مہنگائی اور ضمنی بجٹ
افراط زر پر دھواں دھار تقاریرکا مزہ اس وقت دوبالا ہوا چلا جا رہا ہے جب سے حکومت نے ضمنی بجٹ پیش کیا ہے
QUETTA:
جب سے پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہے، مہنگائی کی در اندازیوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے ، اب ہر شخص مہنگائی کو ہی مشق سخن بنا رہا ہے۔ دو اجنبی ہوں یا بوریت دورکرنی ہو یا گفتگو میں جوش و خروش پیدا کرنا ہو ، جان نہ پہچان ، بس ذرا سی بے دلی کے ساتھ مہنگائی کا تذکرہ چھیڑیں تو فوراً ہی ایک پرمغز سا تبصرہ حاضر ہو جائے گا۔
افراط زر پر دھواں دھار تقاریرکا مزہ اس وقت دوبالا ہوا چلا جا رہا ہے جب سے حکومت نے ضمنی بجٹ پیش کیا ہے۔ مہنگائی کے اس شور و غوغا میں حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے کہ مہنگائی عالمی لہر ہے اور پاکستان اب بھی سستا ملک ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مہنگائی کے خلاف ابھی چیخ و پکار جاری تھی کہ حکومت نے ایک اور منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کرا لیا۔ اسی ایوان میں اپوزیشن کا شدید احتجاج اور نعرے بازی بھی جاری رہی۔ مہنگائی کے اس بوجھ نے جسے عوام پر لادا گیا ہے ، دراصل غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
آٹا، بچوں کا دودھ، مسالے، دوائیں، موبائل فون مہنگی ہو کر رہیں گی۔ کاسمیٹکس کتابیں، مرغی، سونا چاندی اور بہت سی اشیا پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگنے سے کیا کیا اشیا مہنگی نہ ہوں گی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور مٹھائی کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ فلور ملز پر 10 فیصد ٹیکس سے یقینا آٹا مہنگا ہوکر رہے گا۔ زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی سبزیوں کے علاوہ ٹریکٹر بھی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ اس طرح 150 سے زائد اشیا کے مہنگا ہونے سے اب تک پاکستان سستا ملک کہاں رہا؟
موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کی قلت پیدا ہوکر رہی جس کا منفی اثر ان ٹیکسٹائل ملوں پر زیادہ مرتب ہوا جو ایکسپورٹ سے وابستہ ہیں جس کے باعث مختلف ذرایع کے مطابق 276,26 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ان تمام باتوں کے باوجود ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اپنی گروتھ میں اضافہ بھی کیا ہے اور ایکسپورٹ میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے لیکن گیس کی فراہمی ایک بنیادی عنصر ہے جس کی ذمے دار حکومت ہے۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بارہا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
نئے مالی سال کے آغاز سے 15 یوم قبل 15 جون سے اب تک حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 39 روپے کا اضافہ کیا ہے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 34 روپے اور لائٹ ڈیزل میں تقریباً 37 روپے اور مٹی کا تیل ساڑھے چھتیس روپے مہنگا کرچکی ہے۔ بار بار پٹرول، بجلی، گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے سے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر موٹرسائیکلیں ہیں اور اب یہ غریب عوام کی سواری بن چکی ہیں۔ چاہے فیکٹری اونر ہو یا خوردہ فروش جوکہ سامان لے کر آتا ہے چاہے سبزی منڈی یا فروٹ منڈی سے یا ہول سیل مارکیٹ سے یقینی طور پر پٹرول کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو شامل کرتا ہے۔
اسی طرح سپلائر چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر موٹرسائیکل پر سامان فراہم کر رہا ہے یا کوئی بڑے پیمانے پر سامان فراہم کر رہا ہو سب کے سب پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو سامان کی فراہمی میں جب شامل کرتے ہیں تو اشیا کے نرخ لامحالہ بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ حکومت کہتی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق مالی سال کے پہلے ششماہی جولائی تا دسمبر 2021 کے دوران بجٹ خسارہ 18 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ، جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 29 فیصد زائد ہے۔ اس سلسلے میں ذرایع کا یہ کہنا ہے کہ یہ تخمینہ ابتدائی ہے اس کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کے 3.3 فیصد مساوی ہے۔ اگرچہ حکومت نے بجٹ خسارے کا ہدف 40 کھرب روپے پورے سال کے لیے رکھا ہے۔ آخری دو تین مہینوں میں یعنی اپریل تا جون تک اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں، لیکن اب مہنگائی ہی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ مالی سال کے آخر تک یہ ہدف سے زیادہ ہو چکا ہوگا۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں زرعی پیداوار زیادہ مہنگی نہیں ہونی چاہیے۔ خاص طور پر وہ اہم ترین اشیا جوکہ انتہائی ضروری کچن آئٹمز کہلاتی ہیں جن میں آٹا، چاول، گھی، دالیں، انڈا، مرغی، گوشت، چائے کی پتی، دودھ، دہی، آلو، پیاز، اس کے علاوہ پٹرول کی قیمت میں کمی اور بجلی گیس کے نرخوں میں کمی لانے کے مختلف طریقے اختیار کرنا لازم ہے ۔
حالیہ دنوں میں جس طرح کھاد بلیک میں انتہائی مہنگے داموں فروخت کی گئی، حکومت اگرچہ بار بار کھاد کے اصل نرخ کا اعلان کرتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ذخیرہ اندوز اور بلیک میں کھاد فروخت کرنے والے نہایت ہی فعال ہیں۔ مہنگی کھاد ہونے کے باعث کھاد کم ڈالنے سے گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے ، اس کے علاوہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کم کھاد ناقص بیج اور جعلی ادویات اور پانی کی قلت کے باعث فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے۔
پاکستان میں کسی قسم کی زرعی منصوبہ بندی نہیں ہے، اور پیداوار میں بھرپور اضافے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اب تو زرعی زمینوں پر غیر آباد سوسائٹیوں کے قیام سے بھی ماہرین خوراک کی قلت کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان میں زرعی پیداوار میں اضافے کے ذریعے مہنگائی کم ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہر زرعی اور دیگر پیداوار کے درمیان بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنھیں مڈل مین کہا جاتا ہے۔ ان کا کردار اگر کم ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی کھانے پینے کی اشیا کی قیمت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور مہنگائی کا بوجھ عوام پر سے کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ضمنی بجٹ کے مضر اثرات عوام کو کم محسوس ہوں گے۔