میڈیکل سائنس میں ایک اور انقلابی پیش رفت
چند روز قبل امریکا میں ایک مریض کو سور کا دل لگایا گیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا ہے
کراچی:
میڈیکل سائنس کی تاریخ میں ایک انقلاب کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ اب جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوندکاری آسان ہوگئی۔ چند روز قبل امریکا میں ایک مریض کو سور کا دل لگایا گیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ اس طریقہ کار کو طبی اصطلاح میں Xero Graftingکہا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول آف میڈیسن UMSM کے ڈاکٹرز اور سرجن کی ایک ٹیم نے بالٹی مور میں آٹھ گھنٹے مسلسل آپریشن کرکے دل کے پرانے مرض مسٹر بینٹ کی زندگی بچائی۔ اس آپریشن کے انچارج سرجن ڈاکٹر محی الدین ہیں، جن کا تعلق کراچی اور سندھ سے ہے ۔ انھوں نے 1989ء میں کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیااوراعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے University of Pennsylvancia کےTransplantation biology and immunology of cardiothoric surgery میں فیلوشپ کی۔
پاکستان میں گردے کے ٹرانسپلانٹیشن کا آغاز سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولاجی اینڈ ٹرانسپلانٹ S.I.U.T میں پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی نگرانی میں ہوا۔ اس ٹیم کے ایک ڈاکٹر پروفیسر بخش علی کہتے ہیں کہ Xeno Grafts کے طریقہ میں پہلے کسی اعضاء کے ٹشوز دوسرے انسان کے ٹشوز میں داخل کیے جاتے ہیں ، اگر یہ ٹشوز کام کرنے لگتے ہیں تو پھر مریض کو مستقل کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بخش علی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ عمومی طور پر انسانی جسم دوسرے انسانی جسم کے ٹشوز کو قبول نہیں کرتے اور ٹشوز کی منتقلی کا عمل ناکام ہوتا ہے۔
اس بناء پر Xeno Grafts کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ سائنس دانوں نے جانوروں کے ٹشوز دوسرے جانور میں منتقل کرنے کا تجربہ کیا۔ پہلے دوسرے جانور کا ٹشوز منتقلی کا تجربہ ناکام ہوتا رہا ہے مگر اب یہ تجربہ میڈیکل سائنس میں اہم تبدیلی لائے گا۔ ڈاکٹر بخش علی کا بیانیہ ہے کہ یہ ایک مسلسل ٹیم ورک ہے جس میں لیب میں کام کرنے والے ڈاکٹر شامل ہوتے ہیں۔ فزیشن اور سرجن اس ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں مختلف بیماریوں کی بناء پر دل کمزور ہوجاتا ہے اور خون کی فراہمی کا بنیادی فریضہ پورا نہیں کرپاتا۔ دل کی حرکت کو متحرک کرنے کے لیے ادویات اور پیس میکر بھی کام نہیں کرتے تو اس صورت میں ڈاکٹر دل کی تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس صورت میں کسی شخص کی موت کے بعد اس کا صحت مند دل بھی کام آسکتا ہے۔
1970 میں جنوبی افریقہ میں سرجن برناڈ نے دل کی منتقلی کا پہلا آپریشن کیا تھا۔ دنیا بھر میں انسانیت سے محبت کرنے والے افراد وصیت کرجاتے ہیں کہ ان کی موت کی صورت میں دل سمیت دیگر اعضاء ضرورت مندوں کو عطیہ کے طور پر دیے جائیں، مگر ہر سال سیکڑوں افراد دل کے ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی بناء پر موت کا شکار ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اعضاء کی منتقلی کا معاملہ ہمیشہ تنازعات کا شکار رہا۔ ڈاکٹر بخش علی جن کی زندگی کا مقصد گردے کی منتقلی کا آپریشن کرنا ہے، کہتے ہیں کہ سب سے پہلے خون کے عطیہ کا معاملہ شروع ہوا مگر سائنسی نقطہ نظر سے محرومی کی بناء پر آبادی کی اکثریت خون کے عطیہ سے گریز کرتی تھی۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ مفروضہ تقویت پاگیا تھا کہ خون کی منتقلی سے کمزوری ہوگی۔ ڈاکٹروں نے برسوں خون کے عطیہ کی مہم چلائی اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نوجوان مرد اور عورتیں خون کے عطیہ کے ذریعہ اپنی صحت کو بہتر بناسکتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے قریبی عزیزوں کو خون دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ اب بھی بہت سے ایسے افراد سے واسطہ پڑ جاتا ہے کہ جنھوں نے زندگی بھر کسی کو خون نہیں دیا ہوتا مگر جب ان لوگوں کو خون کی ضرورت پڑی تو ان کے لواحقین لوگوں کی منت کرنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان میں سب سے پہلے آنکھوں کی ٹرانسپلانٹ کا آغاز ہوا۔ سری لنکا سے عطیہ کے طور پر پاکستان میں آنکھیں آنے لگیں۔ کراچی میں سرجن رضوی نے بلدیہ کراچی کے اسپنسر آئی اسپتال میں سری لنکا سے عطیہ کے طور پر آنے والی آنکھ کے ٹرانسپلانٹ شروع کیا تھا۔ صوبہ سرحد کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فضل حق اور عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے مر نے سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کی موت کے بعد سے آنکھیں کسی ضرورت مند کو دیدی جائیں۔ ان دونوں اکابرین کے لواحقین نے ان کی وصیت پر عمل کیا۔ پاکستان میں گردے کا سب سے پہلے ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیر قیادت ٹیم نے کیا۔ گردے کے ٹرانسپلانٹ کا سلسلہ پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کیا۔
اس طریقہ کار کے تحت زندہ انسان اپنا یک گردہ اپنے قریبی عزیز کو عطیہ کرسکتے ہیں اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور صحافی عبدالحمید چھاپڑا نے اپنا گردہ اپنے چھوٹے بھائی کو عطیہ کے طور پر دیا تھا اور باقی ماندہ زندگی خوش و خرم گزررہی ہے مگر گردے کے ٹرانسپلانٹ کے خلاف سب سے پہلے مذہبی حلقوں میں مہم چلائی۔ بعض نادان ناقص علم رکھنے والے مولویوں نے فتویٰ دیے کہ انسان اپنے اعضاء کسی کو عطیہ نہیں کرسکتا۔ ایک زمانہ میں دنیا میں سب سے بڑے اردو اخبار کا دعوی کرنے والے اخبار کے مذہبی صفحہ میں اس طریقے کے فتوے شائع ہوتے تھے مگر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کی ٹیم نے اس بارے میں سائنسی خطوط پر مہم منظم کی۔ علماء کرام کو حقائق سے آگاہ کیا گیا ۔
ان علماء کو ایس آئی یو ٹی میں ان مریضوں سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا جن کی زندگی گردے کا عطیہ نہ ملنے کی بناء پر ہفتوں تک محدود ہوگئی تھی۔ اعضاء کے عطیہ اور ان کے ٹرانسپلانٹ کے حوالہ سے باقی مسلمان ممالک میں حیرت انگیز طور پر دوسری صورتحال رونما ہوئی۔
سعودی عرب میں علماء نے اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کا خیر مقدم کیا۔ سعودی عرب میں سخت موسم اور دیگر وجوہات کی بناء پر گردے کے ناکارہ ہونے کے کیس خاصے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں سب سے زیادہ کڈنی ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں۔ اس سرجن نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سعودی فرماں روا نے برسوں پہلے یہ ڈگری جاری کی تھی کہ سعودی عرب میں ڈاکٹر انسانی جان بچانے کے لیے تمام طریقے استعمال کرسکتے ہیں جو مرنے والے افراد کے اعضاء زندہ انسانوں کو لگا کر ان کی زندگی بچانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔
اس کانفرنس میں ایران سے آئے سرجن نے اسی سوال کا یوں جواب دیا تھا کہ آیت اﷲ خمینی نے ایران میں اسلامی حکومت کے قیام کے وقت یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ جیومیٹری خواہ یورپ میں پڑھائی جائے یا امریکا ، جیومینٹری کیا ہے اور ہمارے طالب علموں کو بھی پڑھنی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران میں کسی مکتبہ فکر نے انسانی اعضاء کی منتقلی کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ڈاکٹر بخش علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب حالات بہتر ہیں۔ تمام مکتبہ فکر کے علماء کا اعضاء کی منتقلی پر اتفاق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کے مختلف شہروں میں گردے کی منتقلی کے آپریشن ہوتے ہیں مگر پنجاب کے بعض شہروں میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد سے گردے خریدنے کا مذموم کاروبار بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور دیگر ڈاکٹروں کی کوششوں سے اعضاء کی منتقلی کی تجارت کو روکنے کے لیے ایک جامع قانون بھی نافذ ہوا ہے اور کچھ صوبوں نے اس قانون پر عملدرآمد کے لیے اتھارٹی قائم کی ہے مگر اس غیر قانونی میڈیکل پریکٹس کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔