سرمائے کا ارتکاز
ہمارے نظام سرمایہ داری میں عوام کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ کروڑوں روپے معمولی چیکوں کے ذریعے ادھر سے ادھر کردیتے ہیں
LONDON:
سیاسی جماعتوں نے کافی دنوں سے کارکنوں کو ہوشیار کردیا ہے، الیکشن چاہے وہ آزمائشی ہوں یا پکا ہوں اصل میں سیاسی وڈیرے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ جو بساط بچھانے جا رہے ہیں وہ ان کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں۔
جب سیاسی وڈیرے اس بساط سے مطمئن ہو جائیں گے اور سارے کارکن اپنی اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیں گے اور تو یہ سیاسی لیڈر اپنے اپنے حلقوں میں وزٹ کرکے ان میں عوام کو الرٹ دیکھیں گے تو انھیں اطمینان ہو جائے گا کہ میدان تیار ہے پھر ایک فائنل وزٹ ہو گا جس میں وہ پلیئر شامل ہوں گے جنھیں فائنل میں کھیلنا ہے۔
جس کھیل کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ملک کے عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ تقدیر بدلنے کا یہ کھیل عشروں سے چل رہا ہے لیکن جو لوگ اپنی تقدیر بدلنے کے اس کھیل میں شریک ہوتے ہیں ، انھیں اورکچھ تو نہیں ملتا شاباشی مل جاتی ہے یہ کھیل نسلوں سے یوں ہی چلتا آ رہا ہے اور اگر سسٹم یہی ہے اس کے نتائج بھی سابق کی طرح مرضی کے عین مطابق ہی ہوں گے ، کارکن زور شور سے تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں نئے نوٹوں کی گڈیاں ادھر سے ادھر ہو رہی ہیں۔ بے چارے عوام ان ساری کارستانیوں سے بے خبر زندہ باد ، مردہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔
ایلیٹ کے ہیروز اپنی ڈیوٹی پر چاق و چوبند کھڑے ہیں یہ سلسلہ ذرہ بھدے پن سے جاری و ساری ہے اصل میں یہ پورا سسٹم اسی طرز پر چلتا ہے اس سسٹم میں دینے والے ہاتھ کو دینے کا پتا چلتا ہے اور نہ لینے کا پتا چلتا ہے۔ سارا کام بینکوں کے کاغذات کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ مثلاً عشروں سے چل رہا یہ نظام اس قدرگہرا ہے کہ ہمارے ملک میں سارا کام کارندوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ امیدوار خواہ وہ کسی منصب کے لیے ہو وہ چیک کے ذریعے بات کرتا ہے۔ ہمارے نظام سرمایہ داری میں عوام کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ کروڑوں روپے معمولی چیکوں کے ذریعے ادھر سے ادھر کردیتے ہیں۔
سرمایہ کے اصل مالک عوام کو خبر تک نہیں ہوتی۔ اس نظام کی گہرائی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اربوں روپے کا لین دین کاغذ کے ٹکڑوں سے ہوتا ہے۔ پسماندہ ملکوں میں یہ سارا کام کارکن کرتے ہیں اور سرکار کے پاس چونکہ وقت ضایع کرنے کے لیے نہیں ہوتا لہٰذا وہ ان کاموں سے زیادہ اہم کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اس بزنس میں مصروف رہتے ہیں انھیں یہ پتا نہیں چلتا کہ کس قدر رقم مالکان کے کھاتوں میں ایک حصے سے دوسرے حصے پر چلی جاتی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اس قدر آسان نظام سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا جو اٹھایا جانا چاہیے ہر ملک کے بینکوں میں اربوں روپے کا لین دین ہوتا ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنسی کے ذریعے ہونے والا یہ لین دین اکثر دونوں پارٹیوں کے مرہون منت ہوتا ہے۔
ہم نے بات کی ابتدا کارکنوں کی ڈیلنگ سے کی تھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سرمایہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا ہوتا ہے، سمندر کی شکل کیسے اختیار کرلیتا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں یہ سرمایہ جو کٹی پٹی شکل میں ہوتا ہے جب جڑ کر ایک بڑے سرمائے کی شکل میں سامنے آتا ہے تو اس کی طاقت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کارندے جو مالکان کے سرمایہ کو گردش میں رکھتے ہیں، کیا انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا سرمایہ پھیل کر اتنے بڑے سرمائے میں بدل جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سرمائے کے اس کاروبار میں مصروف لوگوں کو اس قدر فرصت نہیں ملتی کہ وہ اپنے سرمائے کا جائزہ ہی لے لیں جب کہ یہ چھوٹے سرمایہ دار اس سرمائے کو استعمال کرکے منڈی کے ایک بڑے سرمایہ کار بن جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ میجک ہے جو زمین کو آسمان پر اور آسمان کو زمین پر پہنچا دیتا ہے چھومنتر کے اس کھیل میں بینکوں کے کارکنوں کا کردار بڑا دلچسپ ہوتا ہے وہ دن بھر مارکیٹ میں مصروف رہ کر ساری دنیا کی کرنسی جو اربوں میں ہوتی ہے ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ عام آدمی حیرت سے یہ سارا کام دیکھتے رہتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں کام کرنے والے کارندوں سے لے کر دیگر کارکنوں تک جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ بینک ٹرانزیکشن سے ہوتا ہے کرنسی کے اس کھیل کو اربوں تک لے جایا جاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن بھر اس کھیل میں مصروف لوگوں کے گھروں میں فاقے تو نہیں ہوتے یہ وہ کالا جادو ہے جو سرمائے کے کھیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں 70 فیصد سے زیادہ غریب لوگ ہیں جنھیں سرمائے کے اس کھیل کا پتا ہی نہیں۔ غریب آدمی نہ اس کھیل کو جانتا ہے نہ اس کے فوائد اور نقصانات سے واقف ہے۔ کیا اس ناسمجھ آنے والے گورکھ دھندے سے عوام واقف ہوسکیں گے؟