امید

شاید یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد کھل کر اتنا لمبا سانس لیا کہ سب کچھ نگل جانے کا فیصلہ کرلیا


Shehla Aijaz January 23, 2022

گورے برصغیر میں تجارت کی غرض سے آئے تھے ،گرم مسالوں کی خوشبو ہی ایسی پر اثر ہوتی ہے کہ گورا دوڑا چلا آیا اور پھر رکا نہیں بلکہ بڑھتا چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایک نئی اصطلاح متعارف ہوئی تھی اور پھر اس پر ایک مہر لگ گئی، کالونیزم۔ یہ ایک خطرناک اور پراسرار سی تعریف تھی جو کچھ اس طرح سے تھی''کالونیزم یا نوآبادیات سے مراد دوسرے لوگوں کی زمین کو فتح کرکے ان کی املاک پر قبضہ کرلینا ہے۔''

اسلحہ، بارود اور طاقت سے بھرے پرے یورپی بحری جہازوں میں بھر بھر کر آتے اور زمینوں پر قبضہ کرتے وہاں کے معصوم اور سادے لوگوں کو غلام بنا لیتے اور ظلم اور جبر کے سارے پیمانے سر کرلیتے۔ یہ سلسلہ افریقی ساحلوں اور بندرگاہوں سے ہوتا ہوا مشرقی ایشیا کی جانب بڑھا۔ تجارت کی غرض سے برصغیر میں قدم رکھ کر یہاں سیاسی مداخلت کرکے نفرتوں کو ہوا دیتے دیتے آقا بن بیٹھے۔

ابھی پچھلے دنوں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تاریخی آخری تصویر دیکھ کر اس زمانے کی رجعتی سیاست، شورش اور ظلم و جبر سے بھرپور دور کی عکاسی دیکھی جو اس مجبور و بے کس شخص کے اردگرد کہیں منڈلا رہی تھی، بار بار کہیں نہ کہیں سے یہ تصویر سامنے آ ہی جاتی ہے جو ہمیں ماضی کی شکست خوردہ داستان کو سناتی رہتی ہے۔ ان دنوں سپریم کورٹ کے آرڈر کے تحت غیر قانونی تجاوزات کو مسمار کیا جا رہا ہے تو نظر آتا ہے کہ ایسی زمینیں جن پر قانونی طور پر رہائشی عمارات تعمیر ہی نہیں ہو سکتی تھیں نہ صرف تعمیر شدہ ہیں بلکہ بلند و بالا عمارات قائم ہیں اس کی بہت سی مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں لیکن شکر ہے کہ ہم ایک آزاد ریاست کے باسی ہیں۔

1935 تک اس مقدمے کی تفصیلات سرسری سے انداز میں پڑھی تھیں یہ مقدمہ ایک ماں اور بیٹی کے درمیان تھا جس میں داماد صاحب اپنی ساس کی جائیداد سے برابر کا حصہ مانگنے پر بیٹی کے ساتھ ساتھ اسے ماں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کیس میں ایک اس وقت کی بڑی مذہبی شخصیت بھی شامل تھیں جن کی اس قدر شہرت تھی کہ انگریز بھی ان کے پاس آتے تھے۔ کان پور کی اس وسیع جائیداد کے مقدمے کی کارروائی خاصی دلچسپ تھی۔

لطف النسا بیگم ایک پردہ دار اور بہادر خاتون تھیں جو کم عمری سے ہی اپنی جائیداد کی بقا کے لیے پہلے اپنے بہنوئی بیرسٹر عبدالقادر خان سے آموں کے باغ اور کچھ اور نہری زمین کے سلسلے میں مقدمات اپنے والد محترم کے ساتھ بھگتتی رہیں جن پر ان کے بہنوئی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہ تھا کیونکہ ان کی بیگم یعنی کنیز فاطمہ شادی کے بعد جلد ہی فوت ہوگئی تھیں ان کی کوئی اولاد بھی نہ تھی۔ یہ غالباً 1910 کی بات ہے۔ اس پوری کارروائی میں بے پناہ مسائل تھے جن کا یاد رکھنا مشکل تھا لیکن کچھ خاص نکات یاد رہ گئے۔

اس زمانے میں کوارٹرز جنھیں کھولیاں کہا جاتا تھا جس میں دو کمرے اور ایک چھوٹا صحن کچن وغیرہ شامل ہوتا تھا کرائے پر چڑھائے جاتے تھے جس کا کرایہ مالک باقاعدگی سے جمع کرتا تھا ان کھولیوں یا کوارٹرز جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کوارٹرز آج کے حساب سے اچھے خاصے بڑے ہوتے تھے یہ اینٹوں اور گارے سے بنے ہوتے تھے لیکن کچے کہلاتے تھے۔ بارشوں میں ان کوارٹرز میں سے کچھ کی دیوار گر گئی تھی جس کی تعمیر اور مرمت کے لیے اس وقت کی میونسپلٹی سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔

1910 میں انگریز کا دور تھا اور اتنی معمولی اور ضروری تعمیر کے لیے اجازت لینے اور پھر تعمیر کروانے کا نظام انگریز حکمران نے اپنی نوآبادیات میں اس طرح سخت کر رکھا تھا کہ ایک کیل بھی ٹھونکنے کے لیے متعلقہ ادارے سے اجازت لینا پڑتی تھی اس کے لیے باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ یا اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا اور اس کے لیے بھی تحقیق کروائی جاتی تھی کہ آیا یہ ضروری ہے یا نہیں اور اسی بنیاد پر تعمیر کی اجازت دی جاتی تھی۔ اس اجازت نامے کی نقل بھی اسی مقدمے کے ضخیم مسودے میں موجود تھی۔

انگریز سرکار کے اصول و ضوابط برصغیر میں خاصے سخت محسوس کیے جاتے تھے کیونکہ بلاشبہ انھوں نے یہاں اپنے نوآبادیاتی نظام کے تحت رعایا سے غلامانہ سلوک روا رکھا تھا اور پھر یہ نظام جبر پر قائم تھا۔ گورا چلا گیا لیکن اس نے اپنے ممالک میں اپنے ان ہی سخت گیر نظام کے تحت آج بھی پرانے 1910 کو برقرار رکھا ہوا ہے، جہاں ایک عام آدمی اپنے وزیر اعظم کے خلاف عدالت میں رجوع کرسکتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے ہماری ملکیت کے اطراف یا کسی ایک جانب باڑ لگا رکھی ہے جو قانوناً ناجائز ہے۔

جہاں جج کو بھی اس کے غیر قانونی کاروبار یا کام پر سزا دی جاتی ہے، جہاں کسی بھی بڑی شخصیت یا شوبز کے چمکتے ستارے کو اس لیے سزا اور جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے کہ انھوں نے متعلقہ یونی ورسٹی کو اپنی بچی کے داخلے کے لیے رشوت کی پیشکش کی۔ ہم اپنے اس دور پر ترس کھاتے ہیں کہ انگریز حاکم نے کس قدر ظلم کیا اور ہماری نسلوں کو تباہ کیا لیکن خدا کے فضل و کرم سے ہم پچھلے پچھتر برسوں سے آزاد ریاست میں رہ رہے ہیں ،گورے کی کہانیاں اب ماضی میں رہ گئی ہیں لیکن آج ہم اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

ہم کرپشن پر کرپشن کی داستانیں ثبت کر رہے ہیں، ہماری ان نسلوں نے بھی اس سرزمین کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا نہیں رکھا جنھوں نے انگریز سرکار کے سخت قوانین اور سزائیں دیکھی تھیں بلکہ شاید یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد کھل کر اتنا لمبا سانس لیا کہ سب کچھ نگل جانے کا فیصلہ کرلیا۔

''دیکھیے آپ کا یہ حصہ ناجائز ہے بس جتنا آر سی سی کا ہے وہ جائز ہے۔''

''لیکن یہ تو پیچھے کرکے بنایا گیا تھا۔ پہلے زمانے میں تو ذرا پیچھے کرکے بناتے تھے اور آپ کو روڈ کے لیے کتنے فٹ تک چاہیے؟''

جواب ندارد۔ ارے یہ انجینئر بھی ہے یا۔۔۔۔؟

''دیکھیے ہمارے پاس یہ اس گھر کا نقشہ ہے جو متعلقہ ادارے سے منظورشدہ ہے اس میں ہمارے گھر کے سامنے ستر فٹ کا روڈ ہے دیکھیے۔۔۔۔! پھر آپ یہاں سو فٹ کا روڈ کیسے نکال سکتے ہیں؟''

جواب ندارد۔ ''مجھے بہت خوشی ہے کہ اس طرح ہمیں ہمارے وہ پلاٹ تو مل جائیں گے نا، جن پر ناجائزقبضہ راتوں رات کرلیا گیا تھا یقیناً وہ کارروائی بھی ہوگی نا۔'' خاموش۔

محسوس ہو رہا ہے کہ ریلوے کی زمینوں کے لیے بھی اب کام ہوگا، ٹرینیں چلیں گی یا نہیں لیکن ہمارے پلاٹوں پر تعمیر تو ہو سکے گی، لیز کھلے گی نا اور روڈ پر جو نجی سوسائٹیوں نے ناجائز قبضہ کرکے جگہ گھیر لی، روڈ تو چھوڑا ہی نہیں۔ کام ہو جائے گا نا۔ ایک لمبا طویل سانس۔ اس امید کے ساتھ کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔