بھارتی صوبائی انتخابات میں پاکستان مخالف آوازیں

ہندومذہب کی بنیاد اور تعصب پر یوگی ادیتیا ناتھ نے طاقت، دولت اور اقتدار حاصل کیا ہے


Tanveer Qaisar Shahid February 07, 2022
[email protected]

بھارت کو اگر دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے تو اس کے کچھ عوامل بھی ہیں ، خواہ ہمیں بھارت کی یہ عالمی پہچان پسند نہ ہی آئے۔

بھارتی جمہوریت کی دو بڑی خصوصیات ہیں : ایک تو یہ کہ بھارت میں کبھی مارشل لا نافذ ہُوا ہے نہ کسی نے بھارتی آئین کو پامال کیا ہے ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بھارت میں صوبائی اور مرکزی انتخابات باقاعدہ منعقد ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر کبھی متنازع بھی نہیں رہے ۔

اب پھر بھارت میں ریاستی سطح پر انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے ۔ ابتدائی طور پر پانچ انڈین اسٹیٹس میں الیکشن ہو رہے ہیں ۔ ان ریاستوں کے نام یہ ہیں: اُتر پردیش، اُتر کھنڈ، گوا ،منی پور اور مشرقی پنجاب۔انتخابات کا آغاز 10فروری 2022 سے ہوگا اور اختتام 10مارچ کو ۔باقی ریاستوں میں یہی عمل بعد ازاں ہوگا۔ زیادہ زور مشرقی پنجاب اور اُتر پردیش کی ریاستوں میں لگ رہا ہے ۔

مشرقی پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے جب کہ بقیہ چار ریاستوں میں بی جے پی کا پرچم لہرا رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کی پُر زور کوشش ہے کہ وہ اپنا اپنا اقتدار ووٹ کی طاقت سے پھر سے حاصل کر سکیں ۔ مشرقی پنجاب کے کانگریسی وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنّی ہیں جو اگرچہ ذات برادری اور شخصی اعتبار سے کمزور ہیں لیکن انھیں کانگریس کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔

چنّی صاحب سے قبل مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ تھے جنھیں اقتدار سے محروم کرنے میں سیاستدان و کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے اساسی کردار ادا کیا۔ جب کہ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ مشہور قوم پرست ، کٹر ہندو بنیاد پرست پروہت لیڈر یوگی ادیتیا ناتھ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے تمام بھارتی ریاستوں کے طاقتور ترین اور ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ اور سیاستدان ہیں ۔

ہندومذہب کی بنیاد اور تعصب پر یوگی ادیتیا ناتھ نے طاقت، دولت اور اقتدار حاصل کیا ہے ۔ یوگی جی کے مقابل آئے ہیں سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادیو جی۔ ان کے بارے میں یوگی جی زہر افشانی کرتے ہُوئے کہہ رہے ہیں: ''اکھلیش دراصل(محمد علی) جناح کے پجاری ہیںاور ہم ولبھ بھائی پٹیل کے ۔ اکھلیش کے دل میں پاکستان دھڑکتا ہے جب کہ ہمارے دل میں بھارت ماتا۔''

پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کا نام یوگی جی اس لیے لے رہے ہیں کہ'' سماج وادی پارٹی'' کو اُتر پردیش کے مسلمانوں کی اکثریتی حمایت حاصل ہے اور یہ بات ادیتیا ناتھ کے لیے بڑی تکلیف دِہ ہے ۔

ابتدائی طور پر ویسے تو پانچ بھارتی ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن سارے ہندوستان کی نظریں اُترپردیش پر لگی ہُوئی ہیں ۔آبادی کے اعتبار سے اُترپردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے جب کہ رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ''راجستھان'' ہے جس کی سرحدیں ہمارے صوبہ سندھ سے متصل ہیں ۔ اُتر پردیش صوبائی اسمبلی کی 403سیٹیں ہیں ۔جتنی پاکستان کی کُل آبادی ہے ، اتنے تو اُترپردیش کے ووٹر ہیں ۔

پچھلے پانچ سال کے دوران وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیا ناتھ سیاست اور سماج میں بہت متحرک رہے ہیں ۔انھوں نے بنیاد پرست ہندوؤں اور بی جے پی کے متعصب کارکنوں کی خوشنودی کے لیے ہر اقدام کیا ہے ۔ اُتر پردیش کے مسلمان اجتماعی طور پر یوگی جی کے اقدامات اور پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں ۔

یوگی ادیتیا ناتھ کو اُتر پردیش کے مسلمان ووٹروں کی اتنی پروا بھی نہیں ہے ۔ وہ برملا اور غیر مبہم الفاظ میں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ'' مَیں مسلمانوں کے لیے سر بھی کٹوا لُوں تب بھی یہ لوگ مجھے ووٹ نہیں دیں گے ، اس لیے مَیں نے ووٹ کے لیے ان کے آگے ہاتھ اور جھولی دراز کرنا ہی چھوڑ دیاہے۔ ''

سوال یہ ہے کہ یوگی ادیتیا ناتھ، جو اُتر پردیش کے طاقتور وزیر اعلیٰ بھی ہیں اور اُترپردیش کا منہ متھا بھی،اُتر پردیش ایسی بڑی ریاست کے کس علاقے سے انتخابات میں حصہ لیں گے ؟یوگی ادیتیا ناتھ ایسی کٹر بنیاد پرست ہندو سیاسی شخصیت، جو ہمیشہ ہی زعفرانی رنگ کا کرتا اور دھوتی پہنتے ہیں، اُتر پردیش کے کئی ہندو مذہبی شہروں ( مثلاً وارنسی ، ایودھیا، متھرا وغیرہ) میں خاصے مقبول ہیں ۔وہ ان شہروں میں کھڑے ہو کر آسانی کے ساتھ صوبائی انتخابات جیت سکتے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم ، نریندرمودی، کی طرف سے انھیں مگر صاف الفاظ میں کہہ ڈالا گیا ہے کہ وہ ایودھیا کا انتخابی رُخ نہ کریں تو بہتر ہوگا؛ چنانچہ سرکاری سطح پر بی جے پی کی مرکزی اور فیصلہ کن قیادت کی جانب سے، جنوری2022کے دوسرے ہفتے، اعلان کر دیا گیا کہ یوگی ادیتیا ناتھ اپنے آبائی علاقے (گورکھ پور) ہی سے انتخابات میں حصہ لیں گے (گورکھ پور حلقے سے وہ پہلے بھی پانچ بار جیت کر بھارتی قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ) چنانچہ دیکھا جائے تو انچاس سالہ یوگی جی کے لیے یہ انتخابات خاصے اہم ثابت ہوں گے ۔

اُن کے مقابل'' سماج وادی پارٹی'' کے علاوہ کانگریس کی پریانکا گاندھی بھی ہیں۔ اپنی مقبولیت پر یوگی ادیتیا ناتھ کو اتنا گھمنڈ اور غرور ہے کہ وہ ہر جلسے میں کھلے الفاظ کے ساتھ اپنے سبھی حریفوں کو للکارتے ہُوئے یوں کہتے سنائی دیتے ہیں:'' بھلا ان بیچاروں کا یوگی سے کیا مقابلہ؟'' اُتر پردیش میں یوگی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کے چاہنے والے اُن کا نام لینے کے بجائے انھیں ''مہاراج'' کے نام سے پکارتے ہیں۔

بی جے پی نے اُتر پردیش کے ان ریاستی انتخابات میں10ایسی لڑاکا کٹر ہندو خواتین کو اپنے ٹکٹ دیے ہیں جن کے بارے میں بی جے پی کو یقینِ کامل ہے کہ وہ اس قدر متعصب اور جارح ہیں کہ کوئی بھی غیر بی جے پی سیاستدان اُن کے سامنے بمشکل ہی ٹھہر سکے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اُترپردیش کے انتخابات میں ہندوتوا کی مسموم مذہبی اور بنیاد پرست ہوائیں مرکزی کردار ادا کررہی ہیں تو ایسا کہنا بے جا نہیں ہوگا۔

بی جے پی اور آر ایس ایس کو یقین تھا کہ یوگی ادیتیا ناتھ نے بطورِ وزیر اعلیٰ اُتر پردیش میں ہندو مذہب کی اس قدر ترویج کی ہے کہ وہ یقیناً ایودھیا ( جہاں صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ ایک نیا مندر پوری شان و شوکت سے تعمیر کے مراحل تیزی سے طے کررہا ہے ) یا متھرا ہی سے انتخابات لڑیں گے لیکن یہ دونوں شہر بی جے پی قیادت نے ایسے ہندو سیاستدانوں کے لیے محفوظ رکھے ہیں کہ وہ کسی طرح کمزور تھے اور اب ہندو بنیاد پرستی کی چھتری تلے انھیں کامیاب کروایا جائے گا۔

بھارت میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اس وقت سیاسی اور مذہبی طور پر جو شخص ملک بھر میں وزیر اعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ، وہ صرف یوگی ادیتیا ناتھ ہے ۔ نریندر مودی بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں ، اس لیے تازہ ریاستی انتخابات میں وہ یوگی ادیتیا ناتھ سے نہائت محتاط رویہ اپنائے ہُوئے ہیں ۔ یہ نریندر مودی کا حکمِ خاص ہی تو تھا کہ یوگی جی کو صرف گورکھ پور سے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے ۔

اگر یوگی جی دوبارہ وزیر اعلیٰ اُتر پردیش بن گئے تو یہ ایک بڑا ریکارڈ ہوگا۔ پچھلے تین عشروں کے دوران ِ سوائے ایک سیاستدان کے، کوئی بھی سیاستدان دوبار وزیر اعلیٰ اُتر پردیش نہیں بن سکا ہے۔ یہ اعزاز صرف کانگریس کے این ڈی تیواڑی کے حصے میں آیا تھا ۔ اُتر پردیش کے 22کروڑ ووٹروں کی اکثریت حاصل کرنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہوگا۔یوگی ادیتیا ناتھ تنِ تنہا یہ تاریخ ساز کامیابی حاصل کرنے کے جنوں میں مبتلا ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں