وہ جو ہم سے بچھڑ گئے
شفیع اللہ بھائی نے انتقال سے کچھ روز پہلے راقم کو بلایا اور ایک بجلی کا چھوٹا سا چولہا اورچند کتابیں راقم کے حوالے کیں
لاہور:
وہ جو غیر معروف تھے درحقیقت معروف تھے، ہم سے بچھڑ گئے۔ آج راقم ان لوگوں پہ قلم اٹھا رہا ہے۔
شفیع اللہ بھائی، عبدالغفار، سلیم اختر، سلیم بلوچ، یوسف پٹھان، الیاس راؤ، نجم الحسین، شمیم علی، تاج پشاوری، بشیر بھائی، نیاز احمد، ایوب بھائی، اسمٰعیل بروہی، مستانہ اقبال بلوچ، حافظ نور محمد، کامریڈ سلطان، مظفر عباس، پیکر نقوی، بیرسٹر عبدالودود، واحد مصیح ، شمس الحق، اعجاز خان، راجہ ریاض، اقبال رند، شیر نواب، جہانگیر آزاد، محمد احمد وارثی، محمد فصیح، اعجاز غنی، شرف علی، حمزہ آپا، محسن، خورشید آپا وغیرہ۔ شفیع اللہ بھائی شو ورکر یعنی موچی کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے اور شو مارکیٹ میں 20 گز کے مکان میں رہائش پذیر تھے، ان کی بیگم سر پر ٹوکرا لیے چوڑیاں بیچتی تھیں۔
شفیع اللہ بھائی نے انتقال سے کچھ روز پہلے راقم کو بلایا اور ایک بجلی کا چھوٹا سا چولہا اور چند کتابیں راقم کے حوالے کیں۔ خلوص کی انتہا کردی کہ وہ اپنی آخری ملکیت بھی ساتھیوں کے حوالے کرگئے۔ عبدالغفار بھائی دوا ساز کمپنی میں کام کرتے تھے۔ محنت کشوں کی جدوجہد میں غفار بھائی ان کی بیگم اور بچے پیش پیش ہوا کرتے تھے، ان کا گھر ایک طرح کا مزدوروں کا دفتر بن گیا تھا۔ سلیم اختر بھی شو مارکیٹ میں رہتے تھے۔ انھوں نے ساری زندگی محنت کشوں کے لیے جدوجہد کی۔
سلیم بلوچ لیاری نوجوان تحریک کے حوالے سے جانے جاتے تھے، وہ مشین ٹولز فیکٹری سے اس لیے ملازمت سے نکالے گئے کہ انھوں نے حمید بلوچ کی پھانسی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ یوسف پٹھان کھڈانیا آباد میں ایک جھگی نما گھر میں رہائش پذیر تھے۔ وہ کھڈا مچھلی مارکیٹ کے سامنے پھلوں کا ٹھیلا لگاتے تھے ۔ الیاس راؤ نے اورنگی کے محنت کشوں کو منظم کیا اورساری زندگی جدوجہد میں مصروف رہے۔ انھوں نے اپنے بچوں کی پسند کی شادی کروائی تاکہ مثال قائم رہے اور اس کے لیے اپنے والد کی قالین فیکٹری کی حصہ داری سے دست برداری کو بھی قبول کیا۔
1974 میں راقم کی الیاس راؤ سے ایمپریس مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو نیپ میں ہونے کا اعتراف کروایا جب کہ نجم الحسین کمیونسٹ پارٹی کے پرچم کے طور پر جانے جاتے تھے۔اورنگی ٹاؤن کے انتہائی متعصب ماحول میں بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ ان کا پورا گھر کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کرتا تھا۔ ان کے گھر پر بے شمار اجلاس ہوئے۔ ان کا بنیادی طور پر راجستھان سے تعلق تھا، وہ کے پی ٹی کے اسپتال میں کمپاؤنڈر کے طور پر مزدوری کرتے تھے۔ آج ان کا بیٹا ظفر کمیونسٹ اصولوں پر قائم ہے، ان کی اہلیہ ذہنی مریضہ تھیں، پورا گھر ان کی خدمت میں لگا رہا۔
گزشتہ برس میں ان کا انتقال ہو گیا۔ شمیم علی قصبہ کالونی اورنگی ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔ بنارس چوک پر ان کی دکان تھی۔ ایک بار انھیں نیشنل پروگریسو پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا تھا۔ ضمانت تو ضبط ہونا ہی تھی مگر انھوں نے علاقے میں ادھم مچا دیاتھا۔ تاج پشاوری جوتے بنانے کے مدور یعنی موچی تھے۔ ساتھیوں کو کم پیسوں میں پشاوری چپل بنا کے دیا کرتے تھے۔ تاج پشاوری نے ڈاکٹر تاج شہید، عزیز الرحمن اور عبدالہادی کاتب کے ساتھ مل کر فرنٹیئر کالونی میں جدوجہد کی۔ بشیر بھائی پاور لومز کے کارخانے میں مزدوری کرتے تھے۔ بڑے سرگرم اور باشعور ساتھی تھے۔ نیاز احمد نمائش پر ایک اسکول میں چپڑاسی تھے۔ وہ انتہائی دیانت دار اور مخلص ساتھی تھے۔
اذیت گاہ میں مجھ سے بھی زیادہ تشدد برداشت کیا۔ ایوب بھائی ہندکو زبان بولتے تھے، وہ سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ بعد میں نوکری چھوڑ کر ٹیلرنگ کا کام شروع کردیا تھا۔ چونکہ وہ نوکری چھوڑ کر کمیونسٹ ہوگئے، اس لیے گرفتاری کے بعد ان پر زیادہ تشدد کیا جاتا تھا۔ چوہدری اصغر ایڈووکیٹ اور دیگر ساتھیوں نے لاہور کی جیل میں ان سے ملاقات کے لیے گئے تو انھوں نے بتایا کہ ان کے سینے کے بالوں کو نوچا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کا نام زبیر رکھا تھا۔ اسمٰعیل بروہی حرناچی پاڑہ ماڑی پور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ محنت کش جمہوری محاذ ماڑی پور کے چیئرمین تھے۔
عبداللہ شاہ جب وزیر اعلیٰ سندھ تھے اور ماڑی پور کے دورے پر کچی آبادی کو مستقل کرنے کا اعلان کیا تو اسمٰعیل بروہی نے ان کا خیر مقدم کیا اور ماڑی پور کی نکاسی آب کو بحال کرنے کا مطالب بینر پر درج کرکے جلسہ گاہ میں لٹکا دیا تھا۔ اسمٰعیل بروہی نے اپنا تن، من، دہن محنت کشوں کے لیے موقف کردیا تھا۔ ماڑی پور میں بہت ہی مقبول تھے۔ مقبول جوکہ کچھی تھے اور اردو ادب میں ایم اے کرکے کرین آپریٹر کی نوکری کی اور یونین میں سرگرمی کی۔ مستانہ اقبال بلوچ کا بھی حرناچی پاڑہ ، ماڑی پور سے تعلق تھا۔ وہ بروہی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی، فارسی، سندھی اور اردو میں عبور رکھتے تھے۔
وہ 13 سال ایران میں تھے اس لیے فارسی اور اردو میں شاعری بھی کرتے تھے۔ ترنم میں انقلابی نغمے پڑھتے تھے۔ وہ سی مین، الیکٹریشن، ٹیلر ماسٹر اور پلمبری کا کام کرتے تھے۔ کامریڈ حافظ نور محمد جوکہ قرآن شریف کے حافظ تھے اور ناظم آباد میں 17 سال مسجد میں امامت کی۔ حافظ صاحب ہشت نگر کسان تحریک میں شامل تھے اور خود بھی مردان میں خانوں کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ کامریڈ سلطان کا لیاقت آباد سے تعلق تھا۔ بہت سرگرم ساتھی تھے، نوجوانی میں انتقال کرگئے۔ مظفر عباس کا بھی لیاقت آباد سے تعلق تھا بعد میں وہ مسلم ٹاؤن، یوسف گوٹھ، نیو کراچی میں منتقل ہوگئے۔
نیو کراچی میں سب سے زیادہ سرگرم کامریڈ تھے۔ انھیں بلڈ کینسر ہوا اور انتقال سے قبل راقم ان سے ملاقات کرتا رہا، ان کی اہلیہ حاملہ تھیں۔ مظفر عباس نے بیماری میں یہ کہا تھا کہ اگر لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام حسن ناصر رکھا جائے۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ پیکر نقوی خیرپور کے ہردلعزیز مزدور رہنما تھے۔ بعدازاں وہ کراچی پریس کلب کے صدر، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے۔ انھیں احترام کے طور پر صحافی پیر جی کہتے تھے۔ بیرسٹر عبدالودود کمیونسٹ پارٹی کراچی کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ نذیر عباسی کے وکیل بھی تھے۔
جب عدالت میں یہ اعلان ہوا کہ نذیر عباسی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا تو بیرسٹر سید عبدالودود نے کہا کہ می لارڈ اس ملک میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ اس سے قبل حسن ناصر شہید کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ واحد مصیح ہم سب کے بزرگ رہنما تھے۔ ان کا تعلق مزدور کسان پارٹی سے تھا۔ 80 سال کی عمر میں 1980 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ بہت مخلص اور ان کا محنت کش طبقے سے بے تحاشا لگاؤ تھا۔ شمس الحق سعودآباد ملیر میں رہائش پذیر تھے۔ وہ ساحر لدھیانوی کے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ ساری زندگی بحیثیت کمیونسٹ آدرش سے وابستہ رہے۔