ہاتھ کنگن کو آرسی کیا

اپوزیشن اتحاد تمام ترکوششوں کے باوجود حکومت گرانے کی تاریخوں پہ تاریخیں دینے کے بعد آج تک حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکا


MJ Gohar January 30, 2022
[email protected]

لاہور: آج سے کوئی ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے معروف فلسفی اور دانشور افلاطون نے کہا تھا کہ ''ریاستیں، شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتیں ، ریاستیں انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔'' صدیاں گزرنے کے بعد بھی افلاطون کے اس قول کی صداقت آج بھی مسلمہ ہے۔ ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق وکردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں ریاست سازی کے لاکھوں تجربات ہو چکے ہیں۔ ریاستیں بنتی ہیں، ٹوٹ بھی جاتی ہیں، نئی ریاستیں وجود میں آجاتی ہیں۔ ریاستوں کے برگ و بار لانے ، ان کی توسیع، ان کے مضمحل ہو جانے اور عموماً ختم ہو جانے کے بھی بہت سے سیاسی ، اقتصادی ، عسکری اور بین الریاستی اسباب و عوامل ہوتے ہیں۔

دیکھا جائے تو سیاسی اخلاقیات ، معاشرے کی عمومی اخلاقیات ہی کا حصہ ہوتی ہے ، جب کہ معاشرے مختلف پس منظر رکھنے والے افراد اور مختلف طبقوں کا مرکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے اور سیاسیات کی کوئی ایک مستند اخلاقیات نہیں ہوتیں ، البتہ سیاسی نظاموں میں جن افراد یا گروہوں یا اداروں اور طبقوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ان ہی کی اخلاقیات کو معاشرے میں فروغ پانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ جیسی قوم ویسی قیادت یا جیسی رعایا ویسے ہی حکمران۔ لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ دوسروں پر اثرانداز ہونے اور ان کے اخلاق کی تہذیب یا تخریب کے جو وسائل برسر اقتدار افراد اور حکمران طبقات کو حاصل ہوتے ہیں، وہ عوام کو حاصل نہیں ہوتے۔ اس پہ مستزاد ذرایع ابلاغ بھی اسی سیاسی اخلاقیات کی ترویج کرتے ہیں جو حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہے۔

آپ ذرا غور کیجیے کہ پوری قوم ہر شام ٹیلی وژن اسکرین پر اپنے لیڈروں کی ایک دوسرے کے بارے میں دشنام سے بھرپورگفتگو سنتے ہیں۔ ان کے لڑائی جھگڑے دیکھتے ہیں، بعض اوقات نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ روز یہی لوگ پھر ہماری ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ افروز ہو کر ایک دوسرے کے مقابل آ جاتے ہیں اور پھر ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن جاتے ہیں۔

آج ہماری قومی سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے اور قوم کی قیادت و رہنمائی کا دعویٰ کرنیوالے ارباب سیاست جس قسم کی سطحی زبان استعمال کر رہے ہیں وہ حد درجہ افسوس ناک و شرم ناک ہے اور کسی بھی حوالے سے اس کی پذیرائی نہیں کی جاسکتی۔

تلخ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی ہماری سیاسی جماعتوں اور قوم کا بیڑہ پار لگانے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے لیڈروں کے پاس خواہ ان کا تعلق برسر اقتدار پارٹی سے ہو یا حزب اختلاف سے، عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل انتخابی مہم کے دوران تمام سیاستدان عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان سے لے کر ریاست مدینہ کے طرز حکمرانی تک ہمارے ارباب سیاست نے عوام کو خوب صورت الفاظ، سنہرے وعدوں اور ہمالیائی دعوؤں کے گورکھ دھندے میں الجھا رکھا ہے۔ یہاں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایک جانب سیاسی قیادت کی اپنی کمزوریاں، نااہلیاں اور خامیاں ہیں تو دوسری جانب وہ محدود دائرہ کار بھی ہے جہاں نادیدہ اور طاقت ور قوتوں کے پس پردہ عمل دخل کے باعث حکمرانوں کے کام کرنے کی حدود طے کر دی جاتی ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی غلطیوں کے باعث سیاسی قیادت اپنا مقام اور وقار قائم کرنے میں ناکام رہی اسی باعث ان کے اختیارات کے استعمال پر نادیدہ قوتوں کا قبضہ ہے۔ یہ تو ایک طرح سے ماتحت اور تابع دار ہیں۔ مزاحمت کرنے کا سوچتے ہیں اور دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو انھیں چار قدم پیچھے دھکیلے دیا جاتا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجانے سے لے کر ووٹ کو عزت دینے تک سب کے سب قطار در قطار کھڑے ہونے پر مجبور و بے بس دکھائی دیتے ہیں۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں جمہوری بصیرت کے فقدان کے باعث اخلاقی گراوٹ نے جگہ بنا لی۔ باہمی تعاون اور افہام و تفہیم سے سیاسی معاملات آگے بڑھانے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوکر غیر سیاسی قوتوں کو دراندازی کے مواقع فراہم کیے گئے۔ یوں ملک آغاز ہی میں 9 سال تک آئین سے محروم رہا اور طاقتور حلقوں نے موقع غنیمت جان کر اقتدار کی راہداریوں میں اپنے ''بھاری قدم'' ایسے جمائے کہ آج تک چاپوں کی آواز سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہر دو فریق کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ '' غیبی آواز '' صرف انھی کی سماعتوں سے ٹکرائے اور '' ڈیل'' اور '' ڈھیل'' ہر دو طرح سے معاملات ان ہی کے ساتھ طے کیے جائیں۔

قومی سیاست میں ہم آج بھی ایسے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ آج کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی جو حکومت میں ہے، کے حوالے سے ایک دوسرے پر درپردہ ڈیل، ڈھیل اور خفیہ ملاقاتوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم کو اپوزیشن کی جانب سے طعنے دیے جاتے ہیں۔ جب کہ حکومتی وزرا و مشیران (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پر ڈیل اور ڈھیل کے الزامات لگا رہے ہیں اور بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ایک دوسرے کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ اور سازش قرار دیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن اتحاد تمام ترکوششوں کے باوجود حکومت گرانے کی تاریخوں پہ تاریخیں دینے کے بعد آج تک حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ بلاول بھٹو نے 27 فروری کو کراچی سے لانگ مارچ کا قافلہ لے کر اسلام آباد کی طرف جانے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے اگلے ماہ 23 مارچ کو لانگ مارچ کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ (ن) لیگ کہتی ہے کہ حکومت اب چند مہینوں اور ہفتوں کی نہیں بلکہ چند دنوں کی مہمان ہے۔ ادھر حکومت مطمئن کہ وہ پانچ سال پورے کرے گی۔ گھوڑا اور میدان دونوں حاضر ہیں۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی ساڑھے تین سالہ '' جدوجہد'' کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ''ہاتھ کنگن کو آرسی کیا'' وقت کے فیصلے کون جانے ''دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں