اولیااللہ کا مسکن ملتان برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں شامل ہے

بہاولپور کے حکمران خاندان کی یادگاریں انسانی عروج و زوال کی کہانی بیان کرتی ہیں، جنوبی پنجاب کی سیاحت کی دلچسپ روداد


آصف محمود January 30, 2022
بہاولپور کے حکمران خاندان کی یادگاریں انسانی عروج و زوال کی کہانی بیان کرتی ہیں، جنوبی پنجاب کی سیاحت کی دلچسپ روداد ۔ فوٹو : فائل

پختہ سڑک پرتیزی سے دوڑتی دونوں گاڑیاں اپنی منزل قلعہ دیراوڑ کی طرف رواں دواں تھیں۔

بہاولپورسے احمدپور شرقیہ جاتے ہوئے راستے میں کہیں کہیں چولستان کے آثارنظرآرہے تھے۔ گاڑی میں مجھ سمیت لاہورسے ساتھ آئے ہوئے چند سینئرصحافی،وی لاگرزاورٹوورآپریٹرزکے علاوہ ٹی ڈی سی پی کے لوگ بھی تھے۔

گاڑی میں بے ہنگم میوزک کے شور کے باوجود میرے ذہن پر قلعہ دیراوڑ چھایا ہوا تھا، کیونکہ میں نے ابھی تک اس قلعے کو چند تصویروں اور ویڈیوز کے توسط سے دیکھا تھا اور خود اس کے روبرو جانا عہد ماضی میں جھانکنے جیسا لگ رہا تھا ۔

میں نے جنوبی پنجاب کے کلچر،ثقافت ،وہاں کے تاریخی اورمذہبی مقامات کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے لیکن ماسوائے ملتان کے، سرائیکی خطے کے دیگرشہروں کو دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔ بھلاہو محکمہ سیاحت پنجاب کا جس نے لاہور سے جنوبی پنجاب کے لئے سیاحتی ٹوورزکا آغازکیا ہے۔ مجھے بھی ٹی ڈی سی پی کی طرف سے جنوبی پنجاب کے دورے کی دعوت دی گئی جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا۔

قعلہ دیراوڑ جنوبی پنجاب کی سیاحتی پہچان کا درجہ رکھتا ہے لیکن ہمارے اس دورے میں اس قدیم تہذیب و ثقافت کے حامل حسین خطے کے دیگر بہت سے رنگ دیکھنے کا بھی موقع ملا، لہذا ہم اپنی بات کا آغاز ابتدا سے کرتے ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور کے ڈبل ڈیکر بس سروس ٹرمینل سے ہمارے اس سفرکا آغازصبح دس بجے ہوا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان اورمشیرسیاحت حسان خاور اور سیکرٹری سیاحت اسداللہ فیض نے ہمیں روانہ کیا۔ ایک قافلہ لاہور سے کرتار پور صاحب کے لئے جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کے لئے روانہ ہوا، کرتار پور والے گروپ نے شام کو واپس لوٹ آنا تھا جبکہ ہمارا ٹوور تین دن کا تھا۔

ہماری پہلی منزل تھی اولیااللہ کی سرزمین ملتان،ہوٹل میں چیک ان سے پہلے ہمیں مزارات پرحاضری کے پروگرام سے آگاہ کیاگیا۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یہ شہرسینکڑوں سال سے بزرگان دین، اکابرین،فقراء اور علماء کا مسکن رہا ہے، انہیں اولیاء کرام نے ملتان کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا اور ملتان کی گلی گلی اسلام کے نور سے منور ہو گئی۔

سب سے پہلے ہم حضرت شاہ شمس سبزواری ؒ کے مزارپرپہنچے۔انہیں شاہ شمس تبریزؒ بھی کہاجاتا ہے تاہم ملتان میں ہمارے میزبان اورٹی ڈی سی پی کے زونل مینجر مصباح نے بتایا کہ ان بزرگوں کااصل نام حضرت شاہ شمس سبزواریؒ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ ولادت ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر صادقؓ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے دنیا کے کئی ممالک کاسفرکیا جہاں آپ نے اسلام کی شمع روشن کی۔ برصغیر میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے۔ آپ نے کوہستان تبت، سکردو میں اسلام کی تبلیغ کی۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر تبریز تشریف لے گئے جہاں کئی برس قیام کیا اوراسی بنا پر شمس تبریزی مشہور ہوئے۔ مولانا رومی نے حضرت شاہ شمسؒ کی یاد میں ایسے پر درد اشعار کہے، جنہیں سن کر پتھر دل بھی موم ہو جائے، ''مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم۔۔ تا غلام شمس تبریزیؒ نہ شْد'' شمس سبزواریؒ کے حوالے سے ایک روایت خاصی مشہور ہے۔

کہاجاتا ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے ساتھ بغداد میں انتہائی ظلم وستم کیاگیا وہاں سے آپ ہجرت کرکے ملتان پہنچے اوریہاں دریا کنارے قیام کیا۔ ملتان کے لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ انتہائی براسلوک کیا، آپ کے ساتھ بغداد کے حکمران کا شہزادہ بھی تھا جس کا نام محمد بتایا جاتا ہے۔ وہ حضرت شاہ شمس سبزواری سے بہت محبت اورعقیدت رکھتا تھا اس لئے جب وہ بغداد سے رخصت ہوئے توشہزادہ بھی تخت وتاج کوخیربادکہہ کران کے ساتھ ملتان آگیا۔

ملتان کے لوگوں نے شاہ شمس سبزواریؒ اورشہزادہ محمد کو روٹی کاایک نوالہ تک نہ دیا۔ بالاخرحضرت شاہ شمس سبزواریؒ نے دریا سے ایک مچھلی کا شکارکیا اور پھر شہزادے کو بھیجا کہ شہروالوں سے تھوڑی سے آگ لے آؤ تاکہ اس مچھلی کو پکا کرکھایا جاسکے لیکن شہروالوں نے آگ دینے کی بجائے شہزادے محمد پربھی تشددکیاجس سے وہ بری طرح زخمی ہوگئے۔ جب شہزاہ محمد واپس پہنچا تواس کی حالت دیکھ کرحضرت شاہ شمس سبزاوری کوجلال آگیا۔

آپ نہایت غصے کی حالت میں نکلے، گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا، پھر جب شمس سبزواریؒ نے آسمان پر نظر کی اور سورج کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا تو بھی شمس! میں بھی شمس !میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔ اتنا کہنا تھا کہ یکا یک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بڑھی کہ اہلِ ملتان چیخ اْٹھے۔ درود یوار جل رہے تھے اور پورا شہر آ گ کی بھٹی بن کر رہ گیا۔ اس کیفیت میں ملتان کے سرکردہ اوردانا لوگوں نے حضرت شمس سبزواریؒ کی خدمت میں حاضری دی اورعرض کر نے لگے کہ چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہرکو نہ دیجئے۔کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ملتان کی گرمی مشہورہے۔

ملتان میں جہاں آپؒ کی درگاہ ہے، سینکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی۔ آپ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کامیابی کے مقام تک پہنچاتے رہے۔ غیر مسلم قبیلوں کے سرداروں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اوراسی مقام پروصال فرمایا۔

یہاں حاضری کے بعد ہم نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزارکارخ کیا۔ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ سلسلہ سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل ہیں، شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے خلیفہ تھے۔آپ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں اوراسلام کے عظیم مبلغ تھے۔

آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینۃ المنورۃ ، مکۃ المکرمۃ ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے زمانہ کے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاریؒ اور حضرت سید عثمان لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔

روحانی کمالات اوردرجہ ولائیت پر فائز ہونے کے بعد آپ 614ھ میں واپس ملتان پہنچے اور پھر یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا۔آپ نے عظیم الشان مدرسہ، خانقاہ ،لنگر خانہ،مجلس خانہ، خوبصورت مسافرخانے اور مساجد تعمیر کرائیں۔

اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ، ادب، فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔ عراق، شام تک کے طلباء اس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباء کی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔

لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا۔ طلباء کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماء و فضلا پیدا کئے اور ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔آج بھی ملتان کی بہاؤالدین زکریایونیورسٹی آپ کے نام سے ہی منسوب ہے۔

کوئی شخص حضرت بہاؤالدین زکریاملتانیؒ کے مزار پرحاضری دے اورپھر حضرت شاہ رکن عالمؒ کے در پر حاضر نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاہ رکن عالمؒ ،حضرت حضرت بہاولدین زکریا ملتانیؒ کے پوتے اورحضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے فرزند ہیں۔آپ کے مزار کا سفید گنبد اہل ملتان کے سروں پر دستار فضیلت کی طرح سایہ فگن ہے۔ آپ کا مزار عالیشان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ہے یہ قلعہ سترہ سالہ مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم کے نام سے منسوب ہے جسے سلطان غیاث الدین تغلق نے تعمیر کروایا،یہ مقبرہ 1320 عیسوی سے 1335 عیسوی کے دوران تقریبا 15 برسوں میں تعمیرہوا تھا۔

حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مزاراپنے حجم کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کاسب سے بڑا مزار سمجھا جاتا ہے۔ مزار کی عمارت ہشت پہلو ہے اور اس کا قطر 49 فٹ اور 3.5 انچ ہے۔ دیواریں عمودی ہیں جبکہ فرش سے مقبرہ کی اونچائی تو 100 فٹ ہے۔لیکن ایک ٹیلہ پر ہونے کی وجہ سے مقبرہ کی مجموعی اونچائی سطح زمین سے 160 فٹ بلند ہے۔ یہ عمارت تین منزلہ ہے۔ پہلی منزل کی اونچائی 41فٹ اور 3 انچ ہے جبکہ دیواروں کی موٹائی13 فٹ 10 انچ سے لیکر 14 فٹ 8 انچ ہے۔ دیواروں کے سہارے کے لئے ہر پہلو کے کونے کی پشت پر ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ دیواروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں

پہلی منزل نیچے سے اوپر تک آرائشی پٹیوں سے مزین ہے جس کو1970 میں ہونے والی مرمت کے دوران دوبارہ درست شکل میں بحال کیا گیا، دوسری منزل کی

اونچائی 25 فٹ اور 10 انچ ہیں اس منزل کے ہر پہلوپر ایک کٹاؤ دار محراب والی کھڑکی ہے جو کہ خشتی اور کاشی کے کام سے مزین ہے۔ دونوں طرف چار چار خوشنما کاشی کے ڈیزائن والے پھول ہیں جنہیں نوخانی اور شمشا کہتے ہیں۔

تیسری منزل ایک خوبصورت اور دلکش گنبد پر مشتمل ہے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔اس شاندار گنبد پرسفید چونے کا پلستر ہوا ہے جبکہ نیچے کاشی اور خشتی

کا ایسا عمدہ اور لاجواب کام ہوا ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مزار کے احاطہ میں داخل ہوں تو احاطہ کا دلکش منظر نظر آتا ہے۔

مقبرہ کے اندر ایک ایک اونچے چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ کی قبر مبارک ہے۔ اس مرکز کے چاروں اطراف ایک خوبصورت سنگ مرمر کا کٹہرہ ہے جبکہ قدموں میں میں چار قطاروں میں 58 قبریں ہیں جوکہ مریدین اور خلفاء کی ہیں۔

مزار کے اندر لکڑی کے ستونوں کا عمدہ اور نفیس جال بچھایا گیا ہے جو کہ اس عمارت کی مضبوطی کا باعث ہے

یہی اس عمارت کوسینکڑوں سالوں سے زلزلوں اور بمباریوں سے بچائے ہوئے ہے لکڑی کاعمدہ ڈھانچہ32 ستونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جو کہ نیچے سے لے کر چھت تک اور دیواروں کے اندر آرپار ہوکر اس مقبرہ کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مزار کے احاطہ میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جسے خوبصورت سرخ باریک اینٹوں سے تعمیر کی گیا ہے۔

روایت کے مطابق حضرت شاہ رکن عالمؒ کی تدفین پہلے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کے مزار میں ہی کی گئی تھی تاہم جب تغلق خاندان نے یہ عظیم الشان مقبرہ تعمیرکروایا توپھر ان کی میت یہاں منتقل کردی گئی۔ مزارات پرحاضری کے بعد ٹی ڈی سی پی کے زونل مینجرمصباح صاحب نے بتایا کہ اب ہم یہاں کے معروف حسین آگاہی بازارکادورہ کریں گے جہاں ہینڈی کرافٹ کی کئی دکانیں ہیں جبکہ ملتان کی سوغات سوھن حلوہ کی سب سے پرانی دکان بھی یہیں پر ہے۔

گروپ میں شامل تمام لوگ کافی تھک چکے تھے پھر بھی بازارکی سیاحت شروع ہوئی، یہ ہمارے لاہورکے انارکلی یا اچھرہ بازارجیسا ہی ہے ،یہاں بھی روایتی چیزوں سے بڑھ کرچائنہ کا مال نظرآتا ہے جبکہ لنڈے کے سامان کی بھی کئی دکانیں ہیں، ہمارے میزبان ہمیں بازارکی سیرکراتے اس دکان پر لے گئے جہاں سب سے معیاری حلوہ تیارہوتا ہے۔ ہمیں یہاں پستہ،کاجو اور بادام والاسوھن حلوہ کھلایا گیا کچھ ساتھیوں نے بطورسوغات حلوہ خریدا۔ یہاں سے ہم ہوٹل روانہ ہوگئے۔

اگلی صبح 9 بجے ہم لوگ ناشتے کی ٹیبل پرجمع ہوئے اور تقریبا دس بجے ہوٹل سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمارے گائیڈ اشفاق خان اورمصباح اسحاق ملتان کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہمیں مختلف تاریخی عمارتوں ، علاقوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ 'گرد،گرمی ،گدا اورگورستان' ملتان کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ کئی علاقوں کے نام بھی سورج یعنی شمس سے منسوب ہیں۔

تھوڑی دیر میں ہم انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ ملتان پہنچ گئے۔ خوبصورت نقش ونگار اور پھول بوٹیوں سے مزین برتن ملتان شہر کی خاص پہچان ہیں۔ ان دیدہ زیب برتنوں کو بلیو پوٹری بھی کہا جاتا ہے۔

ملتانی مٹی سے بلیوپوٹری کا ہنر تو دم توڑ چکا ہے تاہم اب پلاسٹرآف پیرس اورجپسم پاؤڈر سے ناصرف برتن بلکہ مختلف اقسام کی زیبائشی ٹائلیں بھی تیارہوتی ہیں،کاریگروں کا دعوی ہے کہ مٹی کے روایتی برتنوں کے مقابلے میں جدید طریقے سے بنائے جانے والے برتن سوسال بعد بھی خراب نہیں ہوتے۔ پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان ،گجرات اور(شاہدرہ ) لاہورلیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔

بلیو پوٹری کا رنگ ہمیں ملتان کے مزارات اورعمارتوں پربھی نظرآتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ ملتان کے نمائندے نے بتایا کہ صدیوں سے کاشی گری کا فن اس خطہ کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مٹی کے ظروف، روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب کاشی گر ہاتھ سے خوبصورت پھول، پتیاں اور دلکش نقوش اجاگر کرتا ہے تو بلیو پوٹری وجود میں آتی ہے۔

کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے،ابتدامیں کاریگر برتنوں پرنقش و نگار بنانے کے لئے نیلے رنگ کا استعمال زیادہ کرتے تھے اس لیے بلیو پوٹری کی اصطلاح مشہور ہو گئی تھی، تاہم کئی اور رنگ بھی استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔انسٹی ٹیوٹ میں نوجوان کاریگروں کو مختلف کام سکھائے جاتے ہیں جن میں برتن بنانا،کاشی گری، گلیئرنگ سمیت دیگرکام شامل ہیں۔

ایک کاریگر سید محسن عباس نقوی کے ساتھ گفت وشنید ہوئی توانہوں نے بتایا کہ وہ 30 برس سے یہاں کام کررہے ہیں۔ پہلے ملتانی مٹی سے برتن تیارہوتے تھے، برتن تیار کرنیوالوں کو کمہار کہاجاتا ہے۔ ملتان میں آج بھی چوک کمہاراں مشہور ہے۔ وہ لوگ مٹی سے برتن تیارکرتے اور پھر چھوٹی چھوٹی بھٹیوں میں انہیں پکاتے تھے۔ لیکن اب چند ایک کاریگر ہی زندہ ہیں۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ہنرکوفروغ اورپزیرائی نہیں مل سکی۔ اب سرامکس کاکام ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہی سب سے بڑی فیکٹری ہے جہاں تیار ہونیوالے برتن ناصرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں

فیکٹری میں کاریگر جپسم پاؤڈرکے محلول کو مختلف سانچوں میں ڈال کربرتنوں کی شکل دیتے ہیں، چوبیس گھنٹوں میں یہ برتن خشک ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے، ماہرکاریگروں کی انگلیاں بڑی مہارت سے برتن کی سطح کوصاف کرتی ہیں، اسی طرح برتن کے اندرونی حصے کی صفائی کی جاتی ہے۔ بعض برتن دوسانچوں میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان دونوں حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ برتنوں کی صفائی کے بعد کاشی گر ان پرنقش ونگار بناتے ہیں

نوجوان کاشی گر خاتون عنیزہ نے بتایا کہ وہ گزشتہ 8 سال سے یہاں کاشی گری کر رہی ہیں۔ انہوں نے 6 ماہ کا کورس کیا تھا۔اس وقت انہیں مختلف ڈیزائن اورانکے نام بتائے گئے تھے۔ مختلف برتنوں پر برش اور رنگوں سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔

عنیزہ کے مطابق یہ مخصوص قسم کے رنگ ہیں جو پاؤڈرکی شکل میں ملتے ہیں، انہیں پھرضرورت کے مطابق مکس کرکے لیکوئیڈ شکل دی جاتی ہے۔ ایک بڑے برتن پر نقش و نگار بنانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے ،ایک دن میں وہ پانچ، چھ برتنوں پر نقش و نگار بنا لیتی ہیں۔ عنیزہ کی طرح یہاں کئی اورکاشی گر بھی ہیں جن میں زیادہ ترخواتین اورنوجوان ہیں۔

سید ثمرعباس جعفری ان برتنوں پر کوبالٹ آکسائیڈ کی لئیر چڑھاتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ جب کاشی گری کے بعد برتن ان کے پاس آتے ہیں تو ان پرگلیئرنگ کی جاتی ہے ، برتنوں کو کوبالٹ آکسائیڈ کے محلول میں ڈبوکر برتنوں پرایک لیئر چڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان برتنوں کو بھٹی میں رکھاجاتا ہے۔ جدید قسم کی بھٹی میں بیک وقت 800 سے 900 برتن رکھے جا سکتے ہیں۔ آگ کے لئے گیس اورایل پی جی سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔

1250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کوبالٹ آکسائیڈ برتنوں میں ضم ہوجاتی اورلئیر پختہ ہوجاتی ہے۔ چوبیس گھنٹے تک ان برتنوں کوٹھنڈاہونے کے لئے رکھا جاتا ہے جس کے بعد یہ شاہکار تیارہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس برتن کواگرایک سوسال تک پانی میں بھگوکر رکھ دیں یا مٹی میں دبا دیں پھجر بھی یہ برتن خراب نہیں ہوگا۔

محکمہ سیاحت پنجاب کے زونل انچارچ مصباح اسحاق نے بتایا کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں شاخوں

اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز کہا جاتا ہے۔ محمدبن قاسم نے جب سندھ اورملتان کوفتح کیا تواسلامی لشکرکے ساتھ کئی کاشی گر بھی یہاں آئے اورانہوں نے اولیااللہ کی اس دھرتی کوہی اپنا مسکن بنا لیا۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔

تاریخ پرتحقیق کرنیوالے نوجوان مورخ محسن فراز کہتے ہیں ملتان میں روایتی ظروف سازی اورکاشی گری کا تقریباً ایک ہزار سال پرانا ہنراب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف گنتی کے چند لوگ باقی بچے ہیں، جو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاشی گری کے فن کو وہ پذیرائی نہیں ملی، جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ یہ ایک مورثی فن ہے، کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے۔

نیلے نقش و نگار والے برتنوں کی زیادہ ترتیاری آج بھی ہاتھوں سے کی جاتی ہے تاہم جپسم پاؤڈراورپلاسٹرآف پیرس کومحلول کی شکل میں تیارکرنا، اسے سانچوں میں ڈھالنا اورجدید بھٹی کے استعمال کی وجہ سے برتنوں کی تیاری کاعمل آسان اور تیز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ان برتنوں کی تیاری جس قدر مشکل کام ہے اس قدر ہی یہ برتن مہنگے بھی ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ میں ان برتنوں کا ڈسپلے سنٹربھی ہے جہاں سے اپنی پسند کے برتن 'جن میں گلدان، صراحی، کپ، عمارتوں، چھتوں، دیواروں اور فرش پر استعمال ہونیوالی زیبائشی ٹائلیں ،ڈیکوریشن پیس اورچائے دانیاں شامل ہیں' خرید سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے چائے کے کپ کی قیمت بھی 500 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ منتظمین نے بتایا کہ بلیو پوٹری یا توگھرکے ڈرائنگ رومزکی سجاوٹ کے لئے خریدی جاتی ہے یا پھربڑے ہوٹل،اور امیر خاندان استعمال کرتے ہیں۔

بہاولپورکے نوابوں کا شاہی قبرستان
بہاولپورکی تحصیل احمد پور شرقیہ میں عباسی نواب خاندان کا برسوں پرانا شاہی قبرستان ہے جہاں عباسی نواب خاندان کے سربراہان کی قبریں ایک بڑے ہال میں بنائی گئی ہیں جبکہ نوابوں کی بیگمات کے لئے مقبرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ غیرملکی بیگمات کے مقبرے سفید سنگ مرمرجبکہ مقامی اورعباسی نواب خاندان سے تعلق رکھنے والی ازواج کے مقبروں پر اس خطے کی ثقافت اورکلچر کے مطابق خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔

سابق ریاست بہاولپور کے اکثرنواب اس شاہی قبرستان سے چند فرلانگ کے فاصلے پرموجود قلعہ دیراوڑ میں پیدا ہوئے اور پھراس قبرستان میں دفن کر دیئے گئے۔ اس قبرستان میں کم و بیش 100 کے قریب چھوٹی بڑی قبریں ہیں۔ عباسی خاندان نے ریاست بہاولپور پر سن 1690 سے سن 1955 تک قریباً اڑھائی صدی تک حکومت کی ہے۔ شاہی قبرستان میں بنائے گئے مزارات کئی کلومیٹر کے فاصلے سے ہی اپنی موجودگی اور تعمیرات کی عظمت کا بھرپور احساس دلانا شروع کر دیتے ہیں،یہ مقبرے عباسی نواب خاندان کے عروج و زوال کی داستانیں سناتے ہیں۔

آثارقدیمہ کے ماہرافضل خان کہتے ہیں ''نوابوں کا یہ شاہی قبرستان صدیوں پرانے قبرستان کاحصہ ہے جہاں اکثرقبریں چولستان کے دامن میں گم ہوچکی ہیں، تاہم نوابوں کے قبرستان کے گرد چاردیواری کرکے اس الگ کر دیا گیا۔ یہ نواب خاندان کا ذاتی قبرستان ہے اس وجہ سے یہاں کسی عام فردکی تدفین ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو قبرستان کے اندرجانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

شاہی قبرستان کے باہر ہی ایک خاندان آباد ہے جو کہ نواب بہاول محمد خان (دوم) کے دور سے یعنی نو نسلوں سے ان مزارات کی مجاوری کر رہا ہے اور اس وقت اسی خاندان کے سربراہ کے پاس ہی اس قبرستان کے احاطے اور نواب خاندان کے سربراہان کی قبروں کے کمرے کی چابیاں موجود ہیں اور یہ ذمہ داری نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے۔

شاہی قبرستان میں داخل ہونے کے لئے لکڑی کاایک بڑادروازہ نصب ہے۔جوصرف نواب خاندان کے افرادکی آمد یا پھر خاص مہمانوں کے لئے ہی کھولاجاتا ہے۔ ایک

مستطیل بڑے ہال میں سابق سلطنت بہاولپورکے ان نوابوں کی قبریں ہیں جو ریاست بہاولپورکے حکمران رہے ہیں۔آخری قبر نواب صادق محمد خان خامس کی ہے جو ریاست بہاولپور کے آخری نواب تھے۔انہوں نے سن 1955 میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور یوں بہاولپور کی الگ ریاستی شناخت ختم ہوگئی۔ ایک چھوٹی قبر نواب میاں رحیم یار خان کی بھی ہے جن کے نام سے ضلع رحیم یارخان منسوب ہے۔

ہرقبر پر مرنیوالے نواب کا نام اورمختصرتاریخ درج ہے۔ تمام قبریں سفید سنگ مرمرسے بنائی گئی ہیں۔ قبروں کے سرہانے کی جانب چھوٹے، بڑے سائزکے ستون ہیں۔ماہرین کے مطابق ستون کاسائزنواب کے عرصہ حکمرانی کوظاہرکرتا ہے، اس احاطے میں چند قبروں کی لئے ابھی جگہ باقی ہے۔قبروں پرسفیدچادریں ڈالی گئی ہیں اوریہ حصہ بھی بند رہتا ہے

اس قبرستان میں سب سے منفردقبر نواب صادق محمد خان خامس کی غیرملکی اہلیہ وکٹوریہ کی ہے۔ محکمہ سیاحت پنجاب کے سینئرٹوورآفیسر مصباح اسحاق کہتے

ہیں نواب صاحب کی یہ اہلیہ برطانوی تھیں ، انہوں نے شادی سے قبل اسلام قبول کیا اوران کا نام غلام فاطمہ رکھا گیا تاہم آج بھی لوگ انہیں وکٹوریہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بہاولپورمیں ان کے نام سے ہسپتال بھی قائم ہے۔

مصباح اسحاق کہتے ہیں وکٹوریہ نواب صادق محمد خان سے بہت محبت کرتی تھیں اورانہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی وفات کے بعد انہیں نواب صاحب کے قدموں میں دفن کیاجائے۔ لہذا ان کی وفات کے بعد ان کی قبر نواب صادق محمدخان کے قدموں کی جانب بنائی گئی اوراس پرایک چھوٹا سا مقبرہ بنایاگیا۔

وکٹوریہ بیگم کے نام کے حوالے سے بعض مورخین کااختلاف ہے۔ ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق یہ مقبرہ نواب صادق محمد خان کی بیوی لنڈا فلورنس کا ہے جو حیدرآباد دکن کے ایک انگریز اسسٹنٹ انجینئر کی بیٹی تھیں۔ نواب صادق محمد خاں نے 1927 میں انہیں بمبئی میں دیکھا، پسند کیا اور شادی کرلی تھی۔ بیگم لنڈا فلورنس شادی کے بعد چھ برس زندہ رہیں اور اس دوران انہوں نے چار بیٹے اور ایک بیٹی کوجنم دیا ،ان کی وفات کے بعد انہیں اس شاہی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

شاہی قبرستان دیکھنا ہمارے دور کی آخری مصروفیت تھی اور ترتیب کے اعتبار سے بھی بڑی بامعنی تھی۔ انسان کی زندگی ہو یا قوموں کی زندگی، اس میں ثبات نہیں، یہ عروج و زوال سے عبارت ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں '' ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں