سائنس کی لازوال ترقی
ہم سانئسی ترقی اورمیڈیکل سانئس میں ترقی کی کررہے ہیں، دل اوردیگر اعضا کو چھوڑیں، اب تو دماغ کی منتقلی پرتحقیق ہورہی ہے
گزشتہ دنوں عالمی طور پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ ایک امریکی شہری ڈیوڈ بینیٹ امراض قلب میں مبتلا تھے، آخر کار ان کے دل کی جگہ سور کا دل لگانے کا کامیاب ٹرانسپلانٹ ہو گیا اور وہ رو بہ صحت ہیں۔ ٹرانسپلانٹ کرنے والا ڈاکٹر منصور محی الدین پاکستانی نژاد ہے۔
اس بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ مریض کو سور کا دل لگایا گیا ہے ، طبی ماہرین عرصے سے تحقیق کررہے ہیں کہ جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوند کاری ہوسکتی ہے، اب سور کا دل انسان میں لگا کر ایک کامیاب تجربہ کیا گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کرہ ارض پر اور بھی ایسے جانور ہوں گے جن کے اعضا انسان کو منتقل ہو سکتے ہیں۔
جیساکہ کینگرو کے پھیپھڑے انسانوں کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہر دور میں سائنسی ایجادات اور استعمال پر ہمیشہ رجعتی قوتیں معترض رہتی ہیں۔ ابو بکر الراضی (فادر آف میڈیسن) نے جب چیچک کی دوا ایجاد کی تو انھیں اس وقت کے حکمران نے قید میں ڈال دیا۔ ابن رشد کو جلاوطن ہونا پڑا اور انھوں نے ایران میں پناہ لی جہاں اس وقت زرتشتوں کی حکومت تھی۔ جون برونیو نے جب یہ ایجاد کیا کہ خون دوڑتا ہے تو چرچ نے انھیں زندہ آگ میں جلا دیا۔ بہرحال جن عقائد کو انسان مانتا ہے،ان کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسی جانور کا عضو قابل قبول ہوسکتا ہے جو اسلامی عقائد سے متصادم اور خلاف نہ ہو۔
اصل میں ایجادات بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہی رہی ہیں اور ان کا مذہبی معاملات سے نہیں ہوتا۔ جارج اسٹیفن ایک دہریہ سائنس دان تھا، انھوں نے ریل گاڑی ایجاد کی۔ آج ٹرین انسانی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔ ہم ریل گاڑی کا سفر کرتے ہیں۔ریل گاڑی سے ہم پاکستان سے ترکی تک سامان پہنچا سکتے ہیں۔ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کیا لینا دینا کہ جارج اسٹیفن موحد تھا یہ دہریہ۔ اسی طرح سرمایہ داری کے مقابلے میں اگر پرودھون غیر طبقاتی سماج کا فلسفہ پیش کرتا ہے اور سارے لوگ مل کر پیداوار کریں اور پھر مل کر بانٹ لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ پرودھون غیرمذہبی تھا یا مذہبی تھا، بنی نوانسان کو اس سے کیا لینا دینا ہے۔ آج زراعت، صحت، ابلاغ عامہ، تعلیم اور تعمیرات میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ لوگ مریخ پر زمین خرید رہے ہیں۔
لیکن ان سائنسی ایجادات سے چند لوگ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کرہ ارض کی آدھی دولت کے مالک صرف 10 خاندان ہیں جب کہ اسی دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ ایسی ترقی کس کام کی؟ سب مل کر پیداوار تو کر رہے ہیں مگر اس کے حاصلات سب لوگ حاصل کرنے کے بجائے چند لوگ حاصل کر رہے ہیں۔ اگر اس دنیا سے اسلحے کی پیداوار کو روک دیا جائے، غیر پیداواری اخراجات کو ختم کردیا جائے، کاسمیٹک اور عیش و عشرت کی اشیا کے استعمال کو ختم کردیا جائے تو اس دنیا کے تمام مریضوں کا مفت علاج کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی گداگری کرے گا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی کی ایک اطلاع کے مطابق صرف عراق اور افغانستان کی جنگ میں 14 کھرب ڈالر خرچ ہوئے جس میں سے 40 فیصد کرپشن کی نظر ہوگئے اور یہ کرپشن بڑی کاریگری اور اعلیٰ حکمت عملی سے کی گئی کہ اس کا کوئی پتا نہ چل سکے، اور نہ پتا چل سکا۔ ابھی چند سال قبل کی بات ہے کہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں رفیق نامی ایک غریب شخص جسے ہیپٹائٹس ہو گیا تھا، اسے صرف ڈھائی لاکھ روپے کی ضرورت تھی، اس کا علاج ہو سکتا تھا مگر وہ اس کا بندوبست نہ کرسکا۔ اس کے انتقال سے چند روز قبل راقم خود ایک دوست حارث کے ساتھ ملاقات کرنے گیا تھا۔
مرحوم نے ایک بیوہ اور تین چھوٹے بچوں کو سوگ وار چھوڑا۔ جب کہ اسی کراچی میں ایسے بہت سے گھرانے ہیں جو روزانہ ڈھائی لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں۔ میرے ایک اور دوست جو امریکا میں رہتے ہیں ان کے والد امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں 12 ملازمین اور چار گاڑیاں ہیں۔ تین منزلہ عمارت میں لفٹ لگی ہوئی ہے۔ میزنائن فلور میں ایک ہال بنا ہوا ہے جہاں مشاعرہ اور دیگر فنکشن بھی کرسکتے ہیں۔ اس دوست کی والدہ ہر ہفتہ شہر کے اکابرین کو دعوت کرتی ہیں، جب کہ ایک مریض جو اسپتال میں زیر علاج تھا ، اس نے اس کی عیادت اور مدد کرنے سے انکار کردیا۔
درحقیقت اس طبقاتی نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہرحال بات ہم سانئسی ترقی اور میڈیکل سانئس میں ترقی کی کررہے ہیں، دل اور دیگر اعضا کو چھوڑیں، اب تو دماغ کی منتقلی پر تحقیق ہو رہی ہے اور اس تحقیق میں کامیابی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اس ترقی کا فائدہ امراء کو ہوگا ، غریب بیچارے بغیر علاج کے ہی مرتے رہیں گے تاہم ایسا نہیں ہے کہ غریبوں تک سائنسی ترقی کے ثمرات پنچائے نہیں جاسکتے، اس کے درد دل اور اچھی نیت کی ضرورت ہے۔ایک مثال دیتا ہوں کہ کراچی میں امراض قلب کے اسپتال میں سب کچھ مفت میں ہو رہا ہے یہاں تک کہ دل کی بیٹری بھی مفت لگ رہی ہے۔
SIUT (گردہ) سول اسپتال میں بھی سب کچھ مفت ہو رہا ہے۔ سالانہ 80 ہزار لوگوں کا مفت ڈائیلائسس ہو رہا ہے جب کہ امریکا اور برطانیہ میں بھی مفت ڈائیلائسس نہیں ہوتا۔ اگر سب کے لیے مفت علاج ہو تو ایسی سائنسی ایجادات معقول اور کارآمد ہیں ورنہ چند لوگ ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔