امن کی تلاش اور بھارتی طرز عمل
بھارت کاخیال ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکے مسائل کونظرانداز کرکے اپنا سیاسی ایجنڈا طاقت کی بنیاد پرکشمیریوں پرمسلط کرسکتا ہے
کراچی:
پاکستان بھارت کے درمیان بہتر تعلقات میں ایک بڑا نقطہ مقبوضہ کشمیر کا حل بھی ہے ۔ کیونکہ قومی سلامتی پالیسی کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے حل کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری ممکن نہیں ہوگی۔
یہ بات درست ہے کہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر کا حل ممکن نظر نہیں آتا ،لیکن آگے بڑھنے کے لیے دونوں ممالک کو اس اہم اور سنجیدہ مسئلہ پر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا کر ہی بہتری کا راستہ تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ بھارت اس مسئلہ کشمیر پر دو طرفہ بات چیت کے لیے بالکل تیار نہیں اور اس کے بقول مقبوضہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عدم مذاکرات کی بھارتی پالیسی کے سبب اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈ لاک ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس مسئلہ کا حل نکالنا چاہتا ہے ۔بھارت کا جارحانہ رویہ مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے،عالمی قوتیں بھی اس مسئلے کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہیں،ان کی حمایت بھی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میںپانچ اگست 2019کو مودی اور بی جے پی کی حکومت نے ایک صدارتی حکم نامہ بھارتی ایوان بالا کی سطح پر پیش کیا جس میں بھارتی آئین کی شق370کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جو ایک خاص منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اسے فوری طور پر منظور بھی کرلیا گیا۔ اس شق کے تحت کشمیر کو بھارتی وفاق میں ایک مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی ۔اسی طرح آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے ساتھ ہی آرٹیکل 35-Aبھی ختم کردیا گیا۔یہ آرٹیکل 1954کے ایک صدارتی حکم کے تحت شامل کیا گیا تھا۔
اس آرٹیکل کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے کہ ریاست کے مستقل رہائشی کون ہیں ، اسی شق کے تحت یہاں کے رہائشیوں کو سرکاری ملازمت، جائیدادکے حصول ، آباد کاری ، اسکالر شپ اور امداد کی دیگر اقسام کے حق سے متعلق خصوصی مراعات ملتی ہے ۔ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو مستقل رہائشیوں کے علاوہ کسی دوسرے شخص پر کوئی بھی پابندی عائد کرنے کی اجازت ہے۔
آئین کے آرٹیکل 370کی منظوری کے بعد جموں وکشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا ۔اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیر انتظام و علاقے بن جائیں گے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا نام لداخ اور ان کو لیفٹینٹ گورنر چلائیں گے۔ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہوگی البتہ لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی ۔اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے داخلی امور وزیر اعلیٰ کے بجائے براہ راست وفاقی وزیر داخلہ کے تحت آجائیں گے جو لیفٹینٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔
پاکستان نے سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر کافی سرگرم کردار ادا کیا اور بھارت کے 2019ء کے اقدامات سمیت مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی پامالی اور بھارت کے جنگی عزائم کو پوری دنیا میں بری طرح بے نقاب کیا ۔ بالخصوص وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کی جانے والی تقریر نے کافی عالمی دنیا کو اس اہم مسئلہ پر متوجہ بھی کیا۔
پاکستان کے بقول جب تک نئی دہلی کی طرف سے متنازعہ خطہ کی نیم خود مختار آئینی حیثیت بحال نہیں کی جاتی پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا ۔جس کے بعد سے دونوںملکوں کے درمیان حالات میں کشیدگی باقی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں پچھلی تین دہائیوں میں 95,971کشمیری شہید ہوئے ، 107857بچے یتیم ہوئے، 11247عورتوں کی عصمت دری ہوئی، 7000گمنام قبریں کھودی گئیں ،جب کہ اگست 2019 سے لے کر اب تک 538شہری شہید کیے گئے، 33 عورتیں بیوہ ہوئیں 82بچے یتیم ہوئے، 2189زخمی ہوئے جب کہ 17184گرفتار ہوئے۔
یہ ساری صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کی بالادستی کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کی تمام تر جارحیت یا انسانی حقوق کی پامالی کے کھیل کو برداشت کررہے ہیں۔
بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری عالمی دنیامیں موجود انسانی حقوق کے ادارے بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی پامالی کے جرم میں شریک ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ہیومین رائٹس واچ، یورپی یونین سمیت تمام اداروں کی رپورٹ موجود ہیں جو بھارت کے جنگی عزائم کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں ۔ اسی طرح بی بی سی ، سی این این سمیت میڈیا کی رپورٹس بھی موجود ہیں جو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتی ہے۔
خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو بھارتی ریاست، حکومت اور بالخصوص نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اس وقت نریندر مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں موجود اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی سیاست کا حصہ ہے ۔ پچھلے دنوں 100سے زیادہ سابق ججوں ، جرنیلوں اور بیوروکریٹ نے صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس کو خطوط لکھے اور ان کو احساس دلایا کہ نریندر مودی کی انتہا پسند پالیسیوں پر خاموشی ترک کریں ۔ اسی طرح کچھ عالمی رپورٹس نے یہ بھی پیغام دیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک بڑے غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے پانچ اگست 2022 کے تناظر میں درست بات کی ہے کہ اس وقت خطہ کی مجموعی سیاست کے تناظر میں بھارت اور اس کی موجودہ حکومت امن کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے ۔ان کے بقول دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور عالمی دنیا کو ان تمام مظالم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں بھارت کا مجموعی رویہ کافی سخت گیر ہے اور وہ حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اس میں اور زیادہ شدت پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
وہ تنازعات کو بات چیت یا مذاکرات کے بجائے طاقت کی بنیاد پر حل کرنا چاہتا ہے ۔ یہ ہی وہ رویہ ہے کہ جو اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمایت دیگر معاملات پر بھی ڈیڈ لاک سمیت محاذ آرائی یا کشیدگی کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کے لیے بھی بھارت کسی تیسری قوت کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے بقول یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور کسی فریق کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ہمیں ڈکٹیشن دے۔
پاکستان واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں اصل فیصلہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کرنا ہے اور جو وہ چاہتے ہیں اسی کو ہمیں بنیاد بنانا ہوگا۔ لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی آوازوں کو بھی سننے کے لیے تیار نہیں ۔ یہاں تک کے وہ لوگ جو کل تک دہلی حکومت کے ساتھ تھے جن میں فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وہ بھی اس وقت دہلی حکومت اور نریندر مودی کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
بھارت کا خیال ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسائل کو نظر انداز کرکے اپنا سیاسی ایجنڈا طاقت کی بنیاد پر کشمیریوں پر مسلط کرسکتا ہے تو اسے اس بخار سے باہر نکلنا ہوگا ۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اگر وہاں بھارتی اقدامات پر لوگ نہ صرف خوش نہیں بلکہ دہلی حکومت کے خلاف ان کی مزاحمت بھی جاری ہے ۔ ایسے میں اصل سوال عالمی سطح پر مضبوط اور طاقت ور حکومتوں کی سیاسی بے حسی بھی ہے جو ان معاملات پر بیان بازی سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں ۔ کیونکہ عالمی سطح پر حکمرانوں کی خاموشی نے عملی طور پر کشمیر کی صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے اور زیادہ سنگین کردیا ہے ۔
حالانکہ اگر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہتر ہوگی اور وہاں کے لوگوں کے جائز حقوق کی پاسداری کو ممکن بنایا جاتا ہے تو اس کا عملی نتیجہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری سمیت خطہ کی مجموعی صورتحال کو بھی بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔ اس وقت جو سیاسی ڈیڈ لاک پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے اس کی وجہ بھارت ہی ہے اور گیند عملی طو رپر اس وقت بھی بھارت کی کورٹ میں ہی ہے کہ وہ معاملات کو درست کرنے میں اپنی روائتی سیاست سے باہر نکلے ، وگرنہ حالات مزید بگاڑ کا شکار ہونگے اور اس کی بڑی ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوگی۔