پیپلز پارٹی جماعت اسلامی بلدیاتی معاہدہ
ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہارکیا ہے
کراچی:
جماعت اسلامی کے 29 روزہ دھرنے کے نتیجے میں سندھ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان بلدیاتی معاہدہ طے پا گیا ، جو بلدیاتی قانون میں ترمیم کے حوالے پر مبنی ہے اور حکومت سندھ اسمبلی میں ترامیم منظور کرائے گی۔
ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے اس معاہدے پر تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کو دھوکا دیا ہے اور حکومت سندھ کے کالے بلدیاتی قانون میں دکھائوے کی ترمیم جماعت اسلامی کے لیے جعلی خوشی ثابت ہوگی۔ ایم کیو ایم کا بھی موقف ہے کہ حکومت نے جماعت اسلامی کو دھوکا دیا ہے اور ایم کیو ایم اس معاہدے کو مسترد کرتی ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سربراہی ماضی میں تین تین بار ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے پاس رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی نظام میں پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں ایم کیو ایم کے بااختیار سٹی ناظم رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں جماعت اسلامی کے دو بار اور متحدہ قومی موومنٹ کا کراچی کا ایک بار میئر رہ چکے ہیں۔
2013 کے بے اختیار سندھ حکومت کے بلدیاتی نظام میں سابق میئر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا جسے وہ بے اختیار نظام قرار دیتی ہے۔ ماضی میں ایک بار جماعت اسلامی کا میئر اور پیپلز پارٹی کا ڈپٹی میئر رہ چکے ہیں اور 13 سالہ سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اس سال اگر بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی اپنی منصوبہ بندی کے تحت پہلی بار اپنا میئر لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتوں نے جو بلدیاتی نظام منظورکیے ہیں اس کے تحت وہاں میئروں کا انتخاب براہ راست ہوگا جب کہ سندھ میں ایسا نظام نہیں ہے اور 323 یوسیز چیئرمین میئر کراچی کا انتخاب کریں گے۔ جماعت اسلامی کی مدد سے پیپلز پارٹی اپنا میئر باآسانی منتخب کرالے گی اور ڈپٹی میئر کا عہدہ جماعت اسلامی کو دینے پر سندھ حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور جماعت اسلامی سے کیے گئے معاہدے میں میئرکراچی کو جو اضافی اختیارات ملیں گے اس کا مکمل فائدہ پی پی کے منتخب میئرکراچی کو ہوگا اور پہلی بارکراچی میں اپنا میئر لے آئے گی۔
جماعت اسلامی کو پتا ہے کہ سندھ میں پی پی کی 13 سال سے حکومت ہے اور آیندہ بھی پی پی کی حکومت بن سکتی ہے۔ جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں نائب ناظم کا عہدہ (ق) لیگ کے طارق حسن آرائیں کو دے چکی ہے اور اسے امید ہے کہ پی پی اسے ڈپٹی میئر کا عہدہ دے دے گی ۔
جماعت اسلامی ماضی میں کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی جو ایم کیو ایم بنوا کر ختم کرائی گئی تھی جو مقصد پورا ہونے کے بعد تقسیم کرا دی گئی اور قائد متحدہ سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پی ایس پی کی سیاسی طاقت ایم کیو ایم کو نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہے جب کہ ایم کیو ایم میں ڈاکٹر فاروق ستار کی واپسی بھی اب یقینی ہے اور ایم کیو ایم حقیقی اور ایم کیو ایم پاکستان میں قربتیں بڑھی ہیں جب کہ پی ایس پی کے ایم کیو ایم کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایم کیو ایم بنانے والوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی بار ایم کیو ایم حقیقی بنوا لی تھی جس کے موثر ثابت نہ ہونے پر متحدہ کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کو دبئی سے بلوا کر ایم کیو ایم میں بڑا شگاف ڈالا گیا تھا اور 2018 کے عام الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان میں دوسرا بڑا شگاف ڈلوا کر اسے اپنے نائن زیرو کے مضبوط حلقے میں بھی ہرایا گیا اور پی ٹی آئی کو کراچی کی جو شہری نمایندگی دلائی گئی اسے ہر سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم بھی نہیں مانتی مگر اپنے ماضی کے کردار اور پی ٹی آئی کی کمزور شہری نمایندگی کے باوجود پی ٹی آئی کی اتحادی ہے اور سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ساتھ پی پی کی سندھ حکومت میں اپوزیشن کا غیر موثر کردار ادا کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی سے بہت دور ہو چکی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کو ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود سندھ حکومت میں شمولیت کی آفر کی تھی جس پر ایم کیو ایم نہیں مانی تھی۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کراچی کی موثر سیاسی قوت ہے جسے اب سندھ حکومت اپنا مستقبل میں سیاسی حلیف بنانے پر مجبور ہوئی ہے کیونکہ باقی تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کی مخالف اور پی پی کے خلاف متحد ہیں۔ اس لیے پی پی نے جماعت اسلامی کے دھرنے میں اپنا نرم رویہ رکھا اور جماعت اسلامی کو بلدیاتی نظام میں ترمیم کی یقین دہانی کرا کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے ، جوکراچی کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔