آئی ایم ایف اور غریب ممالک
اگر پاکستان کے حکمران واقعی ملک کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا
RAWALPINDI:
برٹن ووڈذ کانفرنس' جس کو عام طور پر' (United Nations Monetry and financial Conference) کہا جاتا ہے' یہ کانفرنس جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے وقت 1944میں 1-22جولائی کو امریکی ریاست نیو ہمپشائر کے شہر' برٹن ووڈز کے مائونٹ واشنگٹن ہوٹل میں منعقد ہوئی' کانفرنس میںاتحادی ممالک اور ان کے حمایتی 44ممالک کے 730مندوبین شریک ہوئے۔
اس کانفرنس کا مقصد دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر نئی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کو تیار کرنا تھا' بنیادی مسئلہ سامراجی طاقتوں کو یہ درپیش تھا کہ جنگ عظیم کی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں' برطانیہ' فرانس' جرمنی' ہالینڈ اور اٹلی کی طاقت ختم ہو چکی تھی اوروہ اپنے زیر قبضہ نوآبادیات کو مزید غلام نہیں رکھ سکتے تھے' اب مسئلہ یہ تھا کہ ان نوآبادیات کو آزادی تو دینی تھی لیکن آزادی کے بعد ان کو معاشی طور پر کیسے پابند رکھا جائے' اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ایک ایسے عالمی اداروں اور نظام کا قیام تھا جو تیسری دنیا کے ممالک کو معاشی طور پر سامراجی طاقتوں کے کنٹرول میں رکھ سکے۔
پاکستان کے حکمران آج تک نہیں سمجھ سکے یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے کہ آئی ایم ایف کا ادارہ کسی کی دوستی اور اس پر رحم کھانے کے لیے نہیں بنایا گیا' برٹن ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں قائم تمام ادارے اور معاشی پالیسیاں صرف سامراجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں 'آئیے آج ذرا IMFکی طرف سے پاکستان کی امداد پر ایک نظر ڈالیں۔
IMFکا پہلا مطالبہ یہ ہوتاہے کہ حکومت کو زیادہ ٹیکس لگانے چاہیے تاکہ پبلک سیکٹر میں اخراجات کے لیے زیادہ سرمایہ جمع ہوسکے' افراط زر کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف سخت اقتصادی پالیسیوں کو لاگو کرنے کی تلقین کرتی ہے' جس کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہوجاتا ہے' نتیجے میں کاروبار ی سرگرمیاں سکڑجاتی ہیں' اس طرح افراط زر اور بھی بڑھ جاتا ہے' IMF کے ماہرین کے ہاں یہ خیال عام ہے کہ افراط زر میں کمی کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ترقی کے لیے افراط زر کی شرح کوئی معیار نہیں ہے۔
IMFاپنی امداد کے ساتھ جو دوسری شرائط عائدکرتا ہے' ان میں آزادانہ تجارت اور پرائیوٹائیزیشن پر زور دیا جاتا ہے' یہ دونوں شرائط غریب ممالک کی معاشیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر تجارت کو آزاد کیا جائے تو اس سے معاشی صورت حال میں استحکام آجاتا ہے' ایک بڑا جھوٹ اور افسانہ ہے' جب یہ ممالک تجارت میں آزادانہ پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان ممالک کا استحصال بہت آسان ہوجاتا ہے۔
IMF غریب اور ترقی پذیر ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ آزادانہ تجارت کے لیے اپنی سرحدیں کھول دے 'اس پالیسی کے اثرات ترقی پذیر ممالک کی زراعت' ماحولیات اور افرادی قوت پر منفی پڑتے ہیں'یہ پالیسی ایک استحصالی پالیسی ہے 'جس وقت بھی ترقی پذیر ممالک اپنی سرحدیں تجارت کے لیے کھولتے ہیں' سب سے پہلے سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی مارکیٹوں پر قبضہ کرلیتی ہیں۔
بیرونی سرمایے پر زیادہ انحصار بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ' بیرونی قرضدار کبھی بھی کسی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے ' مقامی صنعت تباہ ہوجاتی اور ملک بیرونی اشیاء کی منڈی بن جاتا ہے۔آج کل پاکستان چین اور دیگر ممالک کے مال کی مارکیٹ بن چکی ہے اور اپنے ملک کی صنعت ختم ہو چکی ہے۔
پاکستان آج کل خطرناک حد تک قرضوں میں دھنسا ہوا ہے 'سرمایہ داری نظام کے نئے وکلاء جو ''Neo liberals'' کہلاتے ہیں 'ان کے ایک دانشور Milton Friedmanاس نظام کے حق میں ٹریکل ڈائون کا فلسفہ پیش کرتے ہیں'اس فلسفے کے مطابق سرمایہ دار انہ نظام میں یہ خوبی موجود ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جیسے جیسے دولت بڑھتی ہے اس کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو منتقل ہوتا رہتا ہے ' جب ملک میں سرمایہ دار کے پاس دولت زیادہ ہوجائے تو اس کا بہائو غریب طبقوں کی طرف ہوجاتا ہے 'یوں پورے معاشرے میں دولت پھیل جاتی ہے اور عالمی سطح پر بھی غریب ممالک میں دولت کا پھیلائو بڑھ جاتا ہے 'ابھی تک تو پاکستان میں یہ نظریہ ناکام نظر آتا ہے ۔
سرمایہ داری نظام کے پیشوا حضرات نے کسی ملک کی اقتصادی صورت حال بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی اصلاحات کے اصول طے کیے ہیں 'ان میں موثر مالیاتی نظام چلانے والے ادارے'امن و امان 'سرمایے کا تحفظ'مضبوط قانونی اور انتظامی ادارے'قانون کی سختی سے عمل داری 'ملک کی مقامی صنعتوں کو تحفظ اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی نظام جس کی قیادت واقعی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی خواہشمند ہو۔
اگر پاکستان کے حکمران واقعی ملک کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا ۔طرز حکمرانی تبدیل کریں'کرپشن روکنے کے لیے ریاستی اداروں کے سربراہان، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر اہم عہدوں کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات ختم کرنا ہوں اور کرپشن روکنے کے لیے قوانین کو ابہام سے پاک کرنا ہوگا۔ عمران خان کو شوکت ترین جیسے وزیر خزانہ کی تلاش تھی'جب سے وزیر بنا ہے کوئی دن مہنگائی اور ٹیکس میں اضافے کے بغیر نہیں گزرتا'ویل ڈن ترین صاحب'وزیر اعظم کو خوش کردیا۔
ہر روز صبح اٹھ کریا رات کو سوتے وقت خبروں کی سرخیاں ضرور سنتا ہوں،ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ حکومت کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ کرتی ہو'تحریک انصاف کی تو حکومت ہے لیکن اس کے ساتھ'باپ پارٹی'شیخ رشید 'مسلم لیگ (ق ) 'جی ڈی اے 'اور متحدہ قومی مومنٹ بھی بطور اتحادی کے اس مہنگائی کے سونامی لانے میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی اخباری بیانات کے سوا اس مسئلے پر عملی اقدام سے گریزاں رہتی ہیں۔
حکومت بڑے مزے سے قیمتوں میں اضافے پر اضافہ کر رہی ہے آج تک کبھی بھی اسمبلی میں اس مسئلے پر کوئی ٹھوس بات یا واک آئوٹ نہ ہوسکا۔ خبر آئی ہے کہ نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے 'صوبے کے نام کی تبدیلی پر جشن منانے والوں سے فریاد ہے کہ پختونوں کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کیا 18ویں ترمیم کے بعد بھی ہماری پیداکردہ سستی بجلی ہماری قسمت میں نہیں ہے' آخر اس ترمیم کا فائدہ کیا ہوا؟۔