سیاسی مکالمہ ناگزیر ہے
بدقسمتی سے جب بھی اصلاحات لانے کی بات کی جاتی ہے تو نظام میں موجود طاقت ور طبقے اور مافیا سامنے آتا ہے
RAWALPINDI:
سیاست اور جمہوریت میں ہمیشہ سے مکالمہ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کے حل کی طرف لے کر جاتا ہے ۔مکالمہ بنیادی طور پر ایسے فریقین کے درمیان ہوتا ہے جو ایک ہی مسئلہ پر مختلف سوچ، فکر او رخیالات رکھتے ہیں۔
پاکستان اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے ۔ اس ملک کو مکالمہ یا مشاورت اور اصلاحات کے سیاسی ایجنڈے کی ضرورت ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بگاڑ کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں بلکہ تمام شعبہ جات میں ہے اور مکالمہ کی جگہ انتہا پسندی نے لے لی ہے ۔ سیاسی ، سماجی ، لسانی او رمذہبی تعصب نمایاں ہوجاتا ہے ۔
بدقسمتی سے جب بھی اصلاحات لانے کی بات کی جاتی ہے تو نظام میں موجود طاقت ور طبقے اور مافیا سامنے آتا ہے ۔ یہ لوگ آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ اپنے ذاتی مفاد کو بنیاد بنا کر اصلاحات کے عمل کو بھی روکتے ہیں او رجہاں مکالمہ درکار ہوتا ہے وہیں یہ ہی طبقہ مکالمہ کا راستہ بند کرکے محاز آرائی کا دروازہ کھول دیتے ہیں ۔اس وقت ہمیں پانچ بنیادی باتوں پر مکالمہ یا مشاورت کی مدد سے ایک بڑے اصلاحاتی ایجنڈے کو اپنی سوچ او رفکر کا حصہ بنانا ہوگا ۔ اول عدالتی یا انصاف کے نظام میں، دوئم بیوروکریسی میں ادارہ جاتی سطح پر، سوئم ایف بی آر کی سطح پر ، چہارم شفاف معاشی پالیسیوں کی سطح پر ، پنجم حکمرانی یعنی گورننس کے نظام کی سطح ۔
سب سے بڑا المیہ اس سیاسی نظام میں پارلیمنٹ جیسے اہم ادارے کی بے توقیری او رعدم شفافیت کی ہے ۔ یہ پارلیمنٹ لوگوں یا قومی سطح کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بجائے ایک بڑی سیاسی تقسیم ، ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا ، محازآرائی کا مرکز ، الزام تراشیوں اور کردار کشی کا میدان بن گیا ہے ۔وزیر اعظم ، قائد حزب اختلاف، وفاقی وزرا او راہم راہنماوں کی سطح پر پارلیمان میں عدم شرکت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا پارلیمانی نظام اپنی افادیت میں کہاں کھڑا ہے۔
جب مکالمہ پارلیمنٹ کی سطح پر ہی نہیں کیا جائے گا تو باقی اداروں کی سطح پر او رزیادہ بگاڑ دیکھنے کو ملے گا۔ اسی طرح پارلیمنٹ سے باہر جو لوگ سیاسی ، سماجی ، قانونی او رمعاشی نظام میں اصلاحات پر کام کررہے ہیں او ران کے پاس متبادل پروگرام بھی ہے ان کا اور پارلیمان کے درمیان جو خلا یا بداعتمادی ہے وہ بھی فریقین میں مکالمہ کو روکنے کا سبب بنتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر وہ فریق جو طاقت رکھتا ہے، مکالمہ کی اہمیت پر بات بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں مکالمہ کی طرف جانا ہوگا ۔لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور دوسرا اگر مکالمہ نہیں کیا جارہا تو اس کے ذمے دار کون ہیں اور کیوں وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اصل میں یہاں جو بڑے طاقت ور طبقات ہیں وہ عملی طور پر مکالمہ او راس کی بنیاد پر کسی مثبت نتیجے پر پہنچے کو اپنے لیے یا اپنے مفادات کے لیے زیادہ بڑا خطرہ سمجھتے ہیں ۔ اس لیے پہلے اس امر کی نشاندہی کی جائے کہ تمام فریقین کی سطح پر وہ کون لوگ ہیں جو مکالمہ میں ڈیڈ لاک کو پیدا کرنا اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں ۔کیونکہ جو لوگ یا ادارے بھی ڈیڈ لاک پیدا کرنے کے حامی ہیں پہلے ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے نکالنا ہوگا ۔
طاقت کے مراکز سمیت سیاسی فریقین میں محاز آرائی کے مقابلے میں مکالمہ او راس کی بنیاد پر معاشرے کی اصلاحات کا عمل اسی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے جب معاشرے میں موجود رائے عامہ کی تشکیل سے جڑے افراد او رادارے ریاست ، حکومت اور سیاسی بالادست قوتوں سمیت دیگر اداروں پر ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کریں۔ ہمارے سیاست دان ، سیاسی کارکن ، صحافی ، دانشور، تجزیہ کار ، استاد ، شاعر، ادیب ، مصنف، تاجر ، وکلا، علمائے کرام ، سول سوسائٹی سب ہی ایک پرامن سیاسی اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایسی مزاحمت پیدا کریں جو طاقت ور طبقات کو دباو میں لاسکے۔
اسی طرح ان طبقوں کی یہ ذمے داری بھی بنتی ہے کہ وہ سیاسی شخصیات کی بے جا پوجا پرستی اور اندھا دھند محبت کی پالیسی سے گریز کرکے اچھے او ربرے کے پہلو کو خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں کہ ان کا سیاسی ، سماجی شعور میں تبدیلی کا مثبت عمل ہی معاشرے کو ایک مہذب، ذمے دار ، شفاف اور لوگوں کے مفادات کے ساتھ جوڑ سکتا ہے ۔