کرپشن کا مرض کیسے ختم ہوگا

کیا کریں، سب کچھ کر کے دیکھ لیا، مگر کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی


علی احمد ڈھلوں January 28, 2022
[email protected]

کیا کریں، سب کچھ کر کے دیکھ لیا، مگر کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ آج ہم دوبارہ 15سال پہلے کی جگہ پر آگئے ہیں،اگر اس بارے حکومت یہ کہے کہ یہ اُس کے خلاف سازش ہے تو بادی النظر میں حکومت کا یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ حالیہ برسوں میں سرکاری دفاتر کا تجربہ رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل درست فرما رہا ہے۔

جس کے مطابق سال 2021میں پاکستان 180 ممالک میں 140ویں درجے پر پہنچ چکا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے 2020میں پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹ میں سی پی آئی اسکور میں 16درجے کی نمایاں تنزلی کی وجہ قانون کی حکمرانی اور ریاستی گرفت کی عدم موجودگی بتائی گئی ہے۔جب کہ اسی فہرست کے بہترین ممالک کا اگر نام لیا جائے تو ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کو 88اسکور کے ساتھ بہترین قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ 85 اسکور رکھنے والے سنگاپور اور سویڈن، 40اسکور والے بھارت اور 28اسکور والے پاکستان میں کرپشن کے کمی یا زیادتی کی وجوہ ان ممالک کے نظام قانون اور اس کے نفاذ کے طور طریقوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

آگے چلنے سے پہلے پچھلے دنوں ہوا ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کر تا چلوں، جس کا دنیا بھر میں چرچا رہا کہ نوواک جوکو وِچ، ایک ٹینس پلیئر جس کے بارے میں اسپورٹس سے لگاؤ رکھنے والے سبھی لوگ جانتے ہیں، کا باپ باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا دونوں سابق یوگو سلاویہ کے حصے تھے۔

یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔بارہ سال کاہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکیڈمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل' ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔

اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن، آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو، جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 یعنی رواں ماہ میں،آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے ''آسٹریلین اوپن'' ہو رہے ہیں۔

دنیا بھر کے ٹینس کے شائقین کی نظریں اس شہر کی طرف ہیں۔ میلبورن آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا دارالحکومت ہے۔ وکٹوریا کی ریاستی ( یعنی صوبائی) حکومت نے جوکو وچ اور مٹھی بھر دوسرے کھلاڑیوں اور اسٹاف کو کورونا کی لازمی ویکسی نیشن سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یہ استثنیٰ '' میڈیکل استثنیٰ'' کہلاتا ہے، تاہم پانچ جنوری کو جب جوکووچ میلبورن کے ہوائی اڈے پر اترا تو آسٹریلیا بارڈر فورس نے ( جو ایک وفاقی محکمہ ہے) اسے ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وجہ یہ بتائی کہ جوکووچ استثنیٰ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اصل میں کچھ ہفتے پہلے، سولہ دسمبر کو، اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

اس کے بعد وہ قرنطینہ میں بھی نہیں گیا۔بہر طور اس کا ویزا کینسل کر دیا گیا اور اسے اس ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اس قسم کے دوسرے مسافروں کو رکھا گیا تھا۔ جوکو وچ کے وکیل عدالت میں چلے گئے۔ دس جنوری کو آسٹریلوی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ جوکو وچ کو ہوٹل سے باہر جانے دیا جائے، مگر اس کے بعد جوکو وچ نے اعتراف کیا کہ ویزا کی درخواست میں اس نے غلط بیانی کی تھی۔

یہ اور بات کہ اس غلط بیانی کا ذمے دار اس نے اپنے منیجر کو قرار دیا جس نے ویزا فارم بھرا تھا۔ چودہ جنوری کو وفاقی وزیر برائے امیگریشن نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جوکو وچ کا ویزا حتمی طور پر منسوخ کر دیا، اس لیے کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں تھا۔ جوکو وچ کے وکلا نے نظر ثانی اپیل کی مگر تین ججوں کے بنچ نے سولہ جنوری کو ان کی درخواست نا منظور کر دی۔ اسی رات جوکووچ آسٹریلیا سے چلا گیا۔

اس اثنا میں آسٹریلیا کی حکومت پر بے پناہ دباؤ پڑا۔ سربیا کی حکومت نے پرزور احتجاج کیا۔ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی کھلاڑی کی حمایت میں نکل آئیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے سربیا نژاد افراد نے بھی زور لگایا مگر آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون، قانون ہے۔ کسی فردِ واحد کو قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا! یہ ہوتے ہیں ملک، یہ ہوتی ہیں ریاستیں، یہ ہوتے ہیں ریاستی قوانین ۔ پھر تبھی یہ قومیں کرپٹ نہیں ہوتیں، کیوں کہ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ اُن کی ریاست میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔

اس کے برعکس یہاں ہر ادارے ، ہر طاقتور شخصیت اور ہر ہر حکمران کی اپنی اپنی اجارہ داری ہے۔ اور اگر حالات ایسے ہوں گے تو کون کہتا ہے کہ کرپشن نہیں ہوگی۔ پھر جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ لگاتا ہے اور خوب لگاتا ہے۔

ہاں! اب اگر یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں کرپشن بڑھ گئی ہے تو سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے اور جب مہنگائی زیادہ ہوگی تو ہر سرکاری افسر و ادارہ بھی اپنا ریٹ دگنا کردے گا اور پھر جو بندہ کرپشن نہیں بھی کرتا وہ بھی کرنا شروع کر دے گا۔ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ایک سی ایس پی آفیسر کی تنخواہ اگر ایک لاکھ روپے رکھی جائے اور اُس کے اخراجات4لاکھ روپے کے ہوں تو وہ باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ اور ایسے حالات میں تو یہ بات اور بھی پختہ ہو جاتی ہے کہ اُس کے پاس کروڑوں روپے کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذایہ بات تو طے ہے کہ کرپشن اُس وقت ہوتی ہے، جب ضروریات زندگی مہنگی ہو جاتی ہیں، اور آمدنی کم ہوتی ہے۔

اور پھر سب سے اہم بات یہاں یہ ہے کہ یہاںہماری اخلاقی تربیت نہیں ہوتی، ''رزق حلال'' اور'' رزق حرام'' میں فرق ختم ہو چکاہے، اور اس چیز کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ تعلیمی ادارے، حکمران اشرافیہ اور علمائے کرام ہیں۔

بہرکیف مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم 124سے 140پر کیسے آگئے، مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن ہو کیوں رہی ہے، یہ بات تو طے ہے کہ جب عوام کو حکومت پر سے اعتماد اُٹھ جائے، چیک اینڈ بیلنس ختم ہو جائے، سسٹم کمزور ہو جائے ، انصاف کا شعبہ کام کرنا بند کردے، اشیائے ضروریہ انسان کی پہنچ سے دور ہو جائیں اور حکمران ذاتی جائیدادیں بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع کردیں تو یقینا کرپشن بڑھ جائے گی۔ لہٰذااسے روکنے کے لیے حکومت کو کام کرنے چاہیئں ورنہ ہم خاکم بدہن جلد ہی آخری نمبروں پر بھی براجمان ہوں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔