لاہور:
غزل
نہ جڑ سکا تو مکمل بکھر تو جاؤں گا نا
مجھے شفا جو نہ مل پائی مر تو جاؤں گا نا
میں کوئی راز نہیں جو پڑا رہوں دل میں
حضور دُکھ ہوں سرِ چشمِ تر توجاؤں گا نا
عجیب شخص ہے غارت گروں سے پوچھتا ہے
کہ اس گلی سے سلامت گزر تو جاؤں گا نا
بہاؤ تیز بہت ہے غزل کے دریا میں
کہو عزیزو میںاس پار اُترتوجاؤں گا نا
یہ رہگزر یہ سفر دل نشین ہے لیکن
عقیل ؔ ہو گئی ہے شام ، گھر توجاؤں گا نا
( عقیل شاہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
خیال و خواب کا محور بدل بھی سکتا ہے
ترے جمال کا پیکر، بدل بھی سکتا ہے
جسے قبول ہے ہر ظلم، ہر جفا اب تک
کل آزمائو تو یکسر، بدل بھی سکتا ہے
ابھی بہار کے دن ہیں، گلوں میں خوشبو ہے
چہکتا گاتا یہ منظر، بدل بھی سکتا ہے
نمازِ عشق ادا کر کے شہ نے کربل میں
بتا دیا کہ یوں، بر تر بدل بھی سکتا ہے
حضور ِقلب سے فریاد تو سنا رب کو
بڑا کریم ہے، دفتر، بدل بھی سکتا ہے
ابھی توموج ہے، دشمن پہ دبدبہ ہے ترا
مخالفین کا لشکر بدل بھی سکتا ہے
تو کیا ضروری ہے زاہد ہی جائیں جنت میں
گنہ ثواب کا چکر، بدل بھی سکتا ہے
(سید مشرف حسن۔ لندن)
۔۔۔
غزل
نیند مخمل میں نہ بچھونے میں
خواب مٹی کے اک کھلونے میں
تم نہ آؤ تو فرق ہوتا ہے
دن نکلنے میں، صبح ہونے میں
خوف اندر بھی گھر کے باہر بھی
چھپ کے بیٹھی ہوں ایک کونے میں
بے سبب خواہشوں کی مالا کو
ہاتھ زخمی ہوئے پرونے میں
ابر برسا تو کُھل گیا موسم
آج کتنا سکوں ہے رونے میں
سات رنگوں کا عکس ملتا ہے
میرے اک سانولے سلونے میں
یہ بھی سوچا نہیں جدائی نے
عمر گزری تھی ایک ہونے میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
یہ میری آنکھ کے پانی کا انتقام ہوا
وہ شخص اَبر کے سائے میں تشنہ کام ہوا
وہ جس کے ساتھ ابھی عمر کاٹنا تھی مجھے
وہ ایک خواب بھی کل رات بے لگام ہوا
اُسے تو ہر کوئی تسخیر کرنا چاہتا تھا
بغیر فوج کشی جو ہمارے نام ہوا
میں گفتگو میں کسی سے کبھی نہ ہارا تھا
پھر ایک روز ترا حسن ہمکلام ہوا
میاں یہ خنجرِ خواہش بدن میں رہنے دو
حیات رِسنے لگے گی جو بے نیام ہوا
(حسیب اقبال۔اٹک)
۔۔۔
غزل
کوئی تہمت نہ کچھ الزام لگانے والے
کیسے میلے ہوئے آینہ دکھانے والے
اس تبسم میں چھپی سسکیاں بھی دکھلاتا
مسکراتی ہوئی تصویر بنانے والے
اے زمانے کے رویّوں سے الجھتے ہوئے شخص
تیرے تیور بھی ہوئے آج زمانے والے
میں نے ماتھے پہ بغاوت کا سجا کر جھومر
ہاتھ تھاما تھا ترا، ہاتھ دکھانے والے
اتنی جلدی تو کسی سوچ میں ڈھل سکتے نہیں
ہم تخیل میں الگ دنیا بسانے والے
پھر بھلا کون بھروسہ کرے کس پر بلقیسؔ
نیند جب لوٹ گئے خواب دکھانے والے
(بلقیس خان۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
زمانہ بہت خود غرض ہو گیا ہے
ہر اک اپنے بارے ہی میں سوچتا ہے
مفادات کی جنگ سب لڑ رہے ہیں
اور انساں ہی انساں کا دشمن ہوا ہے
گنہ اک چھپانے کی خاطر یہاں پر
ہر اک کی نگاہوں میں گرنا پڑا ہے
قدم لڑکھڑانے لگے ہیں جو میرے
کوئی تو مرے راستے میں کھڑا ہے
یہ اپنوں کی سب مہربانی ہے ساگرؔ
مجھے آج تک درد جتنا ملا ہے
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
جگمگاتی ہوئی ہر رات سے ڈر لگتا ہے
جیسے مے نوش کو برسات سے ڈر لگتا ہے
میری بیٹی میں ترا باپ ہوں شکوہ مت کر
مجھ کو اس شہر کے حالات سے ڈر لگتا ہے
چھین لے گا یہ زمانہ میری خاموشی کو
ہر طرف ظلم کی بہتات سے ڈر لگتا ہے
دل کی دھڑکن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
پیار کی پہلی ملاقات سے ڈر لگتا ہے
جانے کس موڑ پہ کس سمت پلٹ جائے تُو
زندگی تیرے کرامات سے ڈرلگتا ہے
(تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ایک فرقے سے نکل کر جو گیا دوسرے میں
اک کنویں سے وہ نکل کر ہے گِرا دوسرے میں
ہم گریبان میں اپنے نہیں دیکھا کرتے
ہم کو آتی ہے نظر ساری خطا دوسرے میں
باغِ دل میں کبھی اپنے یہ کل کھلنے نہ دی
ہم نے ڈھونڈی ہے ہمیشہ ہی وفا دوسرے میں
اپنی خامی بھی نہیں مانتے ناکامی پر
یہ نہیں دیکھتے ہم خوبی ہے کیا دوسرے میں
رشتے رشتوں کو ملانے سے نئے بنتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے ہر اک رنگ ملا دوسرے میں
مذہبی لوگ ہیں ہم اور یہی جانتے ہیں
اک جہاں میں ہے فنا اور بقا دوسرے میں
ایک ہی وقت میں سب کام کہاں ممکن ہے
جس کو پہلے میں تھا چھوڑا، وہ کِیا دوسرے میں
پہلے مصرعے میں تو ہر بات ادھوری نکلی
ہم پہ اشعار کا مضمون کُھلا دوسرے میں
ہم نے ہر شخص کو آئینہ ہی سمجھا کیفی!
ہم نے تو خود کو ہی دیکھا ہے سدا دوسرے میں
(محمود کیفی۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
تیری تصویر دل میں سجاتا رہا
رات ساری میں آنسو بہاتا رہا
تیرا شاید کسی لمحے دیدار ہو
سب دیے آس کے میں جلاتا رہا
بے وفا چھوڑ کر فرقتوں میں مجھے
ساتھ غیروں کے خوشیاں مناتا رہا
اور وہ تجھ سے اچانک بچھڑنا مرا
میرے غمگین دل کو دکھاتا رہا
یوں اکیلا میں تنہائی میں بیٹھ کر
پتھروں سے جی اپنا لگاتا رہا
ظلم سہتا رہا میں ترے پیار میں
سب محبت کے وعدے نبھاتا رہا
(نعمان حیدر حامی، ضلع بھکر)
۔۔۔
غزل
صفت کرتے ہو میری اورمرا ہی نام لیتے ہو
تجاہل عارفانہ سے عجب تم کام لیتے ہو
کھڑاہوں میں جوقدموں پرتویہ تیری عنایت ہے
کبھی جو گرنے لگتا ہوں مجھے تم تھام لیتے ہو
جہانِ حرص میں تجھ سی سخاوت ہو تو بتلاؤ
بَھلا دیتے ہو دوجوں کو مگر خود خام لیتے ہو
ہمیشہ گل فشانی ہی لبوں سے تیرے ہوتی ہے
مگر بدلے میں اکثر تم فقط دشنام لیتے ہو
محبت کے خسارے میں تھا کچھ کردار میرا بھی
مگر تم ہو کہ سر اپنے سبھی الزام لیتے ہو
نہیں کچھ پاس پھر بھی تم ہوکتنے مطمئن دائم ؔ
مجھے دے دو یہ درویشی بتا کیا دام لیتے ہو
(ندیم دائم۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
بیخودی یہ جو ہم پہ طاری ہے
یہ ترے عشق کی خماری ہے
پھیکا لگتا ہے سب جہان کا رنگ
دل میں چاہت فقط تمہاری ہے
کاش ہوتے ہمارے تم، لیکن
ایسی قسمت کہاں ہماری ہے
یہ ترے ہجر کا جو اک غم ہے
ساری خوشیوں پہ میری بھاری ہے
رب سے ہم روز مانگتے ہیں تجھے
رب بھی سنتا کہاں ہماری ہے
زندگی تجھ پہ وار سکتا ہوں
تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
(احسان احسن ۔ بورے والا ،ضلع وہاڑی)
۔۔۔
غزل
سامنے تم کو بٹھا کر یار لکھوں گا کبھی
میں تمہارے حسن پراشعار لکھوں گا کبھی
اپنی غزلوں میں تمہارا رنگ بھرنے کے لیے
شعر تم کو دیکھ کر دو چارلکھوں گا کبھی
بات دل کی تم سے کوئی بھی چھپاؤں گا نہیں
جس قدر تم سے ہُوا ہے پیارلکھوں گا کبھی
میں کبھی لکھوں گا تم کو چاند تاروں کا بدل
اور پھولوں کی تمہیں مہکار لکھوں گا کبھی
اِک نظر میں ہی تمہاری مسکراہٹ جس طرح
چھیڑ دیتی ہے دلوں کے تار لکھوںگا کبھی
رو پڑیں گے پڑھ کے اس کو پھر دریدہ دل سبھی
داستانِ ہِجر یوں اِک بارلکھوں گا کبھی
چاہے ذلفی جو ملے مجھ کو محبت کی سزا
نام تیرا اب سرِِ دیوار لکھوںگا کبھی
(ذوالفقار علی دلفی ۔پنڈ داد ن خان ،جہلم)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی