مصنوعی سورج زمین پر اور انسانی مشن سورج پرپہنچ گیا

سورج پر دسترس کے لیے انسانی کاوشوں کا دل چسپ احوال


ناصر ذوالفقار February 06, 2022
سورج پر دسترس کے لیے انسانی کاوشوں کا دل چسپ احوال ۔ فوٹو : فائل

سورج سَوا نیِزے پر آگیا! یہ محاورہ تو ہر خاص وعام نے سنا ہی ہوگا، گرمیوں کی چلچلاتی گرمی اور تپتی دھوپ جب زمین پر ہر زندہ اجسام کو بے چین کردیتی ہے اور گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے آگ اگلتا ہوا سورج ہمارے سروں پر ہی آگیا ہے۔

یہ ہوتا اس طرح ہے کہ جب گرمیوں کے دن آتے ہیں تو زمین گردش کرتی ہوئی سورج کے قریب تر آجاتی ہے اور اس کے برعکس فاصلے پر جانے سے موسم سرما تشکیل پاتا ہے، ہمارے صبح وشام اور راتیں بھی سورج ہی کی مرہون منت ہیں۔ دنیا میں کہیں بیک وقت گرمی اور سردی دونوں ساتھ ساتھ بھی چلتے ہیں اور فی زمانہ اب ماحولیات کی تبدیلی کے سبب حیرت انگیز طور پر موسموں میں غیرمعمولی ردوبدل نوٹ کیا جارہا ہے۔

اب جہاں گرمی کم پڑتی تھی، وہاں بھی زیادہ گرماہٹ نے اپنے جلوے دکھانا شروع کردیے ہیں، جیسے کہ حالیہ برسوں میں روس ویورپ میں گرمی کی شدید لہر نے مقامی لوگوں کو بے حال کیے رکھا تھا۔ اسی طرح جہاں گرمیوں کا راج ہوا کرتا تھا وہاں اب سردی پہلے سے بڑھتی ہوئی مشاہدے میں آرہی ہے۔

پچھلے برس کے آخری ماہ میں سورج کے بارے میں حیرت انگیز اور زبردست خبریں سننے اور دیکھنے کو ملیں، ان میں زمین پر ''مصنوعی سورج'' کا تجربہ کیا جانا اور امریکی ادارے ناسا کے خلائی جہاز ''پارکر'' کا سورج کی سطح کو چھولینا شامل ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں شان دار اور نہایت حوصلہ افزا کارنامے ہیں جو آگے چل کر یقیناً بنی نوع انسان کی زندگیوں میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔

جس روز مصنوعی سورج کی گرمی کو جانچنے کے لیے ٹیسٹ کیا گیا، اس روز واقعی گویا سورج نہ صرف سوا نیزے بلکہ زمین پر موجود تھا اور اس کی پیداکردہ حرارت اصل سورج سے بھی پانچ گنا زیادہ رہی۔ انتہائی درجۂ حرارت پر اس سورج کا ٹمپریچر 70 ملین ڈگر ی سیلیس تھا اور یہ تجربہ 1.056 سیکنڈوں (سترہ منٹس) تک جاری رہا۔

ہمارا سورج، کرۂ زمین ہر ذی شے حیات کی پانی کے بعد زندگی کی اہم علامت ہے جو ہمیں روشنی و حرارت مہیا کرتا ہے۔ سورج کی روشنی ہمارے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے، جن ممالک میں سردی کا راج ہوتا ہے اور برف قبضہ کیے رہتی ہے لوگ زیادہ تر اندھیرے میں رہتے ہیں۔ یہ ان کے مزاج اور موڈ پر اثر ڈالتی ہے، جہاں سورج کی روشنی وحرارت کے بنا انسانی مزاج میں سستی وافسردگی جنم لیتی ہے۔

یہ حرارت و روشنی انسان وحیوانات کے علاوہ درختوں کے لیے بھی نہایت ضروری امر ہے۔ درخت و پودے سورج کی روشنی سے ہی توانائی پاتے ہیں۔ وہ روشنی سے سنتھیسز (Photosynthesis) کی مدد سے غذا تیار کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرکے آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جو ہمارے سانس لینے کے لیے لازمی ضرورت ہے۔

سورج کی توانائی جسے شمسی توانائی کہتے ہیں آج کے دور کا ایک سستا اور منافع بخش قوت کا ذریعہ ہے جو کہ تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ سورج ایک ستارہ ہے جو کہکشاں یا ملکی وے میں اربوں ستاروں میں ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ وہ 50 کھرب سال سے موجود ہے اور اپنی عمر کے حساب سے نصف زندگی گزار چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگلے پانچ ملین سال کے بعد اپنی توانائی کا محور تما م ہائیڈروجن استعمال کرچکا ہوگا تو اپنے انجام کی جانب گام زن ہوگا، اندازہ ہے کہ بالآخر ممکنہ بلیک ہول بن جائے۔

سورج کا قطر (گولائی)1.39 ملین کلومیٹر یا 864,000 میل ہے اور یہ زمین سے 109گنا بڑا ہے جس کا مطلب ہے کہ تیرہ لاکھ زمینیں سورج میں سما جائیں جب کہ سورج کی کمیت بھی زمین کے مقابلے میں 333,000 ہزار گنا زیادہ ہے اور شمسی مقناطیسی میدان بھی زمین کے مقابلے میں نہایت طاقت ور ہے۔ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے اور کہکشاں میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ سورج کے ساتھ محوحرکت سیّاروں میں ہماری زمین ہے جس کا سورج سے فاصلہ 150 ملین کلومیٹر ہے۔ سورج کی روشنی 8.3 منٹوں میں ہم تک پہنچ پاتی ہے اور اس کی سورج کے عین وسط سے گرمی ہم تک ایک ملین (دس لاکھ) سال میں پہنچتی ہے۔

سورج کا رنگ سفید ہے اور ہمیں پیلا یا زردی مائل نظر آتا ہے جس کی وجہ روشنی کا انتشار (اسپیکٹرم) ہے۔ سورج میں ہائیڈروجن اور ہیلیم عناصر کا تناسب98 فی صد ہے جب کہ باقی دوسرے عناصر خفیف تعداد میں موجود ہیں جن میں آکسیجن، کاربن،نیون اور لوہا ہیں۔ دو سال قبل جنوری 2020 ء میں سورج کی سطح سے قریب ترین ہوکر دنیا کی پہلی تصویر جو لی گئی تھی وہ امریکی ریاست ہوائی میں دوربین سے لی گئی ہے جو آتش فشاں ''ہالیکالا'' پر نصب ہے۔

آخر سورج کی عظیم توانائی کا ماخذ کیا ہے؟

سورج گیس کا ایک عظیم گولا ہے جو ایک دیوقامت جوہری ری ایکٹر بھی ہے۔ اس کے اندر کدافت کا عمل جاری رہتا ہے جو کہ تاب کاری (ریڈی ایشن) کا باعث بنتا ہے۔ یہی تاب کاری نیوکلیائی ایٹمی ری ایکٹروں اور بموں سے بھی خارج ہوتی ہے جس کا طریقہ کار کچھ مختلف ہے جو کہ عمل اِنشقاق(Fission) کے عمل سے ممکن ہوتی ہے۔ اس عمل میں ہائیڈروجن کے ایٹموں کو توڑا جاتا ہے لیکن آج نیوکلیائی توانائی کے بارے میں دنیا کو تحفظات لاحق ہیں اور اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی۔ جب سے روس اور جاپان کے ایٹمی ری ایکٹروں میں تاب کاری کے لیک ہونے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ سورج کی کیمیائی ترکیب کیسی ہے؟ اس کے مطالعے کا آغاز 1884ء میں شروع ہوچکا تھا جب کہ ستاروں یا ہمارے سورج کے عملِ کدافت کو1939 ء میں ہنزہینتھے نے دریافت کیا تھا۔

اس عمل میں انشقاق کے برعکس دو ہلکے ہائیڈروجن مل کر نسبتاً بھاری ہیلیم میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس سے زبردست توانائی کا اخراج ہوتا ہے، اسے عمل ِایتلاف (Fussion)کہا جاتا ہے۔ سورج کے قلب میں ہائیڈروجن گیس ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈگری درجۂ حرارت سیلیس پر ہیلیم گیس میں تبدیل ہورہی ہے جب کہ اس طاقت ور ترین توانائی کا نہایت قلیل حصّہ زمین تک پہنچ پاتا ہے۔ شمی ذرات کی آندھی کو 1962 ء میں دریافت کیا گیا اور سات سال بعد 1969 ء میں علم ہوا کہ یہ ذرات سورج کی سطح ''کورونا'' سے نکلتے ہیں جب کہ نئی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ سورج کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔

سورج کا اوپری درجۂ حرارت 6000 ہزار سینٹی گریڈ ہے جب کہ اس کا اندرونی انتہائی درجۂ حرارت دوکروڑ سینٹی گریڈ ہوتا ہے جو کہ وہ مستقل برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن ہر روز سورج اپنی کمیت کھورہا ہے۔ یعنی اس کی جسامت میں کمی واقع ہورہی ہے۔

روشنی کی رفتار سے زمین پر ہم تک آٹھ منٹوں میں پہنچنے والی سور ج کی حرارت و شمسی توانائی کا اوسط دوکروڑ ٹن کوئلے کے جلنے کی حرارت کے مساوی ہے۔ سورج کی مقناطیسی قوت کا سراغ 1905 ء میں لگایا گیا تھا۔ عرصہ دراز سے اسے فیوژن سے حاصل ہونے والی توانائی کے بارے میں مثبت نتائج کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی میں کئی دہائیوں کی تحقیقات کے باوجود ابھی اسے لیبارٹری سے باہر نہیں جانچا جاسکا ہے۔ جوہری یا نیوکلیائی عمل انشقاق کے برعکس عمل ایتلاف توانائی کی پیدوار کو طاقت فراہم کرتا ہے اور اس عمل کے لیے کسی جلنے والے دوسرے ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے خطرناک مواد کے ہونے کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے جس سے ماحولیاتی تباہی کا رسک بہت کم ہوجاتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک مستقبل کی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے فیوژن ری ایکٹروں کے تجربات کررہے ہیں تاکہ صاف ستھری اور وسیع توانائی کا حصول ہمارے لیے ممکن ہوسکے۔ ایسے تجربات ستاروں کے اندر ہونے والے کدافتی عمل کی نقل کے طور پر ری ایکٹروں میں کیے جارہے ہیں۔

وہ ایک ملک جوکہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے اس نے حالیہ سالوں میں اس سلسلے میں زبردست کاوشیں کی ہیں، وہ چین ہے جس نے چھے ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ اس نے ایسٹ (EAST) کا تجرباتی ٹیسٹ کیا ہے، یہ مخفف ہے، Experimental Advanced Superconductivity Tokamak ری ایکٹر۔ (سپرکنڈیکٹیویٹی: برقی رو میںگزارنے والے اعلیٰ موصل یا کنڈکٹر کا استعمال ہے جو کم سے کم مزاحمت کرتے ہیں) چینی نیوزایجنسی شبنوا کے مطابق چین نے یہاں اپنے اس ری ایکٹر میں پلازما کو قابو کرتے ہوئے 120 ملین ڈگری سیلیس درجۂ حرارت کو بڑھایا جو کہ 101 سیکنڈ تک جاری اور برقرار رکھا گیا۔

اگلے چھے ماہ بعد دسمبر کے مہینے میں چین نے اپنے سابق ری ایکٹر کا ریکارڈ بہتر بنایا اور پہلے سے بڑا کارنامہ انجام دے دیا، جب پلازما کو قابو کرتے ہوئے 70 ملین ڈٖگری سیلیس درجۂ حرارت تک پہنچادیا۔ اس بار ٹمپریچر کم رکھا گیا تھا لیکن اس کے وقت یا دورانیے کو 1.056 سیکنڈ یا 17 منٹس تک برقرار رکھاگیا۔ اس طرح ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا جو نہایت حیران کن اور بڑی کام یابی تصور کیا جارہا ہے ۔اس کا بظاہر اہم مقصد ہے کہ ستاروں میں پیدا ہونے والے قدرتی عمل جیسی تقریباً لامحدود توانائی کا حصول ممکن ہو اور اسے قابو میں کیا جائے، تاکہ آنے والے وقت میں اضافی توانائی کی ضروریات کو وافر مقدار میں پورا کیا جاسکے۔

ان تجربات کے حصول میں ڈیٹوریم (Deuterium) جس کی کمیت ہائیڈروجن سے دگنی ہوتی ہے اور تاب کار ہائیڈروجن کی شکل میں ٹریٹیم (Tritium) کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ انتہائی درجۂ حرارت پر ہی گرم ہوتے ہیں اور آئیونائزڈپلازما میں بدل جاتے ہیں (ٹھوس مائع اور گیس کے بعد پلازما مادّے کی چوتھی حالت ہے)۔ عمل ایتلاف یا فیوژن کے چین ری ایکشن کے نتیجے میں پلازما 150 ملین ڈگری سیلیس درجۂ حرارت پر پہنچ جاتا ہے۔ چینی ری ایکٹروں کی طرف سے دوبار سے زائد تجربات کو متعارف کیے بغیر انجام دیے گئے ہیں۔

حقیقت میں چین کی طرف سے نہ تو کاغذی طور پر ان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں اور نہ ہی کوئی سائنسی اشاعت ہوئی ہے جن میں ان کے تجربات کی وضاحت کی گئی ہو کہ کیسے کام یابی ممکن ہوسکی؟ عوامی سطح پر بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ری ایکٹروں کے درجۂ حرارت کیسے بڑھایا گیا تھا۔

چین کے اس ترقی یافتہ سپرکنڈکٹنگ (EAST) کی قیادت چین کی اکیڈمی برائے سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف پلازمافزکس(ASIPP)کے تحقیق کار گونگ ژیانزو (Gong Xianzo) کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ آپریشن فیوژن نے ری ایکٹر کو چلانے کی جانب ایک ٹھوس سائنسی اور تجرباتی بنیاد فراہم کردی ہے۔

''ایسٹ'' پر اب تک 700 ملین یورو سے زائد رقم کی لاگت آچکی ہے اور یہ تجربہ سال رواں میں جون تک جاری رہے گا۔ نیشنل فیوژن لیبارٹری کے ڈائریکٹر جیکوئن سانچز(Joequin Sanchez) نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ''ایسے ری ایکٹر فعال ہوجائیں گے اور پلازما کو طویل عرصے تک درجۂ حرارت پر قابو رکھا جاسکے گا۔ یہ بڑا سنجیدہ نوعیت کا تجربہ تھا جو کہ چین کی سب سے بڑ ی مشین سے کیا گیا۔ یہ دنیا کے ماحول پر اثرانداز نہیں ہوگا اور ردعمل کے نتیجے میں استعمال کی جانے والی توانائی افادیت کی حامل ہے جس کے ذریعے بہترین پیرامیٹرز کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا!''

چینی پروٹوٹائپ ٹوکاما(Tokama) ری ایکٹر اپنی نوعیت کا پہلا ماڈل ہے اور ایک ایشیائی عفریت ہے۔ اس پروٹوٹائپ (ابتدائی شے) نے ایک بڑے اتحاد کو جنم دیا ہے جس میں یورپی یونین، جاپان، امریکا، سائوتھ کوریا، انڈیا، روس اور چین بذات ِخود شریک ہے۔ اس کے مقاصد میں ایسے پلازما کو جنریٹ کرنا ہے جس میں فیوژن کے ذریعے 10 گنا زائد توانائی پید ا کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی و حرارت کی کولنگ کے لیے بھاپ پید ا کی جاتی ہے۔ یہ بھاپ بجلی پید ا کرنے کے ٹربائنز کو چلائے گی۔ توقع ہے کہ پہلا ٹیسٹ 2026 ء سے فرانس کے شہر ـ''Cadarache'' میں شروع ہوگا۔ اگرچہ اس کا بنیادی ڈھانچا ابھی زیرتعمیر ہے۔ بہرحال جب بھی تجربات ہوئے تو یہ چین کے مقابلے میں زیادہ مشاق اور امید افزا ہوں گے۔

اس پہلے پہل ٹیسٹ کا مقصد ہے کہ اعلیٰ طاقت پر 500 سیکنڈ کے عمل (آٹھ منٹس سے زائد) ہو اور 1,5000 پر درمیانی طاقت سے 100 ملین ڈگری سے زائد توانائی حاصل ہوسکے، اگر اس کا موازنہ ''ایسٹ'' سے کریں تو یہ ایک دوسرا ہی رخ ہوگا۔ بین الاقوامی عظیم تھرمونیوکلیائی تجرباتی ری ایکٹر(ITER) مکمل ہونے پر دنیا کا سب سے بڑا فیوژن ری ایکٹر ہوگا۔ سرخ رو چینی ٹیم کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ان کے حالیہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل آگے کی جانب رواں دواں ہیں جس کا کہ سال گذشتہ آغاز ہوا تھا۔ وہ اپنے ان فیوژن ری ایکٹروں کی سہولیات کو ''مصنوعی سورج'' قرار دیتے ہیں۔
جب امریکی خلائی مشن نے سورج کو چھولیا۔۔۔!
سال گذشتہ کے ماہ دسمبر میں ہی سورج پر دست رس کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت امریکا کی جانب سے بھی کئی گئی ہے جو سورج کی تحقیقات میں نیا سنگ میل ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب ناسا کے جہاز ''پارکر'' نے سورج کی سطح کو چھولیا جہاں اب تک کوئی نہیں جاسکا تھا۔ اس معنی خیز سنگ میل کو سورج پر تحقیقات میں چاند پر جانے والے راستے کی طرح بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔

یہ اب سائنس دانوں کو مواقع فراہم کرے گا کہ سورج کے تابع ہمارے چاند کی بناوٹ کے بارے جان سکیں کہ وہ کیسے اور کیوں کر وجود میں آیا تھا؟ شمسی تجرباتی تاریخ میں درحقیقت یہ ایک غیرمعمولی اور نمایاں کام یابی ہے، یہ ناسا کے مشن ڈائریکٹوریٹ کے Tomas Zurbuchen نے کہا جوکہ نائب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔

ناسا کی یہ تجرباتی کام یابی ہمیں نئی بصیرت کے مواقع فراہم کرتی ہے کہ سورج کے اندر کیا ڈیویلپمینٹس ہورہی ہیں اور اس کے نظام شمسی کے سیّاروں پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ہم اپنے ستارے کے بارے میں کیا سمجھ بوجھ رکھتے ہیں؟ اس کی سمجھ سے ہمیں دوسرے ستاروں کی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ناسا کے مطابق خلائی جہاز پارکر 15 دسمبر کو سورج کی فضاء ''کورونا'' میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگیا جہاں وہ پہلے کبھی نہ جاسکے تھے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق اس خبر کا اعلان سائنس دانوں نے امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں کیا، پارکر خلائی پروب اپریل کے مہینے میں آٹھویں بار سورج کے قریب پہنچا تھا اور اس کی فضاء میں داخل ہو ا۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کے اعدادوشمار حاصل ہونے میں چھے ماہ لگ جائیں گے اور اس کی تصدیق کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ پارکر کو جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری سے آپریٹ کیا جارہا ہے۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی پروجیکٹ کے سائنس داں نوررائونی نے اسے دل چسپ طور پر سحرانگیزی سے تعبیر کیا ہے۔ پارکر کو 2018 ء میں لائونچ کیا گیا تھا اور یہ تین سال کے بعد سورج سے قریب تر پہنچا ہے۔ وہ سورج کے مرکز سے 80 لاکھ میل یا 1.3کروڑ کلومیٹر دور تھا، جب اس نے پہلی بار شمسی فضاء اور باہر خارجی شمسی ہوائوں کے درمیان ناہموار حد کو عبور کیا۔

سائنسی ماہرین کے مطابق پارکر شمسی کورونا میں کم ازکم تین بار گیا اور واپس آیا، ہر بار انٹری یا منتقلی ہموار رہی۔ مشی گن یونیورسٹی کے جسٹن کاسپر نے صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ وہ سب سے ڈرامائی انداز تھا جب پارکر پہلی بار سورج میں وارد ہوا، گویا ہم شمسی فضاء (ماحول) کے نیچے رہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ پانچ گھنٹے کا وقت بہت کم ہے، مگر ان کے مطابق پارکر اتنی تیزرفتاری سے آگے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اس دوران اس نے ایک بہت بڑا فاصلہ طے کیا۔

جہاز 62 میل (100 کلومیٹر) فی سیکنڈ سے زائد رفتار سے گام زن تھا۔ رائونی کے کہنے کے مطابق کورونا ہماری توقع سے زیادہ دھول میں اٹا ہوا پایا گیا، اور ہمیں مستقبل میں مزید کورونا کے دوروں سے شمسی ہوائوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کیسے ان کی شروعات ہوئی تھی؟ یہ کیسے گرم ہوتی ہیں اور کس طرح خلائوں میں چھوڑی جاتی ہیں؟ سورج کی سطح چوں کہ ٹھوس نہیں ہے اس لیے اس جگہ تمام عمل ہوتا ہے۔

اس شدید مقناطیسی اثر کے خطے کے قرب کی کھوج سائنس دانوں کے لیے ''سولرفلیئر'' (Flare ) کو زیادہ بہتر جاننے کی راہ نمائی ملے گی۔ ابتدائی وصول ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پارکر اگست میں سورج کے نزدیک نویں بار گزرتے ہوئے بھی کورونا میں داخل ہوا تھا، لیکن سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مزید تجربات کی ضرورت ہے ۔ پارکر نے گذشتہ ماہ دسمبر میں سورج کے قریب اپنا 10 واں چکر لگالیا تھا۔ یہ جہاز کورونا کی گہرائی میں آتا جاتا رہے گا اور 2025 ء میں اس کا مدار آخری ہوسکتا ہے۔ سورج کی سطح کے آغاز پر پہنچے والے پارکر خلائی جہاز کا کام ہے کہ وہ شمسی ہوا کو ڈی ٹیکٹ کرے اور اس کے مقناطیسی میدان کے بارے میں ڈیٹا وتصاویر جمع کرے ۔ سورج کا یہ گرم ترین ماحول ہے جو شمسی مواد پر مشتمل ہے، یہ کشش ثقل اور مقناطیسی میدان کے زیراثر سورج کو قابو میں کیے ہوئے ہے۔ سورج کے حوالے سے حالیہ انسانی پیش رفت آنے والے وقتوں میں نوع انسانی کے لیے بڑی کام یابیوں کی نوید لے کر آئے گی۔

نئی دریافت جو کہ شمسی سطح سے قریب جانے سے ممکن ہوسکی ہے وہ عام خلائی جہازوں سے ممکن نہ تھی، کیوںکہ ان کی ساخت سورج کے اندر کی حرارت و گرمی کو سہنے کے لائق نہ تھیں اور وہ سورج کے مقام سے پرے رہے تھے۔ دوسرے چین کو ایتلافی ری ایکٹروں کی بے مثال کام یابی نصیب ہوئی ہے۔ چین سورج کے بعد اب 'مصنوعی چاند' پر بھی تجربہ کرنے جارہا ہے جس کا مقصد توانائی کا حصول تو نہیں بلکہ کشش ثقل پر قابو پانے کے تجربات کرنا ہے۔ یہ چاند محض 60 سینٹی میٹر کا ہے جس کا مصنوعی ماحول بنانے کے لیے لیبارٹری تعمیر کی جاچکی ہے۔
چین اور امریکا کی حالیہ یہ اہم کام یابیاں اب تک انسانی علم وہنر کی معراج ہیں۔ مشرق سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت اور نئی سائنس و ٹیکنالوجی پاور کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق کے اُس شعر کی گونج ذہنوں میں سنائی دیتی ہے جو انہوں نے سورج کے حوالے سے کہا ہے اور آج مغرب پر فٹ بیٹھتا ہے:

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ ، فضاء دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں