غیریقینی سیاسی صورتحال ملکی معیشت پر منفی اثرات

ہمیں ایک نئے کردار اور فکر کی طرف توجہ دینی ہوگی


Editorial January 26, 2022
ہمیں ایک نئے کردار اور فکر کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: ملک میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے ، کہیں حکومت کے دن پورے ہونے کی بات ہورہی اور کہیں وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان جس میں انھوں حکومت سے باہرآنے کے بعد زیادہ خطرناک ہوجانے کی بات کی۔

اسے لے کر لمبی لمبی چھوڑی جارہی ہیں حالانکہ ایسی باتیں روٹین میں ہوتی رہتی ہیں، لیکن یار لوگ اپنی مرضی کا منظر نامہ بنا کر طرح طرح کے شگوفے چھوڑتے ہیں حالانکہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی لیکن اس قسم کی افواہوں، قیاس آرائیوں اور درفنطنیوں سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور کاروباری اور انوسٹر طبقے میں خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔ وزیراعظم کے مشیرداخلہ واحتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے استعفیٰ دیدیا ہے، جو منظور بھی کرلیا گیا ہے ،اسے لے کر بھی طرح طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔

ادھر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لانگ مارچ کی دو علیحدہ تاریخیں بھی دی جاچکی ہیں ، مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی بھی پریشان ہے ،اسی قسم کے سیاسی و معاشی ماحول میں اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے عوامی کالز کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''اگر مجھے نکالا''تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا ۔ اس بات کو لے کر قیاس آرائیوں اور خدشات کے اظہار نے سیاسی ماحول کو مزید دھندآلود بنادیا ہے۔

ملکی سیاست میںسنجیدگی ، بردباری اور افہام تفہیم کا فقدان نظرآرہا ہے ، عدم برداشت کا عنصر نمایاں ہوکر جمہوریت کو نقصان پہچانے کا سبب بن سکتا ہے ، ہماری جمہوری تاریخ کا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈر ملک اور عوام کے مسائل کے حل میں ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہیاور اس کا اثر ملکی معیشت پر پڑتاہے ۔

اس وقت ملکی معیشت پوری طرح آپریٹ نہیں کررہی، افراط زر ، ٹیکسیز کی بھرمار اور ان کی شرح میں اضاجے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔اب سال نو کے آغاز پر حکومت نے منی بجٹ پیش کردیا ہے۔ کچن آئٹمز، ادویات، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کاروں سمیت تقریباً 144 سے زائد اشیاء پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360 ارب روپے حاصل کرنے کا مژدہ سنایا گیا ہے،جس کے باعث مہنگائی کا سیلاب آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

غریب پاکستانی پہلے ہی کم اجرت اور بڑھتی مہنگائی کی وجہ انتہائی مشکل زندگی گزارہا ہے، کورونا وبا کے تسلسل کی وجہ سے بیشتر لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ان حالات میں منی بجٹ کے اثرات سے مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جائے گا۔ کورونا کے اس دور میں جب کہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت کاروبار سست روی کی صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشتکاری مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی، چینی سمیت اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی مدت مقرر نہیں ، ایک چیز قیمت آج دس روپے تو کل یہ پندرہ روپے بھی ہوسکتی ہے ۔

موجودہ حکومت اپنے تیئں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کررہی ہے، احساس پروگرام کے تحت اچھے منصوبے بنائے گئے ہیں جن کا فائدہ بھی عوام کو ہورہا ہے لیکن معیشت کی مجموعی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ یوںساڑھے تین سالہ حکومتی اقدامات معیشت کو تیز رفتار ترقی نہیں دے سکے۔

ملک کوکئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کورونا،معیشت کو درپیش چیلنجزصحت، تعلیم اور روزگار کے شعبے کے چیلنجز، انصاف،قانون، پارلیمانی امور،امن وامان اور ماحولیات کے شعبے کے چیلنجز ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں کہ ان سے نمٹیں گے کیسے؟کورونا کا عفریت اب بھی دنیا بھر میں تباہی مچا رہا ہے اور پاکستان میں ایک بار پھر اس کے حملے تیز اور مہلک ہونے کے خطرات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ فروری میں کورونا کی پانچویںلہر آسکتی ہے۔بعض طبّی ماہرین کے اندازے کے مطابق آنے والے دنوں میں ایسا ممکن ہے کہ یومیہ تین تا چار ہزار نئے مریض سامنے آنے لگیں۔اقتصادی ماہرین بھی تشویش کا شکار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت شدید اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکا ر ہے،غریب تو غیب، اب تو امیروں نے بھی کچھ آہ و بکا شروع کردی ہے۔

ہمارا جاری کھاتے کا خسارہ خطرنا ک حد تک بہت بڑھ چکا ہے۔درآمدات کے مقابلے میں بر آمدات بہت کم ہیں، کرنسی کی قدر کچھ عرصے میں بہت تیزی سے کم ہوئی ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کار بہت ہی کم ہے۔حالاں کہ ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ ملکی ترقی پر مثبت اثرکے لیے پاکستان کو سالانہ چار تا چھ ارب ڈالر زکی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔سرمایہ کاروں کااعتماد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی ٹیکس پالیسی مطابقت کی حامل ہو، ٹیکسوں کا موثر نظام ہو اور ایک مستحکم سیاسی ماحول رکھتا ہو۔

خاص کر ٹیکس پالیسیز کو ایک سے دوسری حکومت کے درمیان زیادہ مطابقت کا حامل ہونا چاہیے۔ انکم اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی شکل میں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے دولت مند طبقے کو ٹیکس کے جال میں لانے کی ضرورت ہے۔ بجٹ کاسب سے زیادہ حصہ تعلیم و تحقیق کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ ہونا چاہیے۔

اگر ہم معاشی بحران کا تجزیہ کریں تو مسئلہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا تھا جس کے لیے ہمیں ڈالر درکار تھے، ملک میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل ڈالر کے بڑھنے کو بنیاد بناکر لوگوں نے اپنی بچت روپے کے بجائے ڈالرمیں کرنا شروع کردی ہے۔ آج ملک میںاربوں ڈالر اس طرح خرید کر گھروں اور لاکروں میں رکھے گئے ہیں اگر عوام کو پتا چل جائے کہ ڈالر گرنے والا ہے تو یہ تمام ڈالر مارکیٹ میں آجائیں گے۔ حکومت اگر ڈالر کا ریٹ فکس کردیتی تو بہت بہتر ہوتا۔چند امیر لوگ ڈالر مارکیٹ سے خرید کر بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی ہے۔

صرف اس طبقے کو بچانے کے لیے ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا غفلت ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فری ڈالر مارکیٹ دراصل منی لانڈرنگ کا ذریعہ بھی ہے۔ غیرضروری درآمدات کو بند کرکے اور ڈالر کو فکس کرکے حکومت معاشی بحران پراب بھی قابو پاسکتی ہے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے بیرونی قرضوںمیں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں ہر سال بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 50 فیصد زیادہ رقم رکھنی پڑے گی۔

اس طرح بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ ملک میںصرف پیداواری منصوبہ بندی کی جائے اگر ملک میں معاشی ڈسپلن ہو جائے تو پاکستان میں کثیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے کیونکہ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور یہاں منافع کمانے کے حد درجہ مواقع موجود ہیں۔ عوام میں شعور پیدا کیاجائے کہ صرف ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدیں۔ آج ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی لاگت اور قیمت درآمدی قیمت سے زیادہ ہے اس کی وجہ غیر ضروری ٹیکس اور توانائی کی قیمت ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ملک میں صنعت نہیں لگائے گا۔

ایران، ترکی، آسٹریلیا، کینیڈا، روس اور سنگاپور جیسے ممالک پاکستان میں کار کی تیاری، زراعت، توانائی، اسٹیل اور مالیاتی خدمات میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔سرمایہ کاری بورڈ کو اپنی پسند کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے سودوں کو حتمی شکل دینے کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔

پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ سرکاری ادارے اربوں روپے کے خسارے پر چل رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ ہر سال بڑھتا ہی رہا ہے۔ مستحکم معیشت کی دو بنیادیں صنعت اور زراعت کی پیداوار زوال پذیر رہی ہے۔

پاکستان اس وقت تک مہنگائی پر قابو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اپنی زرعی اجناس کی پیداواری صلاحیت کو بہتر نہیں کرتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غذائی اجناس کی پیداوار کو بہتر بنائیں اس کے لیے بہترین بیچ یعنی بی ٹی کاٹن اور جی ایم او سیڈز بڑے پیمانے پر متعاراف کرانا ہوں گے۔

غذائی اجناس اس وجہ سے ضایع ہو جاتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس کولڈ اسٹوریج یا لاجسٹک کی مناسب سہولیات نہیں ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی کا ایک سبب پانی کا ضایع ہونا بھی ہے۔ تقریبا آدھا پانی ضایع ہو جاتا ہے تو تمام مسائل پر قابو پانا چاہیے تاکہ ہماری زرعی اجناس کی پیداوار بہتر ہو اس سے مہنگائی کو کم کرنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔

ملکی آبادی بڑھتی جا رہی ہے جب کہ کہ گروتھ کم ہوتی جارہی ہے جس کی بنا پر معاشی مستقبل مخدوش ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے،نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے، گورننس کو بہتر کیا جائے،کرپشن پر قابو پایا جائے اور گروتھ میں مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔

ماہرین سماجیات و سیاسیات کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو درست سمت اختیار کرنی ہے، خود کو داخلی اور خارجی،دونوں محاذوںپرایک مہذب اور ذمے دار معاشرے کے طورپر پیش کرناہے اور ترقی اور خوش حالی کی منزل حاصل کرنی ہے تو ہمیں ایک نئے کردار اور فکر کی طرف توجہ دینی ہوگی کیوں کہ موجودہ ریاستی نظام میں کئی سطحوں پر بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں