بھارت میں اقلیتوں پر مظالم

اگر بھارت میں کروڑوں لیفٹ کے لوگ ہیں تو کیا وہ انتہا پسندی کے ردعمل میں میدان میں نہیں آسکتے؟


Zuber Rehman February 01, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: اسلحہ فاتحین پیدا کرتا ہے اور فاتحین قبضہ کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور ریپ کرتے ہیں۔ جب خراسان سے لے کر سنگاپور تک زرتشتوں کی حکمرانی رہی تو انھوں نے ہندوؤں کے رہنے کی ستان کے طور پر اس کا نام ہندوستان رکھ دیا۔

بعدازاں وسطی ایشیائی مسلمانوں کی بھی برصغیر میں حکمرانی رہی۔ درحقیقت یہاں رہنے والے مظاہر پرستی اور مورتی کے پجاری ہوا کرتے تھے اور دنیا بھر میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو مورتی کے پجاری کہا جاتا ہے نہ کہ ہندو۔ چونکہ بھارت میں ہندو کے لفظ کو مذہبی طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ پھر جب پرتگیزیوں اور انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو انھوں نے مقامی آبادی کو تذلیل کے انداز میں یعنی بد تہذیب اور پسماندہ کے طور پر ایسٹ انڈینز اور ریڈ انڈینز وغیرہ کے طور پر استعمال کرنے لگے۔

جیساکہ ویسٹ انڈیز کے جزیروں میں قدیم آبادی کے کیریبین قبیلے کے لوگ رہتے تھے۔ بجائے انھیں کیریب کہنے کے ویسٹ انڈینز کہا جانے لگا۔ جنوبی امریکا کی مقامی آبادی پیروئن، میکسیکن وغیرہ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسپین اور پرتگیز نے انھیں ریڈ انڈین کا نام دے دیا۔

اسپین کے جنوبی امریکا اور برطانیہ نے شمالی امریکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مقامی لاکھوں کروڑوں کی آبادی کا قتل عام کیا اور ان کے وسائل کو لوٹا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی برطانیہ نے بے تحاشا وسائل کو لوٹا مگر یہاں کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو قتل و غارت گری کرکے تباہ نہیں کر پائے جس طرح اب شمالی اور جنوبی امریکا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کیا۔ وہاں اس وقت مقامی آبادی مشکل سے 2 تا 4 فیصد رہ گئی ہے۔ ویسے ہزاروں سال سے اس علاقے میں بھارت، پانڈے، کورو، گنگا، جمنا وغیرہ کے نام سے مختلف قدیم قبیلے آباد تھے جن میں بھارت سب سے بڑا قبیلہ تھا۔

ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتاب مہابھارت میں بھارت کا تفصیلی تذکرہ ہے۔اس لیے میرے خیال سے اس کا نام بھارت ہی ہونا چاہیے۔ بہرحال نام کچھ بھی ہو کام اچھا ہونا چاہیے۔ یہاں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب رنگ و نسل، زبان، تہذیب و تمدن کے لوگ آباد چلے آ رہے ہیں۔

اسی بھارت میں بی جے پی کو صرف 2 نشستیں ملتی تھیں۔ کانگریس کی حکومت ہوتی تھی۔ جب کہ اڑیسا، آسام، تریپورہ، بنگال اور کیرالا میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں ہوتی تھیں۔ مغربی بنگال میں 30 سال تک لوگ خنزیر کھائیں یا گائے، کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ کانگریس پارٹی ہندوؤں کا ووٹ لینے کے لیے اپنے اصولوں سے جب پیچھے ہٹنے لگی اور کمیونسٹ پارٹیاں انقلابی سیاست کو چھوڑتی گئیں تو پھر آہستہ آہستہ بی جے پی حاوی ہوگئی۔

یہی مودی جس نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا وہی شخص ملک کا وزیر اعظم کیسے بن سکتا تھا۔ مودی سرکار تقریباً 26 پارٹیوں کا ایک اتحاد ہے جس میں 4/5 جماعتیں انتہائی تعصب پرست تنگ نظر اور جارح رویہ رکھتی ہیں۔ مودی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہتا ہے اس سے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہی کمیونسٹ پارٹیاں تھیں جب ''وشوہندو پریشد'' نے بابری مسجد پر پہلی بار دھاوا بولا اور ناکام ہوئی۔ بابری مسجد کے گرد 18000 کمیونسٹ کارکنان نے انسانی زنجیر بنائی تھی۔

جب حملہ آوروں نے حملہ کیا تو 6 افراد ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں تھا ۔ ہندو، عیسائی اور سکھ تھے۔ کمیونسٹ پارٹیاں اور ٹریڈ یونین 18 کروڑ لوگوں کا مظاہرہ اور ہڑتال کروا سکتی ہے، کسانوں کی عظیم الشان تحریک چل سکتی ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے انسانیت سوز برتاؤ کرنے پر کیوں خاموش ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی، سوشلسٹ یونٹی، کسان تحریک، مزدور تحریک، نکشلائزر اور کانگریس بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے مظالم کے خلاف کیوں ہڑتال نہیں کرتیں، مظاہرے نہیں کرتیں، جلوس نہیں نکالتیں؟ ہاں اگر کچھ نظر آیا تو ممتا بینرجی اور کیجری وال نے احتجاج کیا۔

مسلم کش مہم کو روکنا بھارت اور برصغیر کے محنت کشوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بائیں بازو کی جتنی پارٹیاں ہیں وہ مسلمانوں کی تن من دھن کے ساتھ حفاظت کریں۔

اگر بھارت میں کروڑوں لیفٹ کے لوگ ہیں تو کیا وہ انتہا پسندی کے ردعمل میں میدان میں نہیں آسکتے؟ سوڈان، برما اور برکینافاسو میں سول حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جب کہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ چین کی حکومت جو اپنے آپ کو سوشلسٹ بھی کہتی ہے اور وہ ساری فوجی آمریتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مفاداتی موقف اختیار کرتا ہے۔ اب مودی سرکار کو ہی لے لیں وہاں عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کے انہدام کو درست قرار دیتی ہے۔

آئے روز بھارت میں مسلمان لڑکیوں کو نیلام کیا جا رہا ہے، اجتماعی زیادتی ہو رہی ہے، انتہا پسند ہندو گروہ اپنے اجتماعات کرکے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ISIS کے خلاف لڑنے والی جرأت مند کردار یزیدی خواتین کی طرح ان ظالموں اور حملہ آوروں کے خلاف لڑنا ہوگا۔

جس طرح عراق، شام میں داعش کو ان بہادر خواتین نے شکست سے دوچار کیا۔ مسئلہ ریاست کا ہے۔ ہمارا ذہن کچھ یوں بٹا ہوا ہے کہ جو کچھ ہوگا وہ ریاست میں رہتے ہوئے ہوگا۔ اس کی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گے۔ یہ سوچ ہی لغو اور غیر سائنسی ہے۔ 150 سال سے دنیا بھر میں سیکڑوں، ہزاروں، کمیون، برابری کی بنیاد پر بلا حکومت اور اقتدار کے اپنے کارہائے زندگی کو رواں رکھا ہوا ہے۔ آج تک ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں