کرپشن انڈکس پر کون سنجیدہ ہے

سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اگر کرپشن ختم کرنے میں اپنے اپنے وقت میں سنجیدہ ہوتیں تو یہاں تک نوبت ہی نہ آتی


خالد محمود رسول January 29, 2022

PESHAWAR: دنیا بھر میں طرح طرح کے بزنس ہیں، ان میں ایک منفرد بزنس مختلف طرح کی عالمی رینکنگ یا انڈکس پر مبنی ہے۔ ان میں بہت سے ادارے اور ان کی عالمی رینکنگ قابل بھروسہ سمجھی جاتی ہے جیسے ورلڈ بینک، Oxfam وغیرہ ۔ جب کہ دوسری جانب بے تحاشا ایسے عالمی انڈکس اور رینکنگ رپورٹس ہیں جن کے مقاصد، طریقہ کار اور نتائج اخذ کرنے کے انداز پر ماہرین کے شدید تحفظات ہیں۔

ایسی ہی ایک عالمی رینکنگ رپورٹ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ کرپشن پرسیپشن رپورٹ 2021 اسی ہفتے جاری ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی رینکنگ میں سال 2020 میں 124ویں نمبر پر تھا جب کہ سال 2021 میں لڑھک کر 140 ویں نمبر پر آ گیا۔ میڈیا ہیڈ لائن بہت سادہ اور زوردار بنیں ؛ پاکستان میں کرپشن مزید 16 درجے بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ حوالہ کہ 2018 میں اس حکومت کے برسرِ اقتدار آنے پر یہ پوزیشن 117 تھی۔ بظاہر سادہ سا حساب ہے کہ ملک میں کرپشن کے فلڈ گیٹ کھل گئے، اسی لیے تو تین سالوں میں 23 درجے کی تنزلی ہوئی۔

اپوزیشن کے لیے یہ رپورٹ بڑے صحیح وقت پر ایک نعمت کے طور پر نازل ہوئی۔ میڈیا کو بھی ایک نیا موضوع ہاتھ آیا اور پھر بقول شخصے دے دھنا دھن۔ شہباز شریف کے بقول 16 درجے کرپشن بڑھ گئی، معیشت تباہ ہو گئی، عمران اور کیا خطرناک ہوں گے۔ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کی تنقید کا لبِ لباب یہ رہا کہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ فرد جرم ہے،اس لیے حکمران استعفیٰ دیں۔

حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا،اس رپورٹ میں پاکستان کا درجہ مالی کرپشن نہیں بلکہ سیاسی کرپشن اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے باعث گرا ہے۔ مکمل رپورٹ سامنے آئی تو اس کا جواب دیں گے۔ رہی پچھلی حکومت کے دوران اس رپورٹ میں درجہ بندی بہتر ہونے کی وجہ تو انھوں نے اشارہ اس ادارے کے پاکستان چیپٹر کے سابق سربراہ کی طرف کیا جنھیں ن لیگ کی حکومت نے بعد ازاں سفارتی عہدے سے بھی نوازا، ظاہر ہے جب ہمدردیوں کے ڈانڈے ملیں گے تو درجہ بندی میں موافقت بھی ملی۔

آج کی اپوزیشن اور گزشہ کل کی حکومت کا اس رپورٹ کے بارے میں سنجیدگی کا اندازہ لگانا ہو تو اوپر دیے گئے بیانات کو الٹی ترتیب سے پڑھ لیجیے۔ کل یہی عمران خان اور فواد چوہدری ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو گولڈ اسٹینڈرڈ مانتے ہوئے ن لیگ پر کم و بیش انھی الفاظ اور لہجے میں تنقید کرتے رہے۔ اسی طرح ن لیگ نے عالمی رینکنگ میں بہتری پر خوشی کے شادیانے بجائے اور کریڈٹ لیا کہ ،

اس محفل میں ہے کوئی ہم سا

ہم سا ہو تو سامنے آئے

اس رپورٹ سے سیاست دانوں کی دلچسپی بس اتنی ہی ہے کہ اس سے مخالف فریق پرچڑھ دوڑنے کا موقع مل جاتا ہے، کرپشن کم کرنے یا ختم کرنے سے کس کم بخت کو غرض ہے۔ ایک لمحے کو فرض کر لیجیے کہ یہ ایک قابلِ اعتماد رپورٹ ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 180 ممالک کی رینکنگ کا اوسط اسکور 43 ہے۔ پاکستان کا حالیہ رپورٹ میں اسکور 28 ہے۔

ن لیگ کے دور میں 2014 میں یہ اسکور 29 تھا، 2015 میں 30 اور 2012 میں پی پی پی کے آخری سال میں 28 تھا۔ خدا لگتی کہئے کہ دو درجے اوپر یا نیچے ہونے سے کیا انقلاب برپا ہوگیا۔ دنیا کے اوسط اسکور 43 سے فرق تو کم و بیش ایک سا ہے۔ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ عالمی اوسط سے اس قدر نیچے ہونے کے سبب ہماری عالمی رینکنگ سوویں درجے سے زائد ہی رہی۔ اب اس پر کیا شادیانے بجانے کہ ہم بہتر تھے اور دوسرا کمتر۔ ایک ہی صف میں ہیں،ایک حکومت ایک آدھ درجہ دائیں تو دوسری حکومت دو ایک درجے بائیں، صف تو کرپٹ ترین ممالک ہی کی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی یہ سالانہ کرپشن گمانی رپورٹ دنیا بھر میں سالہا سال سے تنقید کا نشانہ رہی ہے، وجوہات کئی ہیں۔ اول، یہ کسی بھی ملک میں براہِ راست تفصیلی سروے سے مرتب نہیں کی جاتی ۔آٹھ مختلف انڈکس اور عالمی رینکنگ رپورٹس کو بنیاد بنا کر اسے ترتیب دیا جاتا ہے۔

ان آٹھ ڈیٹا سورسز کی صلاحیت، کوریج، انتہائی محدود اور اکثر اوقات خاص طبقات پر مبنی سامپلنگ، سوالات اور نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کار پر ماہرین کے شدید تحفظات اور شبہات ہیں۔ دوم،اس رپورٹ کی رینکنگ میں جا بہ جا تعصب گندھا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کلین مگر بہت سے ترقی یافتہ ممالک کو کرپشن کا گڑھ قرار دینے سے ان ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کے وجود سے انکار کا تاثر پیش کیا جاتاہے۔ سوم، یہ کرپشن کے گمان یعنی Perception پر مبنی ہے نہ کہ اصل زمینی حقائق پر ۔ تنقید کے نکات تو اور بھی ہیں مگر کیا کیجیے ، دھندہ ہے اور خوب چل رہا ہے۔

سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اگر کرپشن ختم کرنے میں اپنے اپنے وقت میں سنجیدہ ہوتیں تو یہاں تک نوبت ہی نہ آتی۔ سیاسی بنیادوں پر میرٹ کو روندتے ہوئے ہر دور میں انتظامی بھرتیاں، تبادلے، سبسڈیز، مخصوص لابیوں کے لیے پالیسیوں کے اجراء، زمینوں اور رئیل اسٹیٹ کے دھندے میں حکومتی پشت پناہی، انفرااسٹرکچر کے ٹھیکوں، بجلی پیداوار کے یکطرفہ اور مہنگے طویل مدت معاہدے، ایس آراوز، ملک میں گیس کی کمیابی کے باوجود مخصوص سیکٹرز اور کمپنیوں کو بیس تیس سال کے انتہائی کم ٹیرف پر گیس فراہمی کے معاہدے، سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن کی لوٹ سیل، بجلی اور گیس کا سرکلر ڈیٹ، پبلک سیکٹر اداروں کے سالانہ سیکڑوں ارب کے نقصانات اور سیاسی مداخلت کس دور میں یہ کام نہیں ہوئے۔

کس دور میں اور کس جماعت نے اختیار ہونے کے باوجود کرپشن کے ناسور کو اکھاڑنے کی ہمت کی؟ اس کے برعکس کرپشن کی قسم ہا قسم کی چابیاں ایجاد کی جاتی رہیں کہ سیاسی مفادات کی دکان کھلی رہے۔ ایسے میںاین جی او ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک معمول کی رپورٹ پر یہ ہنگامہ بجائے خود مضحکہ خیز ہے۔ اس سیاسی حمام میں کون کرپشن ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، اپنے سینے پر ہاتھ کر اپنے دل سے پوچھ لیجیے، جواب مل جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں