبرپختون خوا میں اے این پی کی ہے۔ عظیم قوم پرست رہنما غفار خان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں ایک بھی اقلیت کا فرد نہیں ہو تو بھی اسے سیکولر ملک ہونا چاہیے اور سامراج سے آزادی کے بغیر آزادی کا کوئی تصور ہی نہیں۔ آج پختون خوا میں اے این پی سامراج دشمنی، جاگیردار دشمنی، سیکولر سیاست اور سرمایہ دار مخالف سیاست چھوڑ چکی ہے۔
چونکہ اس وجہ سے کے پی کے میں ایک سیاسی خلا آگیا ہے۔ اسے پر کرنے کے لیے کچھ مذہبی جماعتیں جعلی سامراج مخالف نعرے دے کر آگے بڑھی ہیں۔ ایم کیو ایم الطاف پر پابندی کے بعد کراچی میں ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ ہرچند کہ ایم کیو ایم الطاف نے کراچی میں مار دھاڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے باوجود خلا تو پیدا ہوا ہے۔ اسے پر کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان سامنے آئی ہے۔ کراچی کے انتخابی میدان میں آج کل پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور ایک حد تک جے یو آئی، ایم کیو ایم پاکستان کے مدمقابل ہیں۔ ان جماعتوں کا آپس میں رابطہ اور خیالات کے تبادلے بھی ہو رہے ہیں، مگر اونٹ کسی کروٹ بیٹھا نہیں۔ اب تک پلڑا تو ایم کیو ایم پاکستان کا ہی بھاری نظر آ رہا ہے۔
اندرون سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا ناراض دھڑا برسر پیکار ہے،جب کہ خیال ہے کہ پی پی پی کراچی میں زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں انتخابات سے قبل (ق) لیگ کسی سے اتحاد بنائے یا خود انتخابات میں حصہ لے کر کچھ نشستیں حاصل کرلے۔ ادھر پی پی پی شہید بھٹو انتخابات میں نشستیں حاصل کر پائے یا نہیں مگر ووٹ خاصے حاصل کرلیتی ہے یہ بھی دائیں کی رہی اور نہ بائیں کی۔ غنویٰ بھٹو کبھی کبھار سوشلزم کا لفظ استعمال کرلیتی ہیں، مگر مزدوروں اور کسانوں کی تنظیم کاری نہیں کرتیں۔ بہرحال صورتحال کچھ بھی ہو آیندہ انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اوراتحاد بنا کر ہی حکومت بنے گی۔ متذکرہ ساری جماعتیں بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی نہیں چاہتیں بلکہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ہی پیوند کاری کے ذریعے کام چلانا چاہتی ہیں۔
عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے، یہ نظام اب چل نہیں سکتا۔ کرپشن اس نظام کی خرابی نہیں بلکہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ امریکا کو ہی لے لیں۔ افغانستان اور عراق میں جنگی ساز و سامان اور ٹھیکہ پر 14 کھرب ڈالر خرچ ہوئے جس میں 40 فیصد کرپشن کی نذر ہو گیا، یہ کرپشن ٹھیکیداروں کے ذریعے ہوئی۔
اس کا حساب کتاب اس طرح سے ہوتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا۔ پاکستانی حکمران کرپشن کی دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے طبقاتی نظام کا خاتمہ ضروری ہے، اگر پاکستانی حکمران طبقات حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ہوں عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے جاگیرداری کا خاتمہ کرنا ہوگا، زمین بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسانوں میں تقسیم کرنی ہوگی، ملوں ، کارخانوں کا جال بچھانا ہوگا، اس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور عوام کو روزگار ملے گا۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرنا ہوگا، تب جا کر ہم اپنی معیشت کو درست کرسکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے یہ کام کرنے کے بجائے 50 ہزار روپے سے کم آمدنی والوں کو ماہانہ 1000 روپے کی رعایت دینے کا اعلان کیا ہے، ہیلتھ کارڈ بنوائے جا رہے ہیں۔ اس کے بجائے سرکاری اسپتالوں کا جال بچھایا جائے، سرکاری اسکولوں کو عام کیا جائے، سرکار کی جانب سے لوگوں کو مکانات مفت بنا کر دیے جائیں۔
ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ سارے مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ دنیا کو ایک کردیں، انسان پھر ایسے سماج میں رہنا شروع کردے گا جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہے۔