’’ڈے زیرو‘‘…بچنا ضروری ہے
انسانوں کی من مانیوں اور قدرت کے اشاروں کو خاطر میں نہ لانے کی انسانی روش کی وجہ سے قدرت نے اپنا راستہ خود بنایا
جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاون کا نام تو ہم سب نے سن رکھا ہے۔اس شہر کا شمار براعظم افریقہ کے متمول اور ترقی یافتہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ بلڈنگ بھی اسی شہر میں قائم ہے۔
دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔ بحر اوقیانوس کے نیلے پانی اور بحرِ ہند کے مٹیالے پانی کا ملاپ بھی کیپ ٹاون شہر کے ساحلوں پر ہی ہوتا ہے۔پینتالیس لاکھ آبادی کا یہ جدید اور خوشحال شہر بھرپور زندگی کی علامت قرار دیا جاتا تھا۔ بار ہ برس پہلے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اس شہر کی بڑھتی آبادی اور ہاوسنگ سیکٹر کے پھیلاؤ کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو نہ روکا گیا تو منفی اثرات کے باعث کیپ ٹاون شہر ناقابلِ رہائش بن جائے گا۔
ماہرین کی اس قسم کی وارننگز سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔اب سے چار برس پہلے تک کیپ ٹاون ہرا بھرا ، سرسبز و شاداب اور زندگی سے بھرپور شہر تھا۔شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھ ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔امراء کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ان کے کتوں ، بلیوں اور دیگر پالتو جانوروںکو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔کار تو روزانہ دھلتی ہی تھی۔
انسانوں کی من مانیوں اور قدرت کے اشاروں کو خاطر میں نہ لانے کی انسانی روش کی وجہ سے قدرت نے اپنا راستہ خود بنایا، پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آ گئی ، بارش نہ ہونے کے باعث آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالے خشک ہونے لگے، زیرزمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوگئی اور دھیرے دھیرے پانی کی قلت کیپ ٹاون کے ہر طبقے کو محسوس ہونے لگی۔نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ شہر میں ابی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑگئی۔
صورتحال پھر بھی قابو نہ آئی اور حالت یہ ہوئی کہ کیپ ٹاون شہرکو پانی سپلائی کرنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد سے بھی کم رہ گئی۔جب یہ تناسب دس فیصد پر پہنچا تو پانی گدلا اور کیچڑ کی شکل میں اختیار کرگیا اور یہ پانی ناقابل استعمال ٹھہرا۔جن آبی ذخائر میں کچھ پانی موجود تھا، وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی ، پانی کی چھینا جھپٹی اور پانی کی چوری روکنے کے لیے پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرولنگ کو متحرک کرنا پڑا لیکن حالات پھر بھی کنٹرول میں نہ آئے تو سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کیپ ٹان میں آبی مارشل لا لگانا پڑا۔یہی وہ دن تھا جسے اب بھی تاریخ میں'' ڈے زیرو'' قرار دیا گیا۔
ڈے زیرو کا مطلب ہے پانی کی نایابی۔عام آدمی کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے، ان مراکز سے فی کنبہ پچاس لیٹر پانی روزانہ بطور راشن دیا جانے لگا۔ )یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے ( ۔کیپ ٹاؤن میں سوئمنگ پول ، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔فائیو اسٹار ہوٹل اور ریسٹورنٹس کاغذ سے بنی کراکری استعمال کر رہے ہیں تکہ برتن دھونے کے لیے پانی کی ضرورت نہ پڑے۔ اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
کیپ ٹاون میں پانی کی کمی کا آغاز سن 2015 میں ہوا، اس سے پہلے عالمی اداروں اور آبی ماہرین نے کئی بار آگاہ کیا کہ آبادی اور شہر کے پھیلاؤ اور پانی کے ضایع کو نہ روکا گیا توکیپ ٹان شہر میں پانی کی کمیابی اور بعد میں شدید قلت کا سامنا ہوگا، اس لیے مناسب منصوبہ بندی کی جائے لیکن جنوبی افریقہ کی حکومت اور سرکاری اداروں کے افسران کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور آخر کار جب حالات مشکل ترین ہوگئے تو ریاست نے اس جانب توجہ مرکوز کی۔تین سال تک جنوبی افریقہ کی حکومت اس مسئلے سے صرف نظر کرتی رہی اور بالآخر 2018 میں ''زیرو ڈے'' آگیا جب پورے شہر کی واٹر سپلائی میں ایک بوند بھی پانی باقی نہ رہا۔
حکومت نے کیپ ٹاون میں زندگی کو بحال رکھنے کے لیے شہر کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے ٹینکروں کے ذریعے ہر گھرانے کو محدود مقدار میں پانی دینے کا شیڈول بنایا ۔شہر کے تمام پارک، درخت اور سبزہ خشک ہو گیا۔ ایک خوبصورت اور پرکشش سیاحتی شہر میں چالیس لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔آبادی کی اکثریت نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔کیپ ٹاون میں یہ صورت حال چار سال سے زائد عرصے تک رہی۔چند ماہ پہلے کیپ ٹاون میں ہونے والی اچھی بارشوں کی وجہ سے ڈیمز میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا تو زندگی کی رونقیں لوٹنے لگیں۔
طاقتور حکمران اشرافیہ کی جہالت ، لاپروائی، سرکار کے نکھٹو پن اور افسران کے کمی فہمی کے باعث جنوبی افریقہ کے خوبصورت ترین شہر کیپ ٹاون کو جدید دنیا کا پہلا ''ڈے زیرو'' شہر کہلوانا پڑا اور یہ بدنما اعزاز ہمیشہ حکمرانوں کی جہالت کو آشکار کرتا رہے گا۔ بہرحال کیپ ٹاؤن شہر اکیلا شہر نہیں ہے ،اس کے پیچھے ایک سو انیس اور شہر کھڑے ہیں۔جن میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور،پاکستان کا کراچی، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان سات ممالک میں شامل ہے جہاں زیر زمین پانی کی کمی تیزی سے ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگلے تین سال بعد پاکستانی عوام کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔ اسلام آباد جہاں کبھی پانی 50فٹ پر باآسانی نکل آتا تھا ، اب وہاں چار سو سے پانچ سو فٹ کی گہرائی تک جانا پڑتا ہے۔لاہور اور کراچی کی صورت حال اسلام آباد سے بھی زیادہ خراب ہے۔
لاہور جہاں کے شہریوں نے پانی کی کمی یا قلت خواب میں بھی نہ دیکھی تھی، اب دیکھ رہے ہیں، اگر شہر کی آبادی اور ہاوسنگ سوسٹیز اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو یہ باغوں اور کالجوں کا یہ شہر موئن دڑو اور ہڑپہ کی تصویر بن جائے گا۔ پاکستان میں پانی کے بحران کی وجوہات سے حکومت اور حکمران اشرافیہ پوری طرح آگاہ ہیں، عالمی اداروں اور ماہرین کی وارنیگز بھی موجود ہے لیکن بات وہی اعلیٰ سطح پر جہالت ، لاپروائی اور ہوش زر کی ہے۔
حکمران اشرافیہ عوام کو جاہل کہتی ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ پڑھے لکھے حکمران طبقات کارنامنے سرانجام دے رہے ہیں۔ قلیل المدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کی جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔حالات جس طرف جا رہے ہیں اور ان کی سنگینی کا جس قدر جلد احساس ہو جائے بہتر ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست حکومت اور میڈیا کو اس جانب ترجیح بنیادوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔