روشن مثال
محکمہ تعلیم ویسے بھی کسی نہ کسی حوالے سے خبروں میں ان ہی رہتا ہے کبھی نتیجہ تو کبھی گھوسٹ نوکریاں
لاہور:
کہنے کو تو یہ چند سطروں کی خبر تھی لیکن اس میں بہت وزن تھا۔
دراصل ہمارے ہاں سرکاری اداروں کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ سوشل میڈیا پر افسران بالا کی میمز بنائی جاتی ہیں اور صاحب ہیں کہ کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، کرپشن کے بڑے بڑے کیس خبروں میں گرم ہیں اور مائیک سامنے آتے ہی ایمان داری کا ایسا خبرنامہ دیا جاتا ہے کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ سب جھوٹے اور جو یہ بول رہے ہیں کیا خوب بول رہے ہیں، سرکار کے ساتھ جڑے چھوٹے بڑے سارے عہدے کسی نہ کسی حیثیت میں مضبوط ہی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ سرکار شاہی کا بول بالا خوب پیٹا جاتا ہے۔
محکمہ تعلیم ویسے بھی کسی نہ کسی حوالے سے خبروں میں ان ہی رہتا ہے کبھی نتیجہ تو کبھی گھوسٹ نوکریاں۔ پھر گھوسٹ اسکول۔ اور پھر اونچے گریڈز کے لیے دھکم پیل الگ لیکن اس خبر نے ذرا ہلا کر رکھ دیا۔ سیکریٹری سندھ اسکول ایجوکیشن نے محکمہ تعلیم میں آنے والے نئے ڈائریکٹرز، ضلعی تعلیمی افسران، تعلقہ افسران، ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریس کے اعزاز میں خوش آمدید تقریبات یا ویلکم پارٹیز پر پابندی لگا دی۔
انھوں نے اس سلسلے میں ایک گشتی مراسلہ جاری کردیا ہے جس کے مطابق اس قسم کی تقریبات وقت، پیسے، قوت و وسائل کا ضیاع ہے۔ چنانچہ اب محکمہ اسکول ایجوکیشن میں افسران کے لیے کوئی خوش آمدید تقریب نہیں ہوگی اور نہ ہی اجرک اور تحائف دیے جائیں گے۔ غلام اکبر لغاری صاحب سخت احکامات اور اقدامات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
سیکریٹری سندھ اسکول ایجوکیشن کی طرح اگر تمام اداروں میں اسی طرح کے احکامات اور اقدامات کیے جائیں تو یقینا بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا۔ دراصل بڑے افسران اور اونچے گریڈز کے اساتذہ تو مالی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں لہٰذا اس قسم کی ویلکم پارٹیاں برداشت کر جاتے ہیں لیکن کم گریڈ کے ملازمین کے لیے یہ خوش آمدید تقریبات تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں اس لیے کہ انھیں اس قدر مہنگائی کے دور میں اسی تنخواہ میں سارا مہینہ چلانا ہوتا ہے جب کہ یہ تقریبات چندے کے اصول پر منعقد کی جاتی ہیں۔ اب اس چندے میں جتنا بھی حصے میں آئے ڈالنا پڑتا ہے اور بڑے افسران کے سامنے مسکراتے گلے میں ہار ڈالنا اور پھولوں کی پتیوں کو نچھاور کرکے اپنی دلی خوشی کا مظاہرہ بھی زبردستی کرنا پڑتا ہے۔
کچھ وقت کے لیے آنے والا بڑا افسر یا ڈائریکٹر حضرات بھول جاتے ہیں کہ بڑے اونچے گریڈز کے یہ مزے اور اس طرح وہ اپنی ذمے داریاں بھول جاتے ہیں کئی بار سنا گیا ہے کہ جتنی زیادہ اچھی خاطر داری کی جائے گی اتنا ہی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے میں آسانی رہے گی کیونکہ چائے بسکٹوں سے پیٹ اس قدر بھر دیا جاتا ہے کہ موصوف میں سرزنش کی جرأت ہی نہیں رہتی شاید ہمارے محکموں کی نااہلی کی وجہ یہ بھی ہے، فائلوں کے نیچے رشوت کے نوٹ چپکا کر آگے سرکا دینے کا عمل اسی طرح پروان چڑھتا ہے۔
اس سلسلے میں مشہور و معروف ڈپٹی نذیر احمد کا ذکر ضروری ہے۔ جنھوں نے اپنی زندگی کا آغاز ہی ایک ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا لیکن وہ جلد ہی ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے آپ نے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند کے نام سے کیا جو بہت مقبول ہوا اور اسی وجہ سے آپ کو صلے میں پہلے تحصیل دار اور پھر ڈپٹی کلکٹر بنا دیا گیا۔ 1897 میں حکومت نے انھیں شمس العلما کا خطاب دیا۔ 1902 میں آپ نے ایڈنبرا یونیورسٹی سے ایل ایل ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1910 میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی او ایل کی ڈگری دی۔ آپ کا انتقال 1912 میں ہوا۔ آج بھی تعزیرات ہند استعمال ہو رہا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کے دور ملازمت پر نظر ڈالیے تو وہ انگریز حکومت کا تھا جب مسلمان تعلیمی شعائر سے بے خبر اور خاص کر خواتین کے لیے تو قرآن پاک پڑھ لینا ہی بہت سمجھا جاتا تھا لیکن ڈپٹی نذیر احمد نے اس دور میں خواتین اور خاص کر لڑکیوں کے لیے تعلیم کو اس قدر اہمیت دی کہ جب انھوں نے قلم اٹھایا تو اپنی ناول نگاری میں انھی موضوعات پر کھل کر لکھا۔ ان کا پہلا ناول ''مراۃ العروس'' 1869 میں آیا اور اس ناول پر آپ کو حکومت وقت سے انعام بھی ملا کیونکہ یہ ناول خواتین کی تعلیم و تربیت سے متعلق تھا جس میں دو کردار اصغری اور اکبری کو خواتین کے دو مختلف رخ یعنی اصغری ایک اچھا نسوانی ماڈل اور اکبری ایک خامیوں سے پُر ماڈل ابھرتے ہیں اور زور اس بات پر دیا گیا کہ تعلیم نے اصغری کی سوچ کو نکھار دیا اور وہ اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو لے کر آگے بڑھ گئی جب کہ اکبری تعلیم کی محرومی کے باعث جہالت کے اندھیروں میں اترگئی اور اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے مسائل کھڑے کردیے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عورت پر ناقص العقل کا ٹھپہ لگا تھا۔ ایک استاد ہونے کے ساتھ ترقی کی منزلیں عبور کرتے ڈپٹی نذیر احمد نے اس دور کی عورت سے نامعقول اور کم فہمی کے لیبل اتارے اور انھیں شعور دیا کہ خواتین کے لیے تعلیم اسی طرح ضروری ہے کہ جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہے۔ اس پر مستزاد پبلک انسٹرکشن کے ڈائریکٹر میتھیو کیمپس نے ناول پر اپنی تفریظ میں اس کے تعلیم و تربیت اور مستقبل میں اس کے مشہور ہونے کی نوید دی۔
انیسویں صدی میں تعلیمی لحاظ سے ہونے والی تبدیلیوں نے مسلمان معاشرے میں بھی نئے رجحان پیدا کیے جہاں ڈپٹی نذیر احمد جیسے بڑے قلم کار، مفکر اور تعلیم دان کا ذکر کرنا ضروری تھا آج کے معاشرے میں خواتین کس قدر ترقی کر رہی ہیں، کہیں عدالتوں میں اعلیٰ مقام حاصل کر رہی ہیں تو کہیں جیٹ فائٹر طیارے چلا رہی ہیں یہ سب بلاشبہ تعلیم کے شعبے کی ہی بدولت ہے۔
محکمہ تعلیم صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں نہایت اہمیت کا حامل ہے جہاں سے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی ترقی کے مینارے بناتے ہیں آج کے چھوتے چھوتے معصوم بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کی حفاظت کرنا ہے ہماری مائیں بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ہوتی ہیں اور ان کے لیے تعلیمی شعور بہت ضروری ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے خواتین کی تعلیم اور بچوں کی تربیت کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ وہ لکھتے ہیں ''مائیں تو باتوں باتوں میں وہ سکھا سکتی ہیں جو استاد برسوں کی تعلیم میں بھی نہیں سکھا سکتا۔''
غلام اکبر لغاری صاحب آپ کو سلیوٹ! یقینا آپ نے اپنی پہلی درس گاہ سے بہت کچھ اچھا ہی سیکھا ہوگا۔ امید ہے کہ دوسرے بھی اسی طرح کی روشن مثال ضرور قائم کریں گے۔