یہ سب سراب ہے
تین برسوں سے ان دونوں جماعتوں کے رہنما آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کی آشیرباد کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں
ISLAMABAD:
یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں اپنے قائد بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری بل کی منظوری پر سینیٹ میں حاضر نہ ہونے پر وضاحت کی۔ اخباری خبر کے مطابق بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی کی وضاحت سے مطمئن نہ ہوئے۔
یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے اجلاس میں گئے اور اپنی تقریر میں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ سنایا اور استعفیٰ پارٹی کی قیادت کو بھجوانے کا اعلان کیا ، مگر سینیٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت سینیٹ چیئرمین کو استعفیٰ نہیں دیا۔ ایک خبر کے مطابق بلاول بھٹو نے انھیں اس عہدہ پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے اپنی تقریر میں کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے نہ آکر اچھا کیا۔ مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف نے کہا کہ مشاہد حسین اور گیلانی نے ذمے داری نہیں نبھائی۔ مسلم لیگ کی ایک اور رکن سعدیہ عباسی نے اپنی تقریر میں کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے اصولوں اور جمہوریت کی خاطر وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ دیا تھا ، پیپلز پارٹی کی قیادت استعفیٰ قبول نہ کرے۔ گزشتہ جمعہ کو سینیٹ میں جب اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل پیش ہوا تو یوسف رضا گیلانی اور مشاہد حسین سید سمیت حزب اختلاف کے 8سینیٹر موجود نہیں تھے۔
ان میں سے 6کا تعلق دلاور خان گروپ سے ہے جو 6 ارکان پر مشتمل ہے۔ دلاور خان گروپ کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی حزب اختلاف کے قائد منتخب ہوئے تھے۔ دلاور خان کے 6میں سے 4 اراکین نے حکومتی بل کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ دلاور خان نے یہ منطق بیان کی کہ وہ قائد حزب اختلاف کے دفتر میں اس بل سے متعلق گفت و شنید کے لیے گئے تھے مگر گیلانی موجود نہیں تھے ، دلاور خان اور ان کے ساتھیوں کو وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملاقات کے لیے بلایا۔ شوکت ترین کے دلائل سے وہ اس بل کی حمایت میں تیار ہوئے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کورونا میں مبتلا ہیں مگر سید صاحب کا اپنی بیماری اور اس صورتحال کے بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا مگر مسلم لیگی رہنما جاوید لطیف نے یہ ضرور تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مشاہد حسین نے ذمے داری کا ثبوت نہیں دیا۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین کا حکومتی بنچوں سے ساز باز کا رویہ 2018 کے انتخابات سے پہلے کا ہے۔ اس وقت اچانک پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مسلم لیگ حکومت پر حملوں میں تیزی پیدا کردی تھی۔ سینیٹ کے درمیانی مدت کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور اٹھارہویں ترمیم کے روح رواں میاں رضا ربانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کی پیشکش کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری نے یہ پیشکش مسترد کی تھی۔ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ایک آزاد رکن صادق سنجرانی امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
سنجرانی کبھی پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ کے قریب رہے تھے۔ اس دفعہ وہ پیپلز پارٹی اور اس کی شدید مخالف جماعت تحریک انصاف کے قریب ہو گئے اور راجہ ظفر الحق کو ہرا کر سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے، تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا، یوں ملک کی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات لگانے والی تحریک انصاف ایک امیدوار پر متفق ہوئی تھی مگر انتخابات کا موسم آیا تو پنجاب میں ''محکمہ زراعت'' کے اہلکاروں کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔
مسلم لیگ ن کے منتخب ہونے کی اہلیت رکھنے والے اراکین نے ہجرت شروع کردی اور سرائیکی صوبہ محاذ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ سرائیکی محاذ بنانے والے پیپلز پارٹی کا حصہ بنیں گے، یوں پیپلز پارٹی نئی قومی اسمبلی میں سب سے بڑا گروپ ہوگی مگر آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں نے عمران خان کے سر پر تاج رکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا ، یوں آصف زرداری کی یہ ریاضت رائیگاں گئی۔ متحدہ حزب اختلاف نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ بنانے پر اتفاق کیا۔
اس وقت سینیٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو قطعی اکثریت حاصل تھی مگر تحریک انصاف کی حکومت کے برطانوی پارلیمنٹ کی طرح روایات پر عمل پیرا ہونے کے دعوے ہوا میں تحلیل ہوئے ۔ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی تعویز ہیں۔ ایک صحافی جو پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور خبروں کے پس منظر کی وجوہات کی جستجو میں رہتے ہیں ، انھوں نے لکھا کہ جب سینیٹ میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی تو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بہت پرامید تھے مگر جس دن یہ تحریک سینیٹ میں پیش ہوئی تھی اس دن صبح صبح ایک سینیٹر نے میاں صاحب کو آگاہ کیا تھا کہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی، ان کے 16 کے قریب سینیٹرز لاپتہ ہوگئے ہیں۔
کشمیر کے الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر نبیل گبول نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمایا تھا کہ ہم سے وعدہ تو 16 نشستوں کا کیا گیا تھا مگر ہمیں 11 نشستیں ملیں۔ اس وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی مگر عملا کچھ نہیں ہوا۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ مشاہد حسین سید کی عدم دلچسپی کی بناء پر سینیٹ میں انسانی حقوق جیسی اہم کمیٹی کی چیئرمین شپ حکومت کے پاس چلی گئی تھی اور موصوف نے وزارت دفاع کی کمیٹی کی چیئرمین شپ کو ترجیح دی۔بہتر وضاحت مشاہد حسین ہی کر سکتے ہیں۔
گزشتہ چار برسوں سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرگرداں رہی ہیں اور کمزور اشارے ملتے ہی عمران خان کی حکومت کو گرانے کے اعلانات جاری کرتی رہی ہیں جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی قوتوں نے تحریک انصاف کے لیے اسلام آباد کا راستہ صاف کیا۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں حزب اختلاف کا اتحاد تحریک بحالی جمہوریت 1973کے آئین اور مارشل لاء کے خاتمہ پر متفق تھا۔ پیپلز پارٹی کے جس رہنما نے ان اصولوں سے انحراف کیا وہ تنہا رہ گیا۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق حکومت کی ملک اور غیر ملکی ممالک میں کارروائیوں کی حزب اختلاف جرات کے ساتھ مذمت کرتی تھی مگر عجیب بات یہ ہے کہ اب یہ جماعتیں ہر معاملہ پر خاموش ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری گزشتہ دو ماہ سے پنجاب اور وفاق میں عدم اعتماد کے ذریعہ موجودہ حکومت کے خاتمہ کا فارمولہ پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اندر بلاول بھٹو سے کوئی یہ سوال کرنے والا نہیں ہے کہ جب سینیٹ کی اکثریت کے باوجود حزب اختلاف کو بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیسے کامیاب ہوگی؟
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جمہوری نظام کے استحکام کا عزم کرتے ہیں مگر گزشتہ تین برسوں سے ان دونوں جماعتوں کے رہنما آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کی آشیرباد کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام حزب اختلاف سے بھی مایوس ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما تبدیلی لانے اور لانگ مارچ کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی کی نوید دیتے ہیں ، مگر اس معروضی صورتحال سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب سراب ہے۔