روشنی کا قرض
امریکا اور کینیڈا میں ہمارے بیشتر لوگ امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت مضبوط اور فعال ہیں...
میں قصدًا سیاست پر نہیں لکھتا میرے نزدیک اس موضوع پر اب لکھنا بالکل عبث ہے۔ایک وجہ شائد اور بھی ہے،سیاست اور سیاسی واقعات پر لکھنے والے میرے سے بہت بہتراور دانا اشخاص ہیں۔لیکن میرا ایک سوال ہے!اس ملک میں سیاست کا وجود کہاں ہے؟یہاں تو عرصہ دراز سے انتظامی(Arrangements)ہیں۔چہروں سے مکمل فائدہ اٹھا کر انھیں کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر تبدیلی کے نام پر بڑے بھدے طریقے سے ایک اور قسط سامنے آ جاتی ہے ۔سوچنے کا مقام ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ترقی کر رہے ہیں بلکہ حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔مگر ہم اسی حیرت انگیز رفتار سے توازن کھو رہے ہیں!ہمارے ملک میں عام آدمی کے لیے ترقی کے مواقع تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔نظام اس قدر بوسیدہ ہے کہ ہمارے لائق اور محنتی لوگ جلد ہی اکتا جاتے ہیں۔ان کے پاس زندگی میں صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔ایک یہ کہ اپنی تمام لیاقت اور محنت کے باوجود کڑھتے رہیں یا دوسرا کہ اس ملک کو خیر آباد کہہ دیں۔ کچھ لوگ ان دونوں رستوں پر بیک وقت چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔وہ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نا اُدھر کے!
پاکستانی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد ستر سے اَسّی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔یہ نارتھ امریکا،یورپ اور مشرق وسطیٰ کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔آج یہ ہماری ملکی معیشت کا سب سے اہم اور قابل قدر حصہ ہیں۔ان کی ترسیل شدہ رقوم جو تقریباً 13-14بلین ڈالر سالانہ کے قریب ہیں،کی بدولت ہماری معیشت کو سہارا ملا ہوا ہے۔اگر یہ لوگ اپنی محنت کی کمائی کا کچھ حصہ مسلسل پاکستان نہ بھجوائیں تو ہمارا ملک بہت جلد دیوالیہ ہو جائے گا۔پاکستان اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہے جہاں بیرون ملک رہنے والے شہری اپنے ملک کو معاشی طور پر اتنا مستحکم کرتے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں ہمارے محنت کش ہر جگہ موجود ہیں۔آپ دوبئی کی مثال لیجیے!آپ کو ہر دوسری یا تیسری ٹیکسی میں پاکستانی ڈرائیور ملے گا۔یہ آپ سے پاکستان کے حالات پر مکمل بحث کرے گا۔یہ آپ کو بتائے گا کہ وہ اپنے وطن کے کس شہر یا گائوں یا گلی میں رہتا ہے۔آپ سعودی عرب چلے جائیں۔حرم کے ارد گرد پاکستانیوں کا ہر درجہ کا کاروبار ہے۔چھوٹے چھوٹے ہوٹل،چائے خانے،جنرل اسٹور،ہر طرح کے کام ،یعنی ہم ہر جگہ موجود ہیں۔اب مشرق وسطیٰ میں ہمارے ڈاکٹر،انجینئر اور بینکر بھی ملتے ہیں۔لندن اور یورپ کے بیشتر ملکوں میں ہمارے ملک سے محنت کش لوگ اپنے خواب پورے کرنے چند دہائیاں پہلے گئے تھے۔اب ان کی تیسری نسل وہاں موجود ہے۔ان میں سے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کبھی بھی پاکستان نہیں آئے۔ ان کے لہجہ میں اپنے آبائی ملک کے لیے اُنس صاف جھلکتا ہے۔لندن میں ہمارے ڈاکٹر،سوفٹ وئیر انجینئر، پروفیسر،معاشی ماہرین اور وکلاء کثرت سے نظر آئینگے۔
امریکا اور کینیڈا میں ہمارے بیشتر لوگ امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت مضبوط اور فعال ہیں۔مگر نیو یارک کے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کے بغیر اب یہ عظیم شہر بالکل ادھورا ہے۔میرا عرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشی سطح پر یورپ،امریکا اور مشرق وسطیٰ میں بالکل الگ الگ دھارے میں ہیں۔ان دھاروں کے درمیان اکثر اوقات کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ان میں کچھ لوگوں کے پاس ذاتی ہوائی جہاز ہیں اور کچھ ایک کمرے میں پیسے بچانے کے لیے پانچ یا چھ لوگوں کے ساتھ باری باری رہتے اور سوتے ہیں۔کچھ پاکستانیوں نے اپنے گھروں میں دو تین ملازم رکھے ہوئے ہیںاور ہمارے ہی کچھ لوگ چوبیس گھنٹوں میں سے سولہ گھنٹے محنت مزدوری کرتے ہیں۔لیکن اس تمام معاشی تفریق کے باوجود ان ستر لاکھ لوگوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ایک خالص چیز نے ان تمام کو ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔وہ ہے اپنے ملک یعنی پاکستان سے محبت اور عشق!یہ لوگ ہر دم پاکستان کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔
علی حماد 1986میں لاہور سے امریکا گیا۔وہ ایک ذہین ڈاکٹر تھا۔اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اس نے امریکا میں کارڈیالوجی کے تمام امتحانات چٹکی بجاتے ہوئے پاس کر لیے۔وہ دل کی شریانوں میں سٹنٹ(Stint)ڈالنے کا ماہر ترین ڈاکٹر بن چکا تھا۔اس کی میڈیکل پریکٹس بھی بہت زوروں سے چل پڑی ۔وہ کامیابی اور دیانت داری کی ایک مثال بن چکا تھا۔مگر اس کے اندر پاکستان کی کشش تھی۔وہ دیسی کھانوں کا شوقین شخص تھا۔اسے لاہور کے چسکہ دار کھانوں سے دلی رغبت تھی اور ہے۔آج سے پندرہ سال پہلے اس نے پاکستان سال میں کم از کم دو تین بار آنا شروع کر دیا۔اس نے اپنی اہلیہ سے مل کر لاہور ڈیفنس میں ایک نہایت خوبصورت گھر تعمیر کر لیا۔وہ اپنے ملک میں ایک باعزت طریقے سے رہنا چاہتا تھا۔اس کے برابر کی ٹیکنیکل صلاحیتوں کے ڈاکٹر کم از کم پنجاب میں نہ ہونے کے برابر تھے۔لاہور کے ایک بہت اچھے نجی اسپتال میں جانے پر اسے معلوم ہوا کہ یہاں دل کی شریانوں میں سٹنٹ ڈالنے کی مشین حد درجہ پرانی ہیں۔
بلکہ اکثر مشینوں کو سیکنڈ ہینڈ خریدا گیا ہے۔بقول اس ڈاکٹر کے یہ مشینیں امریکا میں استعمال کرنا جرم کے برابر ہے۔پنجاب کا سرکاری شعبہ اس کی صلاحیتیں استعمال کرنے کی استطاعت سے مکمل محروم تھا۔مشینوں سے لے کر اسٹاف سپورٹ،یہاں اسے کچھ نظر نہیں آیا۔اس نے لاہور ڈیفنس میں ایک بہت بڑا اور قابل اعتماد اسپتال بنانے کے متعلق بھی بہت محنت کی۔وہ اس اسپتال کی (Feasibility) بنانے پر محنت کرتا رہا۔اس نے ایک انتہائی جاندار اور بہترین (Document)بنایا۔مگر اس کا D.H.Aلاہور میں ایک اچھا اسپتال بنانے کا خواب، صرف خواب ہی رہ گیا۔وہ انتہائی شرافت اور بغیر شکوہ شکایت کے واپس امریکا چلا گیا۔وہاں وہ ایک بہت پایہ کا ڈاکٹر ہے۔وہ ذکر نہیں کرتا مگر اسے اپنے شہر سے شدید محبت ہے۔اب وہ پاکستان کم آتا ہے۔مگر وہ پاکستان سے قطعاً لاتعلق نہیں۔وہ یہاں کے خراب حالات دیکھ کر آج بھی اپنے گھر میں پریشان ہو جاتا ہے۔ہمارے بوسیدہ نظام نے ایک انتہائی اہلیت والے ڈاکٹر کو غریب الاوطن بنا دیا۔
محمد علی فیصل آباد میں گھر میں ملازمت کرتا تھا۔وہ کام کرتے کرتے ڈرائیور بن گیا۔تیس سا ل پہلے وہ سعودی عرب بطور ڈرائیور ایک تیل کی کمپنی میں بھرتی ہو گیا۔وہ مکمل اَن پڑھ تھا۔سعودی عرب میں وہ اپنی محنت کی وجہ سے اپنی کمپنی میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔کمپنی کے مالک نے اسے سُپر وائزر بنا دیا۔اس کے بعد وہ شفٹ انچارج پر ترقی کر گیا۔محمد علی اپنے ملک کو قطعاً نہیں بھولا۔اس نے کراچی میں شادی کی اور وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ واپس سعودی عرب چلا گیا۔وہاں اس کا تبادلہ ریاض سے مکہ کر دیا گیا۔پندرہ برس سے محمد علی مکہ میں کام کرتا ہے۔وہ ہر نماز حرم میں پڑھتا ہے۔وہاں وہ روز کعبہ کے غلاف کو چومتا ہے اور پاکستان کے لیے دعا مانگتا ہے۔وہ ہر مہینہ عمرہ کرتا ہے۔ رب کعبہ کے سامنے صرف اپنے ملک کی خیر مانگتا ہے۔وہ موبائل فون کا اسپیکر آن کر کے،پاکستان میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہر جمعہ کی نماز کے بعد گریا کر کے اپنے ملک کے لیے استحکام کی دعا مانگتا ہے۔اسے اپنے ملک سے عشق ہے۔وہ دس سال سے پاکستان نہیں آ سکا۔مگر اس کے باوجود وہ پاکستان کے متعلق ہر وقت باخبر رہتا ہے۔
لندن سے دور گرین وچ یونیورسٹی دنیا کی ایک عظیم درسگاہ ہے۔پچھلے سال مجھے اس یونیورسٹی میں پردوائس چانسلر کی ایک بریفنگ میں شرکت کا موقعہ ملا ۔تمام لوگ انگریز تھے مگر بریفنگ کے لیے ایک پاکستانی پروفیسر باری ملک کو زحمت دی گئی۔میرے لیے یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ بریفنگ کے بعد غیر رسمی ماحول میں باری ملک نے مجھے بتایا کہ وہ تیسری نسل سے لندن میں مقیم ہیں۔وہ ہم لوگوں سے تقریباً چالیس منٹ صرف پاکستان اور اس کے مسائل پر گفتگو کرتا رہا۔وہ اپنے ملک کے متعلق باتیں کرنے میں اتنا محو ہو گیا کہ ہمارے ساتھ چار میل پیدل چلتا رہا۔ باری ملک کا تعلق گوجر خان سے ہے۔وہ بڑی چاہت سے اپنے آبائی قصبہ کا ذکر کرنے میں مصروف رہا۔وہ پاکستان سے آئے ہوئے طالب علموں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔اس ایک شخص کی ملک سے بے لوث محبت کی بدولت ہمارے سیکڑوں پاکستانی طالب علم دنیا کی اس عظیم درسگاہ میں داخلہ لے چکے ہیں۔
عزیز الاسلام لندن میں بیس سال سے رہتا ہے۔اس کا گھر ہر پاکستانی کے لیے کھلا ہوا ہے۔کوئی شخص بھی لندن جائے،عزیز الاسلام اس کو گاڑی میں بٹھا کر پورا شہر گھماتا ہے۔وہ اپنے وسائل سے بڑھ کر اس کی خدمت کرتا ہے۔یہ تمام جذبہ بے لوث ہے۔وہ کئی کئی برس پاکستان نہیں آتا مگر وہ ہر وقت پاکستان کے متعلق سوچتا رہتا ہے۔اسے ملتان شہر سے عشق ہے۔اس کے اندر شائد ایک چھوٹا سا ملتان بستا ہے۔بقول ایک دوست کے کہ عزیز اتنے اعلیٰ ظرف کا مالک ہے کہ اگر اپنے مہمان کی خدمت کے لیے اسے اپنا آخری گھوڑا بھی ذبح کرنا پڑے تو وہ بے دریغ کر دے گا۔
یہ لاکھوں لوگ کون ہیں؟یہ چند دنوں کے لیے پاکستان آتے ہیںاور اپنی مشکلات اور محرومیوں کا ذکر کیے بغیر خاموشی سے واپس چلے جاتے ہیں۔یہ کسی سے اپنی دکھوں کی برسات کا ذکر نہیں کرتے جو اپنوں سے بہت دور رہ کر ہر موقع پر ان کے دل پر برستی ہے۔ان کی محنت کی بدولت ہمارے ہر گھر میں خوشیوں کی روشنی ہے۔دراصل ہم ان کی محنت کی روشنی کے مقروض ہیں !اور اگر کہیں!انھوں نے اپنا دیا ہوا قرض واپس مانگ لیا تو ہم صرف اور صرف اندھیروں میں ہی رہ جائیں گے؟