ٹی وی پروگرام اور فکری زوال

آج پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے لیکن شاید ہی کوئی چینل ہوگا جس پر کوئی علمی پروگرام پیش کیا جاتا ہو


آج کے ٹی وی گیم شوز ہمارے معاشرے کے فکری زوال کی عکاسی کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: گزرتا وقت تبدیلیوں کی داستان رقم کرتا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے، حتیٰ کہ انسانی رجحانات اور ترجیحات تک بدل جاتی ہیں۔ جو آج ہے وہ کل ماضی بن جائے گا اور ماضی تاریخ میں ڈھل کر نئی نسلوں کو پچھلی نسلوں کے طرز زندگی کا پتہ دے گا۔ وقت کی اس بازی گری کے کئی نظارے ہم میں سے بہت سے لوگ دیکھ چکے ہیں۔

مجھے اپنے زمانہ طالب علمی میں ٹیلی وژن پر پیش کیے جانے والے کوئز شوز بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ اس زمانے میں یہ کوئز شوز مجھ سمیت بے شمار افراد کے پسندیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے۔ دراصل یہ پروگرام علمی نوعیت کے تھے جو مختلف کمپنیوں کے تعاون سے پیش کیے جاتے تھے، جس کا ایک مقصد کمپنی مصنوعات کی مشہوری بھی تھا۔ ان پروگرامز میں سوالات پوچھے جاتے تھے اور درست جواب دینے والوں کو ان کمپنیوں کی مصنوعات انعام کے طور پر دی جاتی تھیں۔ علاوه ازیں شعر وشاعری کے مقابلے اور نامور شخصیات سے ملاقات بھی شامل ہوتی تھیں۔

ان کوئز شوز میں شرکت کے خواہشمند افراد کئی کئی کتب کا مطالعہ کر ڈالتے تھے۔ تقریباً تمام ہی طبقات میں یہ کوئز شوز حد درجہ مقبول تھے، جنہیں خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا جاتا تھا کیونکہ یہ پروگرام معلومات میں اضافے کا ذریعہ تھے۔ ان کوئز شوز میں نیلام گھر جو بعد ازاں طارق عزیز شو کہلایا، کسوٹی، سندھی کوئز شو پرکھ، مینا بازار وغیرہ سرفہرست ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب کتابوں سے دوستی کا چلن عام تھا۔ طالب علم اپنی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ شعر و ادب اور معلومات عامہ کے بھی دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ شہر کی لائبریریز علم کے متلاشیوں سے آباد تھیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کسی لائبریری کی ممبرشپ ملنا فخر کی بات اور لائبریری میں مطالعہ کرتے گزرا وقت حسین وقت تصور کیا جاتا تھا۔ اگر اسے علمی دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیلی وژن پر بھی علمی پروگرام پیش کیے جاتے تھے اور عوامی پسندیدگی کے اعتبار سے بھی نمبر ون تھے۔

پھر وقت بدلا اور لوگ پروفیشنل ہونے لگے۔ طالب علموں کی توانائیاں فقط نصابی کتب اور ڈگری کے حصول تک محدود ہوگئیں۔ کاروبار میں سبقت کی دوڑ لگی۔ سیٹلائٹ ٹی وی اور پرائیویٹ پروڈکشنز کا زمانہ آیا۔ سوشل میڈیا روشناس ہوا اور سب کچھ بدل گیا۔ ان باتوں کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت ہرگز نہیں، کیونکہ جدید ٹیکنالوجی سہولت اور آسانی کا نام ہے اور ہر سہولت اور آسانی عطیہ خداوندی ہے لیکن ہم نے اسے مثبت انداز سے نہیں اپنایا بلکہ اس کے مضر پہلوؤں میں اپنا سامانِ دلچسپی ڈھونڈنا شروع کردیا۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ ان کے برے اثرات کی زد میں آگیا۔

کل جن ہاتھوں میں کتاب ہوا کرتی تھی آج ان ہاتھوں میں موبائل ہے اور سوشل میڈیا کی بے مقصد سرگرمیاں ہیں۔ آج یہی نوجوان علم و ادب سے دور ہوچکا ہے۔ نہ کتاب دوستی رہی اور نہ مطالعہ کا شوق رہا۔ آج پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے لیکن شاید ہی کوئی چینل ہوگا جس پر کوئی کوئز شوز پیش کیا جاتا ہو۔ اب یہ کوئز شوز قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اب وہ علم دوستی کا دور نہیں رہا۔ ماضی میں کوئز شوز کمپنیوں کی کاروباری ضرورت تھے اور آج بھی ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

پرائیویٹ چینلز اور مختلف کمپنیوں کے اشتراک سے آج بھی اسی طرز کے پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں، بس ان کا ڈھنگ کچھ بدل دیا گیا ہے۔ کوئز شوز کی جگہ نام گیم شوز رکھ دیا گیا ہے۔ پہلے سوالات کے درست جوابات پر انعامات دیے جاتے تھے اب کھیل کھلا کر دیے جاتے ہیں۔ آج معلومات کسی کو نہیں، البتہ کھیل کود ہر کسی کےلیے آسان کام ہے اور ناظرین بھی اس کھیل کود سے ہی محظوظ ہوتے ہیں اور اگر کسی پروگرام میں کبھی کوئی معلومات عامہ کا سوال پوچھ بھی لیا جائے تو حاضرین ایسے ایسے اوٹ پٹانگ جوابات دیتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کر رہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریٹنگ کی دوڑ میں لگے چینلز اب گئے وقتوں کے کوئز شوز چلانے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ ان کوئز شوز سے اب ریٹنگ نہیں ملتی۔

کوئز شوز اور گیم شوز کو مثال محض اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ ایک پیمانہ ہے جس سے ہمارے معاشرے کے زوال پذیر ہوتے فکری معیار کی بہتر عکاسی ہوتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے ہم اپنے علمی معیار کو بہتر بنا کر جدید خطوط پر استوار کرسکتے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال علم و ادب کے حلقوں کو زیادہ وسیع اور مربوط بنا سکتا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس ہم نے اس ٹیکنالوجی کے تفریح طبع کے رخ کو اپنا کر جدید دنیا کے ساتھ چلنا تصور کیا اور اسی خیالِ باطل کے باعث علم سے لاعلمی کی طرف چلے گئے۔

کیا اب بھی ہم کوئی ایسا جواز ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم اپنی اس حالت کو فکری زوال اور علمی پستی نہ کہہ سکیں؟ شاید نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔