ماہ بینی کا احوال
بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہم چاند کے طلسم کے اسیر میں رہتے ہیں...
شمع بینی کی مشق کا ایک پہلو ماہ بینی اور آفتاب بینی بھی ہے۔ شمع بینی کو ارتکاز توجہ کی زمینی مشق کہا جاتا ہے اور ماہ بینی کو آسمانی۔ شمع بینی سے نفس کے اندر روشنی پیدا ہوتی ہے، ماہ بینی سے وجدان کی صلاحیت اور آفتاب بینی سے ذاتی مقناطیسیت میں ترقی ہوتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج، روشنی، توانائی اور مقناطیسیت کا واحد سرچشمہ ہے۔ ہر ذرہ اس کی حیات بخش قوت سے زندہ، متحرک اور منور ہے بلکہ کائنات شناسوں کی نظر میں تو ذرہ اور سورج ایک ہی نظام نوری کے دو اجرام (کُرے) ہیں۔ ارتکاز توجہ کی تمام مشقوں کی طرح شمع بینی میں بھی لوگوں کا نادر مشاہدات سے سابقہ پڑتا ہے۔ شمع بینی ہو یا دوسری مشقیں، ان تمام مشقوں سے نفس میں جو ہیجان برپا ہوتا ہے اس کا اظہار کبھی خوفناک یا شرمناک خوابوں کی صورت میں ہوتا ہے کبھی عجیب و غریب تصورات اور مشاہدات کے روپ میں۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے تمام طلبا کو اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، بعض بخیریت گزر جاتے ہیں اور بعض درمیان میں حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقوں کے سبب جذبات کی ٹھہری ہوئی ندی میں جو ابال پیدا ہو جاتا ہے اسے تطہیر کا عمل کہتے ہیں۔
بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہم چاند کے طلسم کے اسیر میں رہتے ہیں۔ بچہ چاند کو دیکھ کر اس طرح ہمکتا ہے گویا اس کی گود میں چلا جانا چاہتا ہے۔ عمر بڑھتی ہے تو چاند ہمارے غور و فکر کا مرکز بن جاتا ہے۔ جوان دلوں میں چاند کی چاندنی، امنگوں اور آرزوئوں کے عجیب و غریب جوار بھاٹے پیدا کرتی ہے۔ یہ عشاق کا محبوب ہے، محبوبوں کا رقیب ہے، شعرا کا منظور نظر ہے، اشعار کا استعارہ ہے اور سائنسدانوں کے لیے نظام شمسی کے آئینہ جمال کی حیثیت رکھتا ہے۔ چاند کی سطح کا معائنہ کرنے والے خلا بازوں کا بیان ہے کہ چاند ایک مردہ سیارہ ہے، وہاں نور ہے نہ زندگی، حسن ہے نہ روشنی، حرارت ہے نہ توانائی ، کھر یا مٹی جیسی زمین ہے، تاریک گڑھے ہیں، بنجر پہاڑ اور ابلے ہوئے آتش فشانی لاوے کے تودے ہیں۔ یہ تو ہوا کرۂ قمر کے سیاحوں کا چشم دید بیان، لیکن ہم خاک نشینوں کے لیے آج بھی چاند میں وہی حسن، وہی نور، وہی تازگی اور وہی روشنی ہے جو ہمیشہ سے تھی۔ میں کل رات اتنی سردی کے باوجود زیر آسمان کھڑا چاند کو تک رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ ارضی خلا باز چاند کے بارے میں کچھ بھی کہیں... بین الاقوامی خلائی ادارے کی رپورٹ کچھ بھی کیوں نہ ہو؟ ہماری نگاہوں، ہمارے خیالات، ہمارے جذبوں اور ہمارے ولولوں کے لیے چاند آج بھی اتنا ہی پر نور، پرکشش اور اتنا ہی پراسرار ہے جتنا خلائی مہمات اور چاند کی انسانی سیاحت سے قبل تھا۔
اہمیت اس بات کی نہیں کہ چاند بجائے خود ایک مردہ، بے جان، بے نور اور بے کیف طفیلی سیارہ ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہم چاند کو دیکھ کر بے اختیار کیا محسوس کرتے ہیں؟ چاند بنجر پہاڑوں کا مجموعہ ہو یا بجھے ہوئے جوالا مکھی کا مرکز، اس سے بحث نہ کیجیے۔ گفتگو یہ کیجیے کہ چاند سے ہمارا ذہنی اور جذباتی تعلق کیا ہے۔ چاند کی چاندنی ہمارے جسم میں کیا کیا کیمیاوی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے اور ان کیمیاوی تبدیلیوں سے انسانی ذہن پر کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟ مذہب، جادو، طب، دیومالا، شاعری، ادب، نجوم اور سائنس، غرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس میں چاند اپنی پوری عظمت و محبوبیت کے ساتھ طلوع و غروب نہ ہوتا ہو۔ ہر قوم میں بے شمار کہانیاں اور روایتیں چاند کے متعلق مشہور اور چاند سے منسوب ہیں۔ کروڑوں شعروں، لاکھوں افسانوں اور ہزاروں لوک گیتوں میں چندرما کی سندرتا اور ہلال شب اول سے لے کر مہِ نیم ماہ تک چاند کے ہر روپ، ہر پہلو اور ہر اتار چڑھائو کے راگ گائے گئے ہیں۔
چاند کن عناصر سے مل کر بنا ہے؟ چاند کی مٹی اور چٹانوں میں کیا کیا کیمیاوی مسالے پائے جاتے ہیں؟ چاند پر انسانی سکونت کے امکانات کیا ہیں؟ اس کا درجہ حرارت کیا ہے؟ کشش کی قوت کتنی ہے؟ رات کتنی لمبی اور دن کتنا چوڑا ہوتا ہے؟ کرۂ قمر کے ان پہلوئوں پر سائنس دانوں کو تحقیقات کرنے دیجیے کہ سائنسی تحقیقات بھی انسانی عظمت کا لازوال سرمایہ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خلائے کائنات کی بے کراں وسعتوں میں چھلانگ لگانے کے لیے چاند پہلے زینے کا درجہ رکھتا ہے۔ چاند کے اثر سے نہ صرف موسمی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، نہ فقط لہروں میں جوار بھاٹا پیدا ہوتا ہے، نہ تنہا فضائی طوفان آتے ہیں بلکہ چاند کرۂ ارض کی نباتاتی اور حیوانی زندگی پر ایسے دور رس اثرات ڈالتا ہے کہ فی الحال پوری طرح اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ نجوم اور طب کے علما صدیوں پہلے چاند کے اس طلسمی عمل کی نشاندہی کر چکے ہیں مگر علم ہیئت (سیاروں کے علم) نے اب تک اس کی مکمل تصدیق نہیں کی۔ اب کچھ احوال ماہ بینی کی مشق کا ہو جائے۔
آرام دہ نشست ہر مشق کے لیے ازحد ضروری ہے۔ بہتر ہو گا کہ چاند بینی سے پہلے مشق تنفس نور کے تین چکر کر لیے جائیں اس کے بعد چاند کے کسی ایک نقطے پر پلک جھپکائے بغیر نظریں جمادی جائیں۔ مشق کی ابتدا پندرہ سیکنڈ سے کرنی چاہیے تا کہ نگاہوں پر ایک دم بوجھ نہ پڑے اور پھر رفتہ رفتہ یہ مدت بڑھاتے جائیں۔ مستقل مشق کرنے سے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آپ بغیر پلک جھپکائے آدھے پون گھنٹے تک چاند بینی کے لائق ہو سکیں گے۔ یہ امر ذہن میں رہے کہ ماہ بینی کی یہ مشقیں مہینے کی ان تاریخوں میں کرنی ہیں جن میں چاند اوائل شب یعنی سرِ شام سے رات کے گیارہ بجے تک طلوع ہو اور جن تاریخوں میں چاند آخر شب میں طلوع ہوتا ہے تو چاند کا مشاہدہ باطنی طور پر کیا جانا چاہیے یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کر لینا کہ چاند نگاہ باطن کے سامنے چمک رہا ہے اور نظریں چاند کے قلب پر مرکوز ہیں۔
ابتدائی تین مہینے سخت آزمائش کے ہیں، ممکن ہے یہ ایام نہایت صبر آزما اور حوصلہ شکن ثابت ہوں، مرکزی نقطے سے نگاہ بار بار ہٹتی رہے گی یا تصور قائم کرنے میں دشواری کا سامنا ہو گا لیکن ثابت قدمی ہی ہر مشق کی لازمی شرط ہے۔ ماہ بینی کے ابتدائی بارہ ہفتے بیزاری بوریت، لاشعوری مزاحمت اور ذہنی بغاوت کے ہفتے ہوں گے، توجہ ایک نقطے پر مرکوز ہونا مشکل امر ہو گا، ادھر ادھر کے خیالات کا غلبہ رہے گا، بار بار ذہن ادھر سے ادھر چھلانگ مارے گا، شروع شروع میں آنکھوں میں پانی بھر جائے گا اور پلکیں جھپکتی رہیں گی لیکن اس کے باوجود ابتدائی دو ہفتے میں ہی آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ پانچ منٹ تک پلک جھپکائے بغیر چاند کو تک سکیں۔ جب آپ پانچ منٹ تک چاند کو پلک جھپکائے بغیر تکتے رہنے کے عادی ہو جائیں گے تو چاند اور آپ کے درمیان مقناطیسی رشتہ قائم ہو جائے گا اور یہیں سے آپ کی ذہنی ترقی کا راستہ شروع ہو گا۔