افغانستان خواتین کی تعلیم کا حق
موجودہ پاکستانی حکومت طالبان کے خواتین پر قدغن لگانے کی ڈاکٹرائن کی مخالفت نہیں کر رہی
RAWALPINDI:
ذرشتہ کا تعلق دنیا کے پسماندہ ترین ملک افغانستان کے صوبہ نغمان سے ہے۔ 27 سالہ ذرشتہ جو نغمان یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی طالبہ ہیں ، ان کو ایک سال یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ملا ہے مگر وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ طالبان حکومت پھر یونیورسٹیاں بند کردے گی۔ طالبان نے گزشتہ موسم گرما میں کابل پر قبضہ کیا۔ خواتین کے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں بند کردی گئی تھیں۔
اساتذہ جن میں خواتین بھی شامل ہیں کا کچھ نہیں پتہ ۔ اسلام آباد میں طالبان حکومت کے ہمدردوں نے کئی بار یہ خبریں ذرائع ابلاغ میں شائع کرائی تھیں کہ طالبان حکومت نے خواتین کے تمام تعلیمی ادارے کھول دیے ہیں مگر اس کے برعکس بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کرنے پر خوب خبریں اور فیچر میں تصاویر شائع اور نشر کیں۔ امریکا، یورپی یونین اور بین الاقوامی دنیا نے افغانستان کی امداد بند کردی۔
امریکا نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے ضبط کرنے کا فیصلہ کیا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے واضح کرنا شروع کیا کہ افغانستان کا اقتصادی ڈھانچہ مفلوج ہونے اور انتظامی بدحالی کی بناء پر انسانی المیہ جنم لینے والا ہے ، تو پھر کابل میں فیصلہ ساز گروہوں نے صورت حال کی سنگینی کو محسوس کیا۔ گزشتہ ماہ طالبان حکومت کا ایک وفد ناروے گیا اور یورپی افسروں سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات میں ایک نکتہ خواتین کو تعلیم اور روزگار حق بھی شامل تھا۔
ان مذاکرات کے نتیجہ میں خواتین کی کچھ یونیورسٹیاں کھلنے کے احکامات صادر ہوئے۔ اب نغمان یونیورسٹی کے علاوہ چند دیگر صوبوں میں یونیورسٹیاں کھلنے کے ساتھ طالبان نے لباس کے حوالہ سے خواتین پر نئی قدغنیں لگادی ہیں۔ اب خواتین کو مکمل طور پر برقعہ پہن کر اور جسم کے تمام حصوں کو چھپا کر یونیورسٹیوں میں داخلہ کی اجازت ملی ہے۔ مرد حضرات روایتی افغان لباس زیب تن کرنے کے پابند ہیں۔ طالبان حکومت نے مخلوط تعلیم کو غیر اسلامی قرار دیا ہوا ہے ۔ طالبان کا نظریہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ کلاسوں میں بیٹھنا ہوگا اور ہر صورت میں پردے کی پابندی ہوگی۔
افغانستان میں دوسرے شعبوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی مسائل کا شکار ہے۔ یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ کی کمی سے فرانسیسی خبررساں ایجنسی کی نامہ نگار کو طالبان حکومت نے رپورٹنگ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس نامہ نگار کی ایک رپورٹ کے مطابق نغمان یونیورسٹی میں 256 طالبات کے لیے صرف ایک خاتون استاد میسر ہے۔
افغانستان میں صرف طالبات ہی نہیں طلباء بھی اپنی حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر پریشانی کا شکار ہیں۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کو کھولتے وقت یہ فیصلہ کیا ہے کہ شریعت کے قوانین کے تحت تعلیم دی جائے گی۔ طالبان کی اس ڈاکٹرائن کی بناء پر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے و الے طلبہ اور اساتذہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔
شعبہ ریاضیات کے طالب علم عظیم ملک حمدانی کا کہنا ہے کہ تعلیم ترقی کی بنیاد ہے اور سائنس کی تعلیم سب سے زیادہ اہم ہے مگر طالبان سائنس کے تمام شعبوں خصوصاً طبی تعلیم کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کی ڈاکٹرائن سے فزیولوجی، گائنی، نفسیاتی علوم اور انتھالوجی کے شعبے خاص طور پر متاثر ہوچکے ہیں۔ یہی معاملہ علاج کا ہے۔ خواتین کو مرد ڈاکٹروں سے علاج اور خاص طور پر آپریشن کا حق ملے گا یا نہیں؟
گزشتہ صدی میں افغانستان میں ایک معتدل معاشرہ تھا۔ شاہ ظاہر شاہ نے محدود پیمانہ پر تعلیم کو اہمیت دی تھی مگر خواتین شہروں میں یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتیں، کابل کی سڑکوں پر اپنی مرضی کا لباس پہن کر کام کرتیں، خواتین کو سائیکل استعمال کرنے اور کسی بھی فرد کے ساتھ سفر کی آزادی تھی۔ سردار داؤد کے دور میں بھی یہی صورتحال رہی۔ نور محمد تراکئی کی قیادت میں انقلاب آیا۔ کامریڈ نور محمد تراکئی خواتین کی آزادی ان کے حالات کارِ کو بہتر بنانے کے سب سے بڑے حامی تھے۔
اس انقلابی حکومت نے عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی تھی۔ خواتین کے تعلیم ، صحت اور روزگار کے حق کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ میں خواتین کو شامل کیا گیا۔ یہی صورتحال ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمہ تک رہی۔ افغان مجاہدین کی حکومت نے خواتین کے حقوق پر کوئی باقاعدہ پابندی نہیں لگائی مگر طالبان کا دور اس اعتبار سے بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں خواتین پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند ہوئے۔
بغیر محرم کے گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو کوڑے مارے گئے ، مزاحمت پر خواتین کو قتل کرنا عام سی بات ہوگئی۔ صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پشاور اور کوئٹہ میں بھی مزاحمتی تحریک منظم کرنے والی خواتین کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ کرزئی حکومت کا دور خواتین کے لیے بہتر دور تھا اور ڈاکٹر اشرف غنی کے ادوار میں خواتین کے حقوق کے لیے آئینی اقدامات ہوئے، پالیسیاں بھی بنائی گئیں، غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے خواتین کی بہبود کے لیے بہت سے کام کیے۔
اب افغانستان میں خواتین صرف تعلیم کے شعبہ تک محدود نہیں رہیں بلکہ صحافت، میڈیکل، وکالت اور انجینئرنگ سمیت تمام شعبوں میں خواتین کی نمایندگی ہوئی اور اب خواتین ججوں کا تقرر ہونے لگا۔ جنگجوؤں نے اس دوران بہت سی خواتین کو قتل کیا۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تعلیم یافتہ خواتین کا مستقبل مخدوش ہوا ۔ گزشتہ سال طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ان کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت صرف خواتین نے کی تھی۔
حکومت نے افغانستان کا پرچم تبدیل کرنے کی کوشش کی تو خواتین نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے جنھیں پولیس اہلکاروں نے طاقت کے زور پر منتشر کیا۔ مگر اس دفعہ خواتین کی مزاحمتی تحریک مختلف شہروں میں نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ دنوں دوبارہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ تمام خواتین ان کے حامی کارکنوں کو افغان حکومت جیلوں سے رہا کرے۔ پاکستان کی حکومت طالبان حکومت کی واحد حامی ہے۔
موجودہ پاکستانی حکومت طالبان کے خواتین پر قدغن لگانے کی ڈاکٹرائن کی مخالفت نہیں کر رہی مگر خواتین کی ترقی کے بغیر غربت اور افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ افغانستان میں خواتین کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ آدھی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ لوگ بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
زچہ بچہ اور حاملہ خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ، اگر خواتین کو تعلیم کا حق نہیں ملا اور زندگی کی دوڑ میں برابری کی بنیاد پر شرکت کی راہ میں رکاوٹیں ختم نہ ہوئیں تو پھر افغانستان میں مسلسل انسانی المیے جنم لیں گے۔