اسحاق ڈار سے ایک مکالمہ
لندن میں اسحاق ڈار صاحب سے ایک طویل ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی سیاست اور معاشی حالات پر تفصیل سے بات ہوئی
لندن میں اسحاق ڈار صاحب سے ایک طویل ملاقات ہوئی، جس میں پاکستان کی سیاست اور معاشی حالات پر تفصیل سے بات ہوئی۔ اسحاق ڈار اس وقت لندن میں ہیں لیکن اب انھوں نے پاکستان کی معیشت اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تفصیل سے لکھنا اور وی لاگ کرنا شروع کر دیا ہے۔
سیاسی بات پھر کسی کالم میں لکھوں گا، پہلے معیشت پر ان کا موقف سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ راقم کا متفق ہونا یا صرف اختلاف کرنا ضروری نہیں۔ ویسے اگر ایک طرف حکومت کا موقف ہے تو ہمیں دوسرے فریق کا موقف بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بات پاکستانی روپے کی قدر سے شروع ہوئی۔ اسحاق ڈ ار صاحب نے کہا ، دیکھیں روپے کی قدر روز گر رہی ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر یہ روپیہ کہاں جا کر رکے گا، رکے گا بھی نہیں۔ میرا سوال تھا کہ جس طرح آپ بطور وزیرخزانہ روپے کو قابو میں رکھے ہوئے تھے، وہ بھی کوئی ٹھیک طریقہ نہیں تھا۔آپ اسٹیٹ بینک سے ڈالر مارکیٹ میں لا کر روپے کی قدر کو مستحکم کرتے تھے اور ڈالر قابو میں رکھتے تھے، موجودہ حکومت دلیل دیتی ہے کہ آج سارے مسائل اسی پالیسی کے آفٹر ایفکیکٹس ہیں، آپ نے ڈ الر قابو میں رکھنے کے چکر میں پاکستان کو دیوالیہ کر دیا ۔
اس پر وہ مسکرائے اور جواب دیا کہ آپ جیسا صحافی بھی پراپیگنڈے کی نذر ہو گیا ہے ۔ کیا آپ نے کبھی حقائق اور اعدادوشمار چیک کیے ہیں؟ میں نے جواب دیا، کیا جو کچھ میں نے کہا ہے ، یہ حقائق نہیں ہیں۔
اسحاق ڈ ار نے وضاحت کی، کرنسی کو عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ میں نے روپے کی قدر کو کنٹرول کرنے کے لیے اربوں روپے ضایع کر دیے۔ تو ایسا نہیں ہے۔ میں نے بطور وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت میں کیونکہ میرے بعد مفتاح اسما عیل آگئے تھے، پانچ ارب اسی کر وڑ ڈالر اسٹیٹ بینک سے مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں۔جب کہ آج روز گرتے ہوئے روپے کے ساتھ موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے سات ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینکے ہیں۔
لیکن پھر بھی روپیہ اور ڈ الر کنٹرول نہیں ہورہا۔ جو کام ہم نے پانچ سال میں پانچ ارب اسی کر وڑ ڈالر میں کیا تھا۔ یہ سات ارب ڈ الر خرچ کر کے بھی نہیں کر سکے۔ اس لیے یہ سمجھیں صر ف ڈالر پھینکنا کافی نہیں۔ اگر کافی ہوتا تو موجودہ حکومت نے بھی یہی کیا ہے لیکن انھیں نتائج نہیں ملے۔ حالانکہ انھوں نے بہت تھوڑے عرصہ کے لیے کیا، تسلسل سے نہیں کیا۔اسحاق ڈار نے کہا ایسا پراپیگنڈا کیا گیا ہے جیسے میں ڈالر مفت مارکیٹ میں پھینک دیتا تھا۔
اگر مارکیٹ میں ڈالر دیتے تو بدلے میں اسٹیٹ بینک کو روپیہ مل جاتا تھا۔ ملک چلانے کے لے روپے کی بھی ضرورت ہے۔ بغیر روپے کے بھی ملک نہیں چلایاجا سکتا۔ جب حکومت اسٹیٹ بینک سے کوئی سہولت لیتی ہے توروپے میں ہی لیتی ہے۔ اس لیے اسٹیٹ بینک کے پا س روپیہ ہونا بھی ضروری ہے۔ روپے آسمان سے نہیں گرتے اور آپ مرضی سے چھاپ بھی نہیں سکتے۔
اب آپ دیکھیں حکومت کا پروپیگنڈا ہے کہ میں ماہانہ دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک سے مارکیٹ میں پھینکتا تھا اور روپے کی قدر کو کنٹرول کرتاتھا،بھائی اگر آپ یہ کام نہیں کر رہے ہیں تو کم از کم آپ کے پاس ماہانہ دو ارب ڈ الر تو بچنے چاہئیں۔ بلکہ ان کے پاس تو کئی ارب ڈالر بچ جانے چاہیے۔ اگر وہ ڈالر نہیں بچے تو اس کاا یک ہی مطلب ہے کہ غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہے ۔
ورنہ اس وقت خزانے میں ڈ الر کی بھر مار ہونی چاہیے تھی اور ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اسحاق ڈ ار نے میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے، اب تو یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ اگر ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھ جائے تو سمجھو وزیر اعظم چور ہے۔ کیونکہ اب تو روزانہ گر رہا ہے۔ بلکہ کئی دفعہ تو ایک ایک دن میں دو دو روپیہ قیمت گر جاتی ہے۔ پھر کہنے لگے جب تک آپ روپے کی حفاظت نہیں کریں گے اس کو مستحکم نہیں کریں گے، ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔ آج حکومت مہنگائی کے بھنور میں پھنس گئی ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ کا زندہ رہنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے اور کیوں یہ سلسلہ جاری ہے؟
اسحاق ڈ ار بہت دیر تک خاموش رہے اور کمرے میں سناٹا رہا۔ میں سن رہا تھا لیکن وہ خاموش تھے۔ پھر کہنے لگے جب تک روپے کی قیمت کو کنٹرول نہیں کریں گے مہنگائی کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ن لیگ کی حکومت نے روپیہ کنٹرول کیا۔جس کی وجہ سے اشیا ضرورت کی قیمتیں کنٹرول رہیں۔ میری پالیسی کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں پاکستانی عوام کی معیشت کا کچومر نکال دیا ہے۔
اسحاق ڈار نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک ہی ملک کی دولت اور خزانہ کا امین ہوتا ہے۔ اگر آپ کا اپنے بینک پر کنٹرول ہی نہیں تو معیشت کیسے کنٹرول کی جاسکتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے اسباب پڑھیں تو تب بھی بینک کو اسی طرح قبضہ میں لیا گیا تھا۔
انگریز بھی جب برصغیر میں آیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل حکومت کی معاشی خودمختاری چھین لی تھی۔ ملک میں کوئی بھی بحران آئے اسٹیٹ بینک اس بحران سے نبٹنے کے لیے حکومت کے شانہ بشانہ ہوتا ہے۔اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو حکومت پیسے اسٹیٹ بینک سے لیتی ہے۔ عالمی قوتیں اسٹیٹ بینک کو کنٹرول کر لیں گی تو ہم بے بس ہو جائیں گے۔
اس لیے یہ قانون پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، اس کو پہلی فرصت میں ختم کرنا ہوگا۔ یہ پاکستان کی معاشی خود مختاری کا سوال ہے۔ میرے یا آپ کے ذاتی مفا د کی بات نہیں۔ اسحاق ڈ ار نے کہا ماضی میں حکومتیں آئی ایم ایف کے پاس جاتی رہی ہیں۔ پہلے سال جاتی تھیں اور تیسرے سال پروگرام ختم کر دیتی تھیں۔ ہم نے بھی یہی کیا تھا۔لیکن یہ تو چوتھے سال بھی پھنسے ہوئے ہیں، ایسے تو ملک نہیں چلایا جا سکتا۔
آخر میں نے پوچھا ، آپ ملک کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ کہنے لگے، میری چھوڑو! میں کیا ہوں، بات تو ان کے سمجھنے کی ہے جو حکومت کو لائے ہیں۔