سانحہ مری اور ڈی ایم جی
وہ ایک ایسا احتجاجی جلسہ تھا جس میں کوئی تقریر نہ کر سکا لیکن یہ معلوم ہو گیا کہ اہل اسلام کی سجدہ گاہ پر قبضہ ہو چکا
ISLAMABAD:
ان دنوں نومبر میں بھی سردی ہوا کرتی تھی۔ ہم لوگ کپکپاتے ہوئے کالج پہنچے تو جسے دیکھا آڈیٹوریم کی طرف بھاگا چلا آتا تھا۔ کالج تقریبات کی روایت ہمیشہ یہی دیکھی کہ طلبہ جب پہنچ گئے ایک ایک کر اساتذہ بھی آنے لگتے لیکن اس روز ماحول مختلف تھا۔
اسٹیج اساتذہ سے بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر ارشاد حسین نقوی، پروفیسر رانا اصغر علی،چوہدری عبدالحمید صاحب، پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب، ریاض شاد صاحب، کون اس محفل میں نہیں تھا۔ حاضرین کی بڑھتی تعداد آڈیٹوریم کے کناروں سے بہنے لگی تو ایسا یاد پڑتا ہے کہ نقوی صاحب روسٹرم پر آئے لیکن بات نہ کرسکتے۔ لہجے کی گلو گیری بڑھتی گئی اور وہ آنسو پونچھتے ہوئے واپس پلٹ گئے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ دیگر اساتذہ کا بھی تھا ع
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
وہ ایک ایسا احتجاجی جلسہ تھا جس میں کوئی تقریر نہ کر سکا لیکن یہ معلوم ہو گیا کہ اہل اسلام کی سجدہ گاہ پر قبضہ ہو چکا۔ بس، جذبات کا دھارا پھوٹ بہا اور طلبہ کا ریلا ابل کر سڑک پر نکل آیا۔ سڑکیں انسانوں کا سمندر بن گئیں۔اتنے بڑے ہجوم کا ہدف اس روز کیا رہا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا۔وہ اسلام آباد نہیں تھا، ورنہ ہدف آسان تھا۔ امریکی سفارت خانے پہنچو اوروہ کر ڈالو جس سے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے۔ مگر وہ سرگودھا تھا۔ نہ وہاں امریکی سفارت خانہ، نہ کلچرل سینٹر۔ لے دے کر ڈسٹرکٹ کورٹس تھی، ریلوے اسٹیشن یا چند دیگر سرکاری عمارتیں۔ خدشہ یہی تھا کہ غیض و غصب کا شکار ہجوم کہیں ان ہی پر نہ چڑھ دوڑے۔
مشتعل ہجوموں سے نمٹنے کے سلسلے میں جتنا اہتمام موجودہ زمانے میں ہوتا ہے، اس زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بڑی سے بڑی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک مجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر ہی کافی ہوتا تھا۔ سرگودھا کے اس ہجوم کو بھی فاروق سید نام کا ایک اسسٹنٹ کمشنر ٹیکل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں فیض آباد کے پل پر اکٹھا ہونے والا ہجوم نہ زیادہ بڑا تھا اور اس کے جذبات اتنے مشتعل تھے کہ کوئی اسسٹنٹ کمشنر اسے منتشر نہ کر پاتا لیکن المیہ یہ تھا کہ یہ 2002 کے بعد کی بات تھی۔ یعنی بیوروکریسی کی اصلاحات کے بعد کی جن کی وجہ سے پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نظام کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کسی قسم کی ہنگامی صورت حال پر قابو پانے کی صلاحیت کھو بیٹھا۔
یہ صرف جلسے جلوس کی بات نہیں ہے۔ سانحہ مری جیسے حادثات سے نمٹنا بھی دو ہزار دو سے پہلے کی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا۔ بدقسمتی سے یہ دو ہزار دو سے پہلے کا زمانہ نہیں تھا ورنہ اتنی تباہی کبھی نہ ہوتی۔ مری کاسانحہ اتنا بڑا کیوں ہو گیا؟ ا س کی تین چار بنیادی وجوہات ہیں۔یہ وجوہات کیا ہیں، انھیں پس منظر جانے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا لہٰذاسانحی مری کی مثال سے اسے سمجھنا آسان ہوگا۔
مری کے حادثے کی بنیادی ذمے داری ڈی سی او اور ڈی پی او اور ان کے عملے پر عاید ہوتی ہے۔ یہ لوگ بروقت متحرک نہ ہو سکے۔ یہ دو مناصب متحرک ہو جاتے تو مری صرف اتنے ہی لوگ آتے جتنے آنے چاہیے تھے۔ یوں کسی حادثے کا امکان ٹل جاتا۔ یہ لوگ کیوں متحرک نہ ہو سکے، اس کی وجہ مشرف کی تباہ کن اصلاحات ہیں۔ ان نام نہاد اصلاحات سے قبل ڈی سی ضلعے کا انتظامی سربراہ ہوتا تھا اور تمام محکمے اس کا حکم بجا لاتے تھے۔ دو ہزار دو کی اصلاحات کے بعد اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔
لہٰذا کسی بھی ضروری موقع پر متعلقہ ادارے متحرک نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک مثال مری میں پھنسنے والے مسافر شہزاد کی گواہی سے ملتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس خونی رات برف ہٹانے والے محکمے کی گاڑیاں اس کے دفتر میں کھڑی تھیں۔ جو گاڑیاں متاثرہ مقامات پر موجود تھیں، ان میں تربیت یافتہ عملہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق ان لوگوں کو اپنے کام میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ صبح جب شفٹ تبدیل ہوئی اور تربیت یافتہ عملہ آ پہنچا تو صورت حال بدل گئی۔ اگر جنرل مشرف سے پہلے کا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نظام برقرار ہوتا تو اس کوتاہی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
سانحہ مری کے دوسرے پہلو کا تعلق ہوٹل کے کاروبار سے ہے۔ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہوٹل والوں نے سیاحوں کو لوٹا۔ دو چار ہزار روپے روزانہ والے کمرے بیس پچیس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے پر کرائے پر دیے گئے۔ بوائلڈ انڈہ اور گرم پانی کا گلاس پانچ سو روپے سے ہزار روپے میں فروخت ہوا۔یہ سب کیوں ہوا؟
اس لالچ اور بے حسی کا پہلو ضرور ہے لیکن زیادہ اہم پہلو انتظامی ہے۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے لیے جنرل مشرف کی اصلاحات سے قبل سی آر پی سی کے تحت مجسٹریٹ ایسے معاملات سنبھال لیا کرتے تھے۔ ان اصلاحات کے بعد یہ اختیار سول جج کے پاس چلا گیا۔ سول جج فیلڈ افسر نہیں ہے لہٰذا اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ بازار میں کیا ہو رہا ہے۔ مری میں ہوٹل کے کاروبار کے بے لگام ہونے کی اصل وجہ یہ ہے۔
اللہ جانے حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی کیا فیصلہ دے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس سانحے کے حقیقی مجرم پرویز مشرف اور تنویر نقوی ہیں جنھوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا کوئی متبادل نظام بنائے بغیر پرانا نظام تباہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نہ مری جیسے حادثات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ دنگے فساد پر قابو پانا اس کے بس میں رہ گیا ہے۔ فیصلہ سازوں میں سے اگر کسی کو اس ملک اور اس ملک کی سلامتی سے دلچسپی ہے تو وہ دو ہزار دو میں کی گئی اس پہاڑ جیسی غلطی کے ازالے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس ملک کی انتظامیہ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور نہ قانون شکنوں سے۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیں۔