صرف میرٹ کی رَٹ نے تعلیم کے حقیقی مقاصد کومتاثرکیا

نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہ ملیں تو تعلیم دہشت گردی اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی


Rana Naseem February 16, 2014
انتظامی مصروفیات کے باوجود کلاسز پڑھاتا ہوں:وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی پروفیسرخلیق الرحمن کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

گورنمنٹ کالج لاہورکے بارے میں اشفاق احمد نے کہا تھا کہ '' میں اور بانو قدسیہ گورنمنٹ کالج کو درسگاہ نہیں مانتے، اس میں ''سین'' کا حرف وافر ہے''۔ یعنی یہ درسگاہ نہیں درگاہ ہے اور اس درگاہ سے فیض یاب ہونے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنا مقام بنایا۔

اس ادارہ کی کامیابیوں میں اس کے سربراہوں نے جو کردار ادا کیا، اگر اسے نہ سراہا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ جی سی یو خوش قسمت ہے کہ اسے ہر دور میں مخلص اور قابل سربراہوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ جامعہ کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمن بھی ایک نامور ماہر طبیعات ہیں، جنہوں نے مانچسٹر یونیورسٹی برطانیہ سے 1987ء پی ایچ ڈی کی۔ ان کے 100سے زائد مقالہ جات بین الاقوامی شہرت یافتہ جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ صدر پاکستان کی جانب سے اعلیٰ صدارتی ایوارڈ ''اعزازِ کمال'' حاصل کر چکے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ برائے 2008ء عطاکیا۔ حکومت برطانیہ کی جانب سے او آر ایس ایوارڈ حاصل کیا۔

پاکستان انسٹیٹیو ٹ آف فزکس نے پاکستان میں فزکس کی ترویج کے لے ان کی خدمات کے اعتراف میں طلائی تمغہ سے نوازا۔2010-11ء میں ڈاکٹر محمد خلیق الرحمن کی تحقیق کو عالمی سطح پر اس قدر پذیرائی ملی کی، انہیں پاکستان سائنس فائونڈیشن نے پاکستان کے بہترین ماہرِ طبیعات کے اعزاز سے نوازا۔ بطور وائس چانسلر اپنی انتظامی مصروفیات کے باوجود وہ آج بھی تدریس اور تحقیق کی عمل سے وابستہ ہیں اور جب 2013ء میں پاکستان قونصل برائے سائنس وٹیکنالوجی نے جی سی یو کے 23 بہترین اساتذہ کو ان کی اعلیٰ تحقیق کے لئے ریسرچ پروڈکٹیویٹی ایوارڈ سے نوازا تو ان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمن کا نام سرِ فہرست تھا۔ ڈیڑھ سو سال قبل وجود میں آنے والی عظیم درسگاہ جی سی یو کی موجودہ کارگزاری کا احاطہ اور شعبہ تعلیم سے متعلق قیمتی آراء جاننے کے لئے ''ایکسپریس'' نے پروفیسر ڈاکٹر خلیق الرحمن کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔

ایکسپریس: پاکستان کے نظام تعلیم کے پست معیار کا ذمہ دار کون ہے، حکومت، استاد، شاگرد یا والدین؟

پروفیسر خلیق الرحمن: دیکھیں جی! یہ سوال اتنا سادہ نہیں بلکہ بہت پیچیدہ ہے۔ میرے خیال میں کوئی ایک حلقہ اس کا ذمہ دار نہیں۔ استاد بھی استاد نہیں رہا اور حکومت، طالب علم، والدین نے بھی اپنی حقیقی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ ماضی میں جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت تھا، جب یہاں پرائمری اسکول کے استاد کو بھی ماسٹر صاحب کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ لیکن پھر جب اقدار بدلیں تو ماسٹر جی، اوئے ماسٹر بن گیا اور معاشرے کے تمام طبقات نے استاد کو اہمیت دینا چھوڑ دی۔ استاد کو معاشی ابتری کی جانب دھکیل دیا گیا۔ تعلیمی پالیسیاں بنیں، میں یہ نہیں کہتا کہ تعلیمی پالیسیاں غلط تھیں، لیکن افسوس! ان پر مکمل عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ ایک پالیسی اگر آج آئی تو کل آنے والے حکمران نے اسے سرد خانے میں ڈال کر اپنی نئی پالیسی متعارف کروادی۔ اس دوران نئے نئے نظام تعلیم آنے لگے، او لیول، اے لیول، انگلش میڈیم وغیرہ وغیرہ نے قوم کو مختلف طبقات میں بانٹ دیا۔ پھر یہیں سے ٹیویشن ازم نے بھی جنم لیا۔ ہاں ایک اور چیز جس نے حقیقی نظام تعلیم اور مقاصد تعلیم کو متاثر کیا وہ ''میرٹ، میرٹ'' کی رٹ تھی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں نے صرف زیادہ نمبروں کے حصول کو اپنا ٹارگٹ بنالیا۔

 photo Pic_zps272c2023.jpg

ایکسپریس: یکساں نظام و نصاب تعلیم کے دعوے صرف نعرے ہیں یا یہ کبھی حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے ہیں؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو یکساں نظام تعلیم کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں؟

پروفیسر خلیق الرحمن: ملائیشیا، سنگاپور ساتھ ساتھ ہیں، اسی طرح جرمنی، فرانس، ہالینڈ سکاٹ لینڈ سارے ہمسایہ ملک ہیں، لیکن ان سب کا اپنا اور الگ نظام تعلیم ہے، وہاں کوئی او لیول یا اے لیول نہیں ہے اور وہ کامیاب بھی ہیں۔ اور اب تو بھارت نے بھی یکساں نظام تعلیم نافذ کر دیا ہے۔ یکساں نظام تعلیم ممکن ہے اور یہ صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ضروری ہے۔ یکساں نظام تعلیم میں رکاوٹ ڈالنے والوں میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے تعلیمی ادارے بنائے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ادارے چلنے چاہئیں۔ اگر نظام ایک ہو گیا تو وہ کیا کریں گے، تنوع کہاں سے آئے گا؟ پرائیویٹ ادارے اس مقصد کی راہ میں بہت بڑا خطرہ اور رکاوٹ ہے۔ پھر کسی نے سوچا کہ مجھے اچھی نوکری ملنی چاہیے۔ کسی کو فکر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غریب کے بچے بھاڑ میں جائیں، لیکن میرا بچہ اچھے ادارے میں پڑھنا چاہیے۔

ایکسپریس:غربت، اخلاقی انحطاط، دہشت گردی جیسے بڑے مسائل کے حل میں تعلیم کو کیسے موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

پروفیسر خلیق الرحمن : یہ وہ بڑے مسائل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کا حل صرف تعلیم دینے میں پنہاں نہیں ہے۔ تعلیم ایک باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ دینی چاہیے۔ کیوں کہ جب تک آپ ملازمت اور دیگر روزگار کے ذرائع پیدا نہیں کریں گے، نوجوان کو مواقع نہیں فراہم کریں گے، تو پڑھا لکھا بھی دہشت گرد بن سکتا ہے۔ انجینئر، ڈاکٹر اور ایم اے پاس کے ہاتھ میں اچھا روزگار ہی نہیں تو وہ کیا کرے گا؟۔ تعلیم کی اپنی اہمیت ہے، مگر اس سے مکمل استفادہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم لوگوں کو خوشحال زندگی کے مواقع فراہم نہیں کرتے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے دہشتگردی ہونا شروع ہوئی یا اس میں اضافہ ہوا۔ پہلے دہشت گردی نہیں تھی کیا اس وقت ہم بہت پڑھے لکھے تھے۔ دہشتگردی جیسے مسائل کے حل میں تعلیم اسی وقت اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے جب آپ پڑھے لکھے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقعوں کا بھی بندوبست کریں۔ نوجوان کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر تعلیم دہشت گردی، اخلاقی انحطاط اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

ایکسپریس: وائس چانسلرز کے اختیارات میں کمی کرنے کے اقدام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

پروفیسر خلیق الرحمن : میرے خیال میں یہ درست نہیں، ہمیں اس اقدام کا اس وقت پتہ چلا جب یہ قانون بن گیا۔ دیکھیں! یونیورسٹی تعلیم و تربیت کا بہت بڑا مرکز ہوتا ہے اور وائس چانسلرز بین الاقوامی شہرت یافتہ، وسیع تجربے کے حامل لوگ ہوتے ہیں، اس فیصلے پر انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ میں اب بھی امید کرتا ہوں کہ ہمارے چیف منسٹر اس بات پر خصوصی توجہ دیں گے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی بہتر حل نکل آئے۔ بھرتیوں کے معاملات پر جو شور مچایا جاتا ہے، اس بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جب ہم باقی معاملوں میں یورپ کی مثالیں لیتے ہیں تو پھر یہاں کیوں نہیں؟۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ وی سی کو بالکل آزاد کر دیں، آپ وی سی پر چیک رکھیں اس سے پوچھیں کہ اس کے ادارے کی کارکردگی کیا رہی۔ اس کی رینکنگ کیا بنی، ریسرچ پیپر کتنے شائع ہوئے۔ لیکن یہ سب کچھ آپ تب کر سکتے ہیں جب اسے اختیار دیں گے۔

ایکسپریس: وطن عزیز میں مہنگی تعلیم اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ آج تعلیم کے حصول کو امراء کی عیاشی کا نام تک دیا جا رہا ہے۔ اور ایک تاثر یہ ہے کہ سرکاری کالج سے خودمختار ہونے پر یہ ادارہ بھی غریب طلبہ کی پہنچ سے دور ہو رہا ہے۔

پروفیسر خلیق الرحمن : تقریباً تین سال قبل جب سے میں نے یہاں کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو فیس بڑھانے کے بجائے 30 فیصد ان میں کمی کردی حالانکہ ہر ادارے نے مہنگائی بڑھنے پر فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ تاہم یہاں ایک دو پروگرام ایسے ہیں، جو کمرشل ہیں اور ان پر ہمارا اختیار نہیں، وہ مجھ سے پہلے کے چل رہے ہیں اور ان کی یہ ڈیمانڈ ہے، مثلاً مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہے، جہاں عام بندہ جانے کا نہیں سوچ سکتا کیوں کہ وہاں جو ماہرین آتے ہیں وہ بہت زیادہ فیس لیتے ہیں، کیوںکہ وہ مینجمنٹ کے بندے ہوتے ہیں تو اس میں ہم کیا کریں؟ اس کے علاوہ تو ہماری فیس اتنی ہے ہی نہیں۔ ہاں میں اس بات کو مانتا ہوں تعلیم مہنگی ہو رہی ہے جو کہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے لئے میں نے کچھ اقدامات بھی کئے ہیں جیسے ہم نے گزشتہ سال اپنے ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے پونے تین کروڑ روپے کے سکالر شپس دیئے۔ صرف دو سال میں انڈومنٹ فنڈ جب میں یہاں آیا تو 9کروڑ تھا اور اللہ کا شکر ہے وہ اب 18کروڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ پی ای ایف الگ ہے، جس سے بچوں کو وظائف دیئے جاتے ہیں۔ ایچ ای سی نے ہمیں کچھ سکالر شپس دیئے ہیں، جن پر ہمارے ادارے کے بچے فرانس تک ہو آئے ہیں۔ ہم نے یہاں ڈراپ آئوٹ پر توجہ دی جو آج شرح صفر ہو چکی ہے۔ مقررہ وقت پر امتحان اور داخلے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اکیڈمک کلینڈر بنایا ہے، جو ویب سائٹ پر موجود ہے، جس میں ہر بچے کو پتہ چلتا ہے کب امتحان ہے اور کب چھٹیاں ہونی ہیں؟۔ لیکن ان سب کے باوجود ہماری یہ پالیسی ہے کہ فیس کو اس حد تک لے کر آئیں جو سب کے لئے قابل برداشت ہو۔

 photo Pic1_zps18153889.jpg

ایکسپریس:جی سی یو میں اکیڈمک اور انتظامی سٹاف کی سینکڑوں آسامیاں خالی ہیں، بھرتی کیوں نہیں کی جاتی؟ ایسا بھی ہوا کہ بھرتی کے لئے اشتہار دیا گیا لیکن امیدوار کو کال لیٹر ہی نہیں بھجوائے گئے؟

پروفیسر خلیق الرحمن : یہ تاثر غلط ہے، یہاں سینکڑوں آسامیاں نہیں ہیں۔ یہ چھوٹی سی یونیورسٹی ہے، اگر ایسا ہوتا تو میں فارغ ہو کر بیٹھ جاتا۔ ہاں کچھ خالی آسامیاں ہیں، ان پر آج کل بھرتی چل رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیکھیں! ہم اشتہار دیتے ہیں اور اگر مطلوبہ قابلیت کا بندہ نہیں آتا تو ہم کیسے اسے بھرتی کر لیں۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا طالب علم کو مطلوبہ استاد مل رہے ہیں یا نہیں۔ یہاں تقریباً سوا 4سو سینئر اساتذہ کرام موجود ہیں اور ان کے ساتھ وزیٹنگ فیکلٹی بھی ہے۔ تقریباً 11ہزار یہاں طالب علم ہیں توریشو نکالیں تو ون ٹونٹی بنتی ہیں، یعنی 20 طلبہ کے لئے ایک استاد اور انٹرنیشنل معیار کے مطابق ہے۔ تو کمی کہاں ہے، ہم اس سلسلے میں مزید کام کر رہے ہیں، لیکن نکما سینئر بندہ نہیں لیں گے۔

ایکسپریس: جی سی یو طلبہ تنظیموں سے کیسے محفوظ ہے اور آپ کے ہاں طلبہ کی سرگرمیاں کس طرز پر استوار ہیں؟

پروفیسر خلیق الرحمن : تعلیمی اداروں میں کسی بھی وضع کی بیرونی مداخلت تعلیمی ماحول کوآلودہ کر دیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں درسگاہیں اَمن، سکون، تحمل اور رواداری کے مضبوط گڑھ تصور کیے جاتے ہیں، اِن کے سر براہ اور اساتذہ کو انتہا پسندی، سیاسی اور مذہبی منافرت سے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ طلبہ کی تربیت معتدل ماحول میں مثالی انداز سے کی جاسکے۔خدا کا شکر ہے کہ جی سی یو ہمیشہ طلبہ تنظیموں سے محفوظ رہا ہے جس کی وجہ اس کی طلبہ مجالس ہیں اور ان کا تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ طلبہ کی کردار سازی اور انہیں تفریحی اور ہم نصابی سر گرمیوں کے بھر پور مواقع فراہم کرنے کے لیے 55 طلباء مجالس سرگرم ہیں، جن کے اپنے صدر ،جنرل سیکرٹری اور گورننگ باڈی ہوتی ہے۔

ایکسپریس:علم کی پیاس بجھانے اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے حوالے سے جامعات سے جو توقعات وابستہ کی گئیں، آپ کے خیال میں ان میں کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں؟

پروفیسر خلیق الرحمن : یہ بات درست ہے کہ جامعات سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں، لیکن ایچ ای سی کے قیام کے بعد جامعات نے کارکردگی دکھائی ہے۔ یہاں کام کرنے والے لوگ آ رہے ہیں اور کام بھی ہو رہا ہے۔ اور حکومت ساتھ دیتی رہی تو انشاء اللہ جامعات توقعات سے بڑھ کر بھی نتائج دیں گی۔ ہم نے عبدالسلام سکول برائے میتھ میٹیکل سائنسز (ASSMS) کے نام سے ایک ادارہ بنایا، جسے یورپی یونین نے دنیا کا بیسٹ سنٹر قرار دیا ہے۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ یہاں اس کی گرانٹ بند ہو گئی ہے، بیرون ملک سے آئے پروفیسر یہاں سے جا رہے ہیں، ہم کہاں جا کر اپنا رونا روئیں۔ میں اس سلسلے میں اوپر لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں کہ یہ ہیں وہ مسائل جو فوری حل طلب ہیں لیکن کوئی نہیں سنتا۔ اس سنٹر نے 7سال کے قلیل عرصے میں ایچ ای سی اور انٹرنیشنل معیار کے مطابق 100پی ایچ ڈیز پیدا کر دیئے ہیں لیکن یہ نظرانداز ہو رہا ہے۔ امید ہے حکومت جلد اس طرف توجہ دے گی۔

ایکسپریس:اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرف سے اعزازی ڈگریاں دی جاتی ہیں، جیسے آپ نے حال ہی میں وزیراعظم میاں نواز شریف کو دی، سوال یہ ہے کہ اعزازی ڈگری دینے کا مقصد کیا ہے، اس کی عملیت کتنی ہے اور وہ کون سا معیار یا اہلیت ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو اعزازی ڈگری سے نوازا جائے؟

پروفیسر خلیق الرحمن : اس معاملے میں ہمارے ہاں غلط تاثر پایا جاتا ہے۔ ادارے اپنے طلبہ کی کامیابیوں کو سراہتے اور قدر کرتے ہیں۔ ایک پرانے طالب علم کو اس کی یونیورسٹی کی طرف سے مذکورہ ادارے، معاشرے اور ملک کے لئے انجام دی گئیں بہترین خدمات کو سراہتے ہوئے حوصلہ افزائی کے لئے اعزازی ڈگری دی جاتی ہے۔ خواہ وہ انڈرگریجوایٹ ہو یا گریجوایٹ ہو۔

 photo Pic2_zps94a3ae40.jpg

ایکسپریس: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے 9 ارب روپے کا مطالبہ کن مقاصد کے حصول کے لئے کیا گیا اور فنڈز کے اجراء میں کہاں تک پیش رفت ہوئی؟

پروفیسر خلیق الرحمن : میں نے فنڈز کا مطالبہ کیا ہے نہ تاحال کوئی اجراء ہوا۔ یہ ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے تو مطالبہ کیا ہی نہیں۔ میں نے تو صرف حکومت کو یہ بتایا ہے کہ ہمارے پاس اتنی جگہ ہے اور کالاشاہ کاکو کیمپس پر اندازاً اتنا پیسہ لگنا ہے۔ اب اس کو آپ مطالبہ تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ میری ڈیوٹی ہے کہ میں حکومت کو آگاہ کروں۔ یہ پراجیکٹ ہے اور ہر ادارہ ایسا کرتا ہے۔ یو ای ٹی نے اپنے پراجیکٹ کے لئے پانچ ارب روپے لئے ہوئے ہیں، سرگودھا، ملتان اور بہاولپور والوں نے پیسہ لیا ہوا ہے۔ ہماری تو بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہم اپنا پلان دے نہیں سکے تھے جو اب دے دیا گیا ہے۔ حالاں کہ ہمارا حق تو سب سے زیادہ اس لئے بنتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان کا سب سے قدیم ادارہ ہے۔

ایکسپریس:تعلیمی اور تعمیری حوالے سے مستقبل میں جی سی یونیورسٹی کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں؟

پروفیسر خلیق الرحمن : میری یہ خواہش کہ جی سی یو جلد ورلڈ رینکنگ میں آ جائے، یہاں مکمل طور پر انٹرنیشنل معیارِ تعلیم ہو اور اس کے علاوہ میگا پراجیکٹ کی جلد تکمیل چاہتا ہوں۔

گورنمنٹ کالج تاریخ کے آئینے میں!

گورنمنٹ کالج لاہور کا قیام انگریز عہد میں سکھ دور کی تاریخی حویلی راجہ دھیان سنگھ میں عمل میں لایا گیا۔ 1856ء میں لاہور کے سنٹرل کالج کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ کالج کے اساتذہ آکسفورڈ، کیمبرج ، ڈبلن یا ڈرہم سے تعلیم یافتہ ہونے چاہئے۔ بالآخر یکم جنوری 1864ء کو حویلی کے دروازے باقاعدہ طور پر کالج کے لئے کھول دیئے گئے اور یونیورسٹی آف کلکتہ سے الحاق شدہ کالج نے باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کر دیا۔کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر تھے ، جو کنگز کالج لندن میں عربی اور اسلامی قانون کے استاد تھے اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اپریل 1871ء میں کالج کی عمارت کو انارکلی کے قریب ایک بنگلہ میں منتقل کر دیا گیا۔ 1873ء میں ایک بار پھر کالج منتقل ہوا اور رحیم خان کی کوٹھی میں کلاسیں ہونے لگیں۔ اور بعدازاں گورنمنٹ کالج، یونیورسٹی کی موجودہ عمارت کی تعمیر کے بعد یہاں منتقل ہوگیا۔ جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ کالج کو کسی بہتر جگہ پر منتقل کر دینا چاہئے تو اس کے لئے سولجر گارڈن (موجودہ ناصر باغ) کے شمال میں جگہ پسند کی گئی اور نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ 2002ء میں گورنمنٹ کالج کو جامعہ کا درجہ دے دیا گیا۔ اس ادارہ میں پڑھنے والے راوئین کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

جی سی یو کی گود میں پروان چڑھنے والی برصغیر کی نامور شخصیات

جی سی یو برصغیر کا وہ نامور تعلیمی ادارہ ہے جس نے ادب، سائنس، سیاست، سماجی علوم اور فنون لطیفہ میں نابغہ روزگار شخصیات کو پروان چڑھایا۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر علامہ اقبال، فیض احمد فیض، پطرس بخاری، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ، میاں نواز شریف، سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی، یوسف رضا گیلانی، ائرچیف مارشل مصحف علی میر، موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف، جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک، سابق بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال، کرکٹر رمیز راجہ، ٹینس سٹار اعصام الحق سمیت دیگر بے شمار نامور شخصیات شامل ہیں۔ یہ ادارہ دو نوبل انعام یافتہ شخصیات ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ اور ڈاکٹر عبدالسلام کا مادر علمی بھی ہے۔ معروف بھارتی اداکار بلراج ساہنی اور دیوآنند بھی اسی تعلیمی ادارے سے منسلک رہے تھے۔ پاکستان کا ایٹمی پرگرام بنانے والی ٹیم کے 60 سائنسدان وانجینئر اولڈ راوئینز تھے، جس نے بٹن دبایا وہ بھی راوئین تھا اور جس وزیرِ اعظم (نواز شریف) نے ایٹمی دھماکوں کے حکم پر دستخط کئے، وہ بھی اسی عظیم مادرِ علمی کا طالبعلم تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق پاکستان کا میزائل پروگرام بنانے والی ٹیم جو ناسا جیسے اداروں سے لاکھوں ڈالر تنخواہ چھوڑ کر آئی تھی وہ بھی راوئینز پر مشتمل تھی۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں