سینیٹری ورکرز کے مسائل ماحولیات کا مسئلہ
سرکاری افسر کا اتنی محنت سے ماحولیات کے موضوع پر کتاب مرتب کرنے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی
وطن عزیز میں پسماندہ طبقات کے حالات کار دن بدن مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری، ناخواندگی، صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، فرسودہ روایات، مذہبی اور طبقاتی تعصبات پسماندہ طبقات کی پسماندگی کی بنیادی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
ان پسماندہ طبقات میں سینیٹری ورکرز کے حالات کار سب سے زیادہ خراب ہیں۔ ملک میں سینیٹری ورکرز کی اکثریت کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ اندرون سندھ ہندو دھرم کے نچلے طبقہ کے افراد بھی گھروں ، محلوں اور سڑکوں کی صفائی کا کام انجام دیتے ہیں۔
شہروں میں گٹر لائنوں کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ان لائنوں میں اترتے ہیں اور گٹرلائنوں کی صفائی کے دوران سانس روکنے والی خطرناک گیس ان کی زندگی کو ختم کر دیتی ہے یا وہ زندگی بھر سانس اور پیٹ کے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق NCRH کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011سے 2021 کے دوران ہلاک ہونے والے 65 فیصد سینیٹری ورکرزکا تعلق اقلیتی برادری سے تھا۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کی میونسپل کارپوریشن یا میونسپل کمیٹیاں اب سینیٹری ورکرز کی بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہار شائع کراتی ہیں تو ان اشتہارات میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ آسامی اقلیتوں کے لیے مختص ہے۔ اس اشتہار سے اقلیتوں کی توہین ہوتی ہے۔
قومی انسانی حقوق کمیشن اس طرح کے اشتہارات کے قانونی پہلوؤں کو چیلنج کرنے کا ارادہ کررہا ہے۔ سرکاری اداروں میں ان ورکرز کو گریڈ 1میں رکھا جاتا ہے۔ ملک کے بلدیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب سڑکوں کی صفائی اورگندے پانی کی نکاسی کے لیے گٹرکھولنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔ ان مشینوں کو چلانے کے لیے تکنیکی عملہ رکھا جاتا ہے۔ یوں یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سینیٹری ورکرزکے لیے بہتر حالات کار کا ماڈل بن گیا ہے۔
پاکستان سے کینیڈا جانے والے ایک فوٹوگرافر نے بتایا تھا کہ انھیں سینیٹری انجنیئر کی نوکری ملک گئی ہے اور وہ مشین کے ذریعہ پبلک باتھ رومز کی صفائی پر مامور ہیں۔ پاکستان اس شعبہ میں بھی دنیا بھر سے پیچھے ہے۔ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے میونسپل اداروں میں تو جدید مشینری کا استعمال شروع ہوا ہے مگر یہ انتہائی محدود ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرکاری ادارے صفائی اور صحت کے کارکنوں کے حالات کار کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے، اس بناء پر غیر ممالک سے ان مشینوں کی درآمد اور ملک میں ان مشینوں کی تیاری پر رقم خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اس بناء پر یہ سینیٹری ورکرز ہزار سال سے استعمال ہونے والے طریقے بروئے کار لاتے ہیں جس کی بناء پر کام کے دوران اموات کی شرح کم نہیں ہو پاتی۔ یہ سینیٹری ورکرز شدید مذہبی اور طبقاتی تفریق کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے سپروائزر خواتین سینیٹری ورکرز کو خاص طور پر جنسی ہراسگی کا شکار کرتے ہیں اور تنخواہوں میں سے کٹوتی عام سی بات ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سپروائزر سینیٹری ورکرز کی تنخواہوں سے جو کٹوتی کرتے ہیں وہ رقم مجاز اتھارٹی تک کے گھروں کے اخراجات پورے کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی اور اس کی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے یہ سینیٹری ورکرز براہِ راست اور بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں مذہبی انتہاپسندی نے کئی افراد کی زندگیوں کو چھین لیا ہے۔ 10سال قبل پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک مسیحی عورت جس کا خاندان صفائی اور کھیتوں سے فصل چننے کا کام کرتا تھا ، مذہبی انتہاپسندی کی شکار ہوئی۔ گاؤں کے بااثر زمیندار اور مذہبی لوگوں نے اس پر توہین کا مقدمہ بنا دیا ۔
یہ مقدمہ پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا اور آخرکار سپریم کورٹ نے استغاثہ کے دعویٰ کو مسترد کیا ۔ اس عورت کی جان کے تحفظ کے لیے اس کو ایک یورپی ملک میں پناہ لینی پڑی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہوا۔
انسانی حقوق کا قومی کمیشن (National Human Rights Commmission) گزشتہ دور حکومت میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعہ قائم ہوا۔ کمیشن کی نئی سربراہ رابعہ جواری آغا نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جامع فیصلہ دیا تھا۔
جیلانی فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے انتہائی عرق ریزی سے سفارشات مرتب کی تھیں۔ ان سفارشات پر عملدرآمد انتہاپسندوں کے دباؤ کی بناء پر ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ قومی کمیشن کو اس تناظر میں اس کمیشن کی سفارشات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے انسانی حقوق کے تحفظ کے تناظر میں اس مظلوم طبقہ کی طرف توجہ دی ہے ، یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے۔
مرزا مجتبیٰ بیگ ادارہ تحفظ ماحولیات کے فعال افسرِ تعلقات عامہ ہیں۔ انھوں نے سندھ کے تحفظ ماحولیات قوانین 2014 کا آسان اردوزبان میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں ناقص ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہورہا اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت سندھ ان قوانین کے نفاذ میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ قوانین سے واقف نہ ہونا ہے، کیونکہ قوانین انگریزی زبان میں ہوتے ہیں اور عوام کی اکثریت قومی زبانوں میں لکھی ہوئی تحریر تو سمجھ سکتی ہے مگر انگریزی زبان سے بہرحال وہ کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتی۔ ایسے قوانین کے اردو میں سرکاری سطح پر تراجم ہورہے ہیں مگر وہ معاوضہ لے کر کیے جانے والے کام ہیں جس میں مترجم کی ذاتی دلچسپی کم ہوتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ان کا معیار بھی سب کے سامنے ہیں۔ کبھی کبھار ان قوانین کے ترجموں کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ انگریزی کا متن ہی پڑھ لیا جائے۔ ایک سرکاری افسر کا اتنی محنت سے ماحولیات کے موضوع پر کتاب مرتب کرنے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ توقع ہے کہ باقی افسران بھی اپنے اس ساتھی کی پیروی کریں گے۔