’’سنگ بے بنیاد‘‘ میری نظر میں
مصنف نے خود ہی اس مسئلے کو حل کردیا ہے
معروف نثر نگار م۔ص ایمن کی آٹھویں کتاب ''سنگِ بے بنیاد'' کی تقریب اجرا ہے۔ کتاب پر محمود شام، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور عثمان جامعی صاحب کی آرا درج ہیں۔
تو صاحبانِ ذی وقار! میں یہ عرض کرنے جا رہی ہوں کہ جس طرح مصنف کا نام گرامی م۔ص ایمن دعوتِ فکر دیتا ہے اسی طرح مذکورہ کتاب کا نام ''سنگِ بے بنیاد'' سوچنے اور تاریخ کا اعادہ کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے، جو پتھر نصب کردیے گئے ہیں اور تاریخ اسلام و ہند و پاک میں ان کی اہمیت مسلم ہے، ہجرِ اسود جنت سے آیا ہوا پتھر ہے، اس کو نصب کرنے اور باہمی رنجش کو ختم کرنے کے حوالے سے رسول اکرمؐ کے تدبر نے ایک بڑے جھگڑے کو ختم کرنے میں نمایاں اور وہ کردار ادا کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ تاج محل، مساجد و مکاتب اور مقابر اور دنیا کی عظیم عمارات پتھروں ہی کی مرہون منت ہے۔
اس سے قبل کتاب کے عنوان ''سنگِ بے بنیاد'' پر بات کریں، مصنف نے خود ہی اس مسئلے کو حل کردیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کتاب کا نام ''سنگِ بے بنیاد'' رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جو پتھر کسی عمارت کی بنیاد میں نصب کردیا گیا ہو وہ اپنی جگہ سے ہلنے سے قاصر ہے ، لیکن وہ پتھر جو ہنوز بے بنیاد ہے اسے کئی مقامات پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مصنف نے غالب کے ایک شعرکا سہارا بھی لیا ہے۔ گویا غالب کے پاس جو پتھر تھا بھائی ایمن نے اسی سے کام چلا لیا ہے۔
شعر ہے:
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
بے شک ''سنگ'' کا ہماری زندگیوں میں نمایاں کردار رہا ہے، سنگ تراشی سے سنگ آستاں تک اور ''سنگ سار'' کرنے کا حکم اللہ کا ہے۔ لہٰذا سنگ باری و سنگ سازی سے نکل کر اس شعر کو دیکھتے ہیں۔
کسی پر سنگ زنی کس طرح کریں نکہت
کہ ہم تو آپ ہی شیشے کے گھر میں رہتے ہیں
حکیم ناصر نے کیا خوب کہا ہے:
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
مرزا غالب نے حساسیت قلب کا نوحہ اس طرح بیان کیا ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگِ و خشت ، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
م۔ص ایمن نے کسی کو نہیں سنایا، بلکہ بار بار غمِ روزگار ہو یا دوسرے مسائل ہوں خود ہی ستائے گئے ہیں لیکن انھوں نے جدوجہد زندگی سے کامیابی اور تسکینِ دل کو کشید کیا ہے، لائبریری کے قیام سے قارئین کے لیے علم و آگہی اور فکرکے در وا کیے ہیں اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت اورگمراہی کی راہوں پر بند باندھنے کی کوشش کی ہے اور اپنی تعمیری سوچ اور مثبت فکرکی بدولت تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے ان کے دو ناول کنگلے کا بنگلہ، وفا کی وفات اشاعت کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، جب کہ دوسری کتابیں تحقیق کے زمرے میں آتی ہیں۔ گویا انھوں نے اپنی محنت و ریاضت کی بہ دولت نام کمایا اور عزت و مرتبہ حاصل کیا۔
''سنگ بے بنیاد'' یہ کتاب 269 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ مضامین کے ساتھ افسانے بھی شامل اشاعت ہیں۔ میں پوری کتاب تو پڑھ نہیں سکی البتہ چند تحریریں میری نگاہوں کی دسترس میں رہیں۔ سب سے پہلا جو افسانہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس کا عنوان تھا '' دوسرا خط '' اس کے بعد دوسرے مضامین اور افسانے میرے مطالعے میں رہے۔ پہلی محبت کی طرح یہ افسانہ ثابت ہوا۔ دیرپا اثر رکھنے والا، تلخ و شیریں جزئیات سے مرصع۔ بنت، کردار نگاری اور ماحول سازی نے افسانے کو باکمال بنا دیا۔
جناب ایمن صاحب کی ہر تحریر قابل مطالعہ اور قابل ذکر ہے۔ ان کی تحریریں ظرافت اور متانت کی چاشنی میں رچ بس گئی ہیں۔ ان کی مزاحیہ اور طنزیہ فقرے قاری کے لیے دلچسپی کے ساتھ دانشوری کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اسی لیے مصنف کی ہر تحریرتوانا اور دلکش ہو جاتی ہے۔ وہ انسانی نفسیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کردار تخلیق کرتے ہیں اور قارئین کے لیے ایسا ماحول اور منظر نگاری کو نمایاں کرتے ہیں کہ پڑھنے والا افسانے یا افسانہ اپنے قاری کی سنگت میں آگے بڑھتا ہے۔ ان کی تحریر کی یہ بھی خوبی ہے کہ ان کے مضامین ہوں یا افسانے ذہن کو بوجھل نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے ماحول سے آشنا کرتے ہیں جو ہمارا دیکھا بھالا ہوتا ہے بس اندازِ فکر ان کا اپنا ہے، جس نے انھیں انفرادیت بخشی ہے۔
اس موقع پر مجھے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی یاد آگئے ہیں، غضب کا حافظہ اور بہت بڑے عالم تھے دنیا بھر کی معلومات سے واقف ان کی تحریریں پڑھیے اور سر دھنیے ۔ یہ بات اس لیے ضابطۂ تحریر میں لائی ہوں کہ ہمیں بھی کئی بار سر دھننے کا موقعہ میسر آیا اور ہمارے لیے یہ بات اعزاز کی تھی کہ ہم نے مسلسل ان کی چارکتابوں پر مضامین تقریب رونمائی کے مواقعوں پر پڑھے۔
یوں تو جب سے حضرت انسان نے زمین پر قدم رکھا ہے اس کے جوہر کھلتے گئے ہیں، اللہ رب العزت نے اس میں بے شمار خوبیاں ودیعت کردی ہیں وہ ہنسنے مسکرانے کے فن سے بہ خوبی واقف ہے، خود بھی مزے لیتا ہے اور دوسروں کو بھی شامل کرلیتا ہے۔ اردو اردب میں طنز و مزاح کی اہمیت مسلم ہے جعفر زٹلی کو اردو کا پہلا ظریف شاعر کہا جاتا ہے اور پھر یہ تاریخ طنز و مزاح لکھنے والوں کے فن سے وسیع ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ مشتاق یوسفی تک پہنچی اور ان کا دور دورِ یوسفی کہلانے لگا اور اب یہ مزاحیہ ادب انور علوی، محمد اسلام، عثمان جامعی، ظہیر خان، شجاع الدین غوری اور معراج جامی کے ساتھ م۔ص ایمن تک آ پہنچا ہے۔ اب چند سطور ''دوسرا خط'' سے ۔ کچھ مصنف کی زبانی اور کچھ جملے میری زبانی۔
''ابرار صاحب ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں ، اسی اثنا میں مستری الف دین خط لکھوانے کی درخواست کرتا ہے۔ مستری کے اصرار پر وہ خط لکھ دیتے ہیں۔ خط انھوں نے اپنے بیٹے عبدالمتین کو لکھوایا تھا۔ جس میں بے روزگاری کا رونا اور اپنی واپسی کی اطلاع دی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اب اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے نہیں کرسکے گا ، ابرار نے اس کے حالات جان کر ترس کھاتے ہوئے کہا کہ'' ابھی تمہارے پاس تین دن ہیں، کل کی دیہاڑی لگا کر میرا چھوٹا سا کام کردو۔ دراصل حکومت نے گلی پکی کروائی ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ بارش اور گٹر کا پانی میرے گھر آجاتا ہے۔'' مستری کا یہ سننا تھا کہ اس نے دوسرا خط لکھنے کی فرمائش کردی اور اس خط میں اپنے بیٹے کو بتایا کہ '' اسے کام مل گیا ہے اور اب وہ چھ ماہ بعد آئے گا۔ مستری نے گھر آ کر کمالِ مہارت سے پورے گھر کی مرمت کرنے کا نقشہ پیش کردیا۔'' مصنف کی تمام تحریریں شگفتگی اور شائستگی کا مرقع ہیں۔
(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)