نواز شریف کی واپسی مِشن اِز امپاسِبل
نواز شریف کو بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ صرف عمران خان کا تھا
KARACHI/LAHORE:
جناب محمد نواز شریف اپنے برادرِ خورد، میاں محمد شہباز شریف، کی کوششوں اور مساعی سے چار ہفتے کی ضمانت پر پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نواز شریف صاحب اس قدر بیمار ہیں کہ اگر انھیں اس نازک حالت میں بیرونِ ملک بغرضِ علاج نہ بھیجا گیا تو خدا نخواستہ اُن کی جان کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
عمران خان کی حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد اور کئی میڈیکل رپورٹوں کو جانچتے ہُوئے، نواز شریف کو ضمانت پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ فیصلہ مگر درحقیقت کس کا تھا؟ اس پر ہمیشہ اسرار کا پردہ پڑا رہا ہے۔ کوئی اِسے ڈیل سے موسوم کرتا رہا اور کوئی اِسے نواز شریف کے حقیقی بیمار ہونے کا نام دیتا رہا۔ پچھلے دنوں مگر، خاصے عرصہ کے بعد، وفاقی وزیر ، اسد عمر ، نے انکشاف کیا تھا کہ ''نواز شریف کو بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ صرف عمران خان کا تھا۔'' اِس بیان کے بھی کئی پہلو تلاش کیے گئے ۔
نواز شریف صاحب کو لندن گئے دو سال تین ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ اگر وہ لندن کے ٹھنڈے میٹھے ماحول میں خاموش اور سکون سے بیٹھے رہتے تو خان صاحب کی حکومت کو اُن سے کوئی تعرض نہ ہوتا۔ بڑے میاں صاحب نے مگر لندن سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیک وقت محاذ کھول دیے تو لا محالہ میاں صاحب کو بھی جواباً ٹف جوابات کا سامنا کرنا پڑا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ نواز شریف کے لہجے میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بوجوہ ''شدت'' کم ہوتی گئی لیکن عمران خان حکومت کے بارے میں اُن کا لہجہ بتدریج سخت ہوتا گیا۔ اُن کے تتبع میں اُن کی صاحبزادی اور نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، بھی پوری طرح حکومت کے خلاف میدان میں اُتر آئیں۔ اس سے حکومت کو مزید شدت اور حدت کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت نواز شریف، اُن کی صاحبزادی اور نون لیگ کی تنقیداور تنقیص کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتی رہی۔ خان حکومت کی طرف سے پچھلے عرصے کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف کا ناطقہ بند کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی ہے۔ دونوں بھائیوں اور مریم نواز نے خانصاحب کی جیلیں بھی کاٹیںاور ذہنی اذیتیں بھی برداشت کی ہیں۔وہ اب ضمانتوں پر باہر ہیں مگر عمران خان انھیں اِس حالت میں دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ خان صاحب نے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی ہے کہ خصوصاً شہباز شریف کو پھر سے حوالہ زنداں کیا جائے اور اُدھر لندن میں فروکش نواز شریف کو، کسی بھی طرح، واپس پاکستان لایا جائے۔
اس پہاڑ کو عبور کرنے اوریہ مشکل مہم سر کرنے کے لیے جناب عمران خان نے اپنے معتبر دوست، بیرسٹر شہزاد اکبر، کو جملہ اختیارات اورمقدور بھر وسائل سے نوازا مگر بات پھر بھی نہ بنی۔ نواز شریف کو لندن سے پابجولاں پاکستان واپس لانے کے لیے شہزاد اکبر تین، ساڑھے تین سال (بظاہر) بھرپور کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ انھوں نے بُری طرح اپنے وزیر اعظم کو مایوس کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب شہزاد اکبر عالمِ مایوسی میں مستعفیٰ ہو کرمنظر سے غائب ہو چکے ہیں۔ شہزاد اکبر کا استعفیٰ دراصل نواز شریف اور نون لیگ کے موقفوں کی فتح بھی قرار دیا گیا۔
حکومت بظاہر نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لانے کی مضبوط خواہش رکھتی ہے۔ بباطن مگر یہ احساس ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ نواز شریف وطن واپس آ کر حکومت کے رنگ میں بھنگ ڈال دیں۔ اِس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مثال کے طور پر نون لیگ کے ایک جلسے میں جونہی نواز شریف نے پاکستان واپسی کا بین السطور عندیہ دیا، عمران خان کی حکومت میں ہلچل مچ گئی۔
کئی اطراف سے کئی تشویشات کا اظہار کیا جانے لگا۔ یہ تشویشات ظاہر کرتی تھیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی خبروں نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے، حالانکہ نواز شریف نے ابھی تو اپنی آمد کی کوئی تاریخ بھی نہیں دی تھی ۔ یہ بھی مگر واقعہ ہے کہ نواز شریف کی پاکستان آمد کی '' کمزور خبروں'' نے بھی نون لیگی کارکنوں اور قیادت میں ایک نئی اُمید ، اُمنگ اور سرشاری پیدا کر دی ۔
اس میں بھی کوئی شک بہرحال نہیں ہے کہ پاکستان کے کثیر عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ نواز شریف تمام تر خطرات کے باوصف وطن آئیں اور انھیں قیامت خیز مہنگائی اور مایوسیوں کے آہنی چنگل سے نجات دلائیں۔ 2فروری2022 کی تازہ ترین خبروں اور سرویز کے مطابق ، مہنگائی گزشتہ دو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ حتیٰ کہ یوٹیلٹی اسٹورز بھی مہنگائی کے طوفان کے سامنے سرنڈر کر گئے ہیں ۔ بجلی کے نرخ مزید بڑھ گئے ہیں۔ ایسے مایوس کن ماحول میں پاکستان کے عوام نواز شریف کی راہ کیوں نہ دیکھیں؟
لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف فی الحال برطانیہ سے پاکستان واپس نہیں آ رہے۔ بڑے میاں صاحب کی طرف سے جو میڈیکل رپورٹس لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی ہیں، اُن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میاں صاحب کی طبیعت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ پاکستان واپس جا سکیں ۔ مبینہ طور پر اُن کی صحت کو سب سے بڑا خطرہ ذہنی دباؤ اور کورونا سے ہے ۔ اور یہ کہ ''بغیر علاج'' اگر نواز شریف پاکستان گئے تو اُن کی حالت بگڑ سکتی ہے۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں نے ہمارے سیاسی ماحول کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔
اپوزیشن کی جملہ پارٹیاں ان رپورٹوں کے حق میں ہیں اور بیک زبان کہتی ہیں کہ نواز شریف کو کامل صحتیاب ہو کر ہی وطن واپسی کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس حکومتی وزرا نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں کو ''جعلی'' اور ''ڈرامہ'' قرار دے رہے ہیں۔میڈیکل رپورٹوں کو قابلِ اعتراض قرار دینے والے بھی اتنے غلط نہیں ہیں۔ نواز شریف صاحب لندن میں بیٹھ کر جس دھڑلے سے سیاسی بیانات دے رہے ہیں ، اپنے ملاقاتیوں کو جس تازہ بہ تازہ چہرے سے ملتے اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر جس طرح ''ڈٹ'' کو کھانے کھاتے ہیں ، یہ خبریں اور مناظر حکومتی وزرا کونواز شریف بارے شکوک میں مبتلا کرتی ہیں۔
مگر مریض ہی اپنے بارے میں بہتر بتا سکتا ہے کہ وہ کس قدر تندرست اور بیمار ہے۔ بعض اوقات آدمی بظاہر صحت مند نظر آتا ہے لیکن بباطن امراض کا مارا ہوتا ہے۔ یوں ہمیں نواز شریف اور اُن کے ڈاکٹروں کے موقف ہی پر یقین اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اگرچہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں پر وزیر بھی ناراض ہیں اور وزیر اعظم بھی ۔ خان صاحب کے ایک اہم اور معروف مشیر نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹوں کے پیشِ نظر میاں صاحب کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے، خاصی قابلِ گرفت ہے۔
اور خود وزیر اعظم عمران خان صاحب تو اِس بات پر سخت نالاں اور ناراض ہیں کہ احسن بھون کی قیادت میں سپریم کورٹ بار نے یہ درخواست ہی کیوں دی ہے کہ کسی بھی شخص کی تاحیات نااہلی نہیں ہونی چاہیے۔ شریف خاندان سے جناب عمران خان کی نار اضیاں اور غصہ بجا لیکن ہم نواز شریف کے ڈاکٹر کی رپورٹوں کو بھی بغیر کسی مضبوط دلیل کے مسترد نہیں کر سکتے۔