خان صاحب اور بیانیہ
خان صاحب نے ایک تو صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا، انھوں نے طالبان والا بھی شوشا چھوڑا
ISLAMABAD:
تو خان صاحب بھی ناراض ہوگئے، کل جو لوگ صوفے پے بیٹھتے تھے، آج ان کو کرسی پر بٹھا دیا۔ سوال یہ ہے کہ کل کیوں پھر وہ صوفے پر بیٹھتے تھے ؟آج کیوں ان کو کرسی نصیب ہوئی۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اس کی آئینی، اخلاقی و اصولی پوزیشن کیا ہے۔ پاور کے اندر جو شفٹ ہے کیا ہمارے خان صاحب کا اتنا وزن ہے کہ وہ خود کو اس بحران سے نکال سکیں گے؟
بحران تو ہے بلکہ سنگین بحران ہے۔ لوگوں نے دفاتر میں کام کرنا چھوڑ دیا ہے، سب کو جیسے نیند آگئی ہے۔ جس کی ایک مثال مری کی حالیہ برف باری میں انتظامیہ کا غائب ہونا ہے۔ پورے ملک میں مارکیٹ سے اشیاء یوں غائب ہوجاتی ہیں جس طرح مری سے غائب ہوگئی تھیں۔ مختصر یہ کہ بری حکمرانی نے جو جنم لیا وہ کہاں سے لیا؟ تحقیق بتاتی ہے ، اور یہ بات تو خود خان صاحب بھی کہتے رہے ہیں کہ کرپشن اور بری حکمرانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اور اب تو ٹرانسپرنیسی انٹرنیشنل نے بھی اس بات پر مہر لگادی۔
خود خان صاحب نے اپنی حکومت کی ناکامی بھی شہزاد اکبر کو فارغ کرکے مان لی کہ جو ان کا اہم ایجنڈا تھا کرپشن کے ذریعے باہر گیا ، پیسہ واپس لائیں گے۔ اس کے برعکس لینے کے دینے پڑ گئے ۔ خیبر پختونخوا میں جو پل دو برس پہلے بنے تھے، وہ بھی گر رہے تھے۔ ایک بھی ایسا کام نہیں جو یہ حکومت گنوا سکے۔ سوائے مہنگائی میں شدید ترین اضافہ کہ دو ماہ قبل اکانومسٹ کے مہنگائی والے انڈیکس پر دنیا میںمہنگائی کے حوالے سے جو بدترین متاثر ممالک تھے، ان میں ہم چوتھے نمبر پر تھے، آج ہم تیسرے بد ترین متاثرین مہنگائی ہیں۔
ایک طویل بیانیہ ہے جنرل ضیاء الحق سے پہلے اور جنرل ضیاء الحق کے بعد بنا ۔ اس بیانیہ پر ایک بیانیہ مشرقی پاکستان کا بھی تھا ۔ اس سے پہلے ایک بیانیہ گورنر غلام محمد کا بھی دیا ہوا تھا۔ لب لباب یہ تھا جو باہر سے حملہ آور تھے وہ ہمارے بچوں کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں ان کو ہیرو دکھایا گیا ہے اور جو ہمارے مقامی ہیرو تھے جو ان حملہ آوروں کے ساتھ لڑے، ان کو غاصب یا ولن دکھایا گیا ہے، ایک ایسی تاریخ ترتیب دی جو ان چار اکائیوں کے ثقافت سے ٹکرائو میں تھی۔
بنگالی اس بات پر شدید نالاں ہوئے اور بلاخر 1971 کا سانحہ پیدا ہوا۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس سے نواز شریف ، بلاول بھٹو دور بھاگنے کے چکر میں ہیں جب کہ خان صاحب نے تو حد پار کردی کہ وہ جنرل ضیاء الحق کا بیانیہ لے کے آگے آرہے ہیں،جس بیانیہ کی روح اقتدار پرزبردستی قبضہ کرنا ہے ، زبر دستی بیٹھ جانا ہے۔
خیر ہم اس بیانیہ سے اتنا جلدی نہیں نکل سکتے ،نہ تاریخ کو درست طریقے سے استوار کرسکتے ہیں ، نہ بلھے شاہ، سلطان باہو، فرید، سچل، بھٹائی کو اپنا ہیرو مان سکتے ہیں ، بھلے وہ غیر سرکاری طور پے آج بھی عوام میں ہیروز مانے جاتے ہیں۔ ہمیں کچھ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان سے پہلے بلوچوں کے ہیروز کون تھے، پختونوں کے ہیروز کون تھے ، کون تھے سندھ میں ،کون تھے پنجاب میں ۔ اب نہ صرف ہماری بنائی ہوئی تاریخ ہمارے گلے میں پڑ گئی ہے بلکہ ، محب وطن ہونے والا پورا بیانیہ اور یہ بھی کہ ہمارا دوست کون ہے، ہمارا دشمن کون ہے، یعنی نیشنل سیکیورٹی والا بیانیہ۔ اس پر تو ہم بحث بعد میں کریں گے۔
لیکن آج تک جس بیانیہ سے ہم کراچی کو چلانا چاہتے تھے وہ نہیں چل رہا ہے۔ یہ مہاجر لوگ سندھ کے سپوت ہیں اور ان کو سندھ کے وشال کوزے میں سمانے دیجیے اس طرح تاریخ میں ہوتا آیا ہے اور یہی روایت ہے۔ یہ باور کروانا کہ ان کی ثقافت بہتر ہے اور سندھ کی ثقافت غلامانہ ہے سے آپ سندھ میں خود ایک خلا پیدا کرنے جارہے ہیں ۔
کبھی خان صاحب طالبان کے پاس پہنچ جاتے ہیں کبھی ارطغل کے پاس تو کبھی محمود غزنوی وغیرہ کے پاس۔ سندھ کے لوگ محمد بن قاسم کو یا حجاج بن یوسف کو ہیرو نہیں مانتے ہیں،جو ان کا ثقافت کا دن ہے جو سیکیولر و صوفی مزاج والا ہے وہ کہاں سے پیدا ہوا۔ وہ اس لیے پیدا ہوا جب کسی صحافی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر سندھی ٹوپی کا مذاق اڑایا کیوں کہ اس وقت کے صدر پاکستان یہ ٹوپی پہن کو بیرونی دورے پر جاتے تھے ،یہ جھگڑ ابیانیہ کا تھا ۔ آج اس ٹوپی پر کراچی کی سیاست کرنے والے ایک سیاستدان نے طنز کیا، اس سے ان کا ہدف پورا ہوا کہ دیہی سندھ کے باسیوں نے سندھی ٹوپی پہننا شروع کردی۔
اچھا ہوا یہ ٹوپی ہمارے شہری سندھ کے بھائی مرتضیٰ وہاب نے پہن کر اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ یہ جو اردو بولنے والے ہیں ، وہ سندھ کے اردو بولنے والے سندھی ہیں، ان کا اس سر زمین پر اتنا ہی حق ہے جتنا سندھی بولنے والے سندھیوں کا ہے۔ باقی جو سندھ میں پنجاب، خیبر پختونخوا والے وغیرہ ہیں ان کے اپنے گائوں والے علاقے ہیں وہ عید وں میں ادھرجاتے ہیں ، مگر اردو بولنے والے یا سندھی بولنے والے یہیں سندھ میں ہوتے ہیں ان کے سب گھر بار وغیرہ یہیں ہیں۔
خان صاحب نے ایک تو صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا، انھوں نے طالبان والا بھی شوشا چھوڑا اور جاتے جاتے جنرل ضیاء الحق والا پیدا کردہ سندھ میں اربن اور دیہی سندھ والا بھی۔ سیاست کتنی مفاد پرست ہوتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے حد سے گذر جاتے ہیں۔ ہمارے شرفاء اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ بات بوائلنگ پوائنٹ پر پہنچ چکی ہے۔ خان صاحب پھنس چکے ہیں، انھوں نے باتوں سے ہی تین سال نکال لیے ہیں ، ان باتوں سے اب نہ صرف باقی ماندہ ڈیڑھ دو سال نکالے جاسکتے ہیں ، نہ اس پارٹی کا کوئی اب مستقبل ہے۔